بسم اﷲ الرحمن الرحیم
فیصلہ سنتے ہی دیہاتی کی چیخیں نکل گئیں ۔۔۔کمرہ عدالت میں ہر آنکھ اشکبار
تھی ،حتی کہ جج بھی فیصلہ سناتے ہوئے رو دیا، مقدمہ یہ تھا کہ دیہاتی عرصہ
دراز سے ماں کی خدمت کر رہا تھااور دیہات سے باہر صرف اس وجہ سے نہ جاتا
تھا کہ وہ کسی صورت ماں سے جدا ہونا نہیں چاہتا تھا، اس کے شہری بھائی نے
اس سے درخواست کی کہ تم نے ماں کی بہت خدمت کر لی اب یہ سعادت مجھے حاصل
کرنے دو ، لیکن دیہاتی کسی صورت میں ماں کی خدمت سے دستبردارہونے کے لئے
تیار نہ تھا، لامحالہ شہری نے عدالت سے رجوع کیااور یہ منفرد مقدمہ عرب
دنیا میں بہت مشہور ہوا ، عدالت نے جب ماں سے رائے لی تو ماں اپنے
فرمابردار بیٹوں میں سے کسی ایک کو کیسے ناراض کر سکتی تھی اس لئے خاموش
رہی، عدالت نے ضابطے کے تحت شہری کے حق میں فیصلہ سنایا تو دیہاتی برداشت
نہ کر سکا اور ایسا رویا کہ جج سمت سب کو رولادیا، آج کے دور میں یہ ایک
افسانہ معلوم ہوتا ہے لیکن ماں کے مقام کا یہی تقاضا ہے -
ماں کا کیا مقام ہے، آپﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگر میری ماں حیات ہوتیں
اور وہ مجھے پکارتیں ،اور میں نماز کی حالت میں بھی ہوتا تو نماز توڑ کر
بھی انکی آواز پر لبیک کہتا،کسی نے آپﷺ سے سوال کیا کہ میں سب سے اچھا سلوک
کس کے ساتھ کروں آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی ماں کے ساتھ ، سائل نے پھر پوچھا کے
اس کے بعد، آپﷺ نے پھر فرمایا کے ماں کے ساتھ، پھر تیسری بار بھی ماں کا
فرما کر چوتھی بار میں فرمایا کے باپ کے ساتھ ، پھر اسکے بعد جو رشتہ دار
جتنا قریب ہے اتنا ہی مقدم ہے ۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ ماں تین مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے ، ایک
حمل کی، دوسری جننے کی اور تیسری دودھ پلانے کی، اس لئے حسن سلوک میں پہلے
تین درجے پر ماں ہی ہیں، اﷲ تعالٰی نے ماں ہی کے اندر یہ حوصلہ رکھا ہے کہ
وہ ان تین مشقتوں کو جھلنے میں نہ دن دیکھتی ہے نہ رات، نہ ہی اپنی صحت مد
نظر رہتی ہے اور نہ ہی راحت و آرام ،اپنی جان پر کھیل کر بچے کی پرورش کرتی
ہے، اس لئے فرمایا کہ اپنے والدین کے سامنے اف تک نہ کہو -
اگر کسی کام کا کہیں تو ناگواری کا اظہار بھی نہ کرو حتی کہ اگر بڑھاپے اور
بیماری کی وجہ سے تمہیں انکا بول و برازصاف کرنا پر جائے تو بھی ناگواری نہ
ہو کہ یہ بھی بچپن میں تمھارا بول و براز صاف کرتے تھے ، حضرت محمد بن
المنکدرؒ کہتے ہیں کہ میرا بھائی تو نماز پڑھنے میں رات گزارتا تھا اور میں
ماں کے پاؤں دبانے میں رات گزارتا تھا ۔مجھے اس کی کبھی تمنا نہ ہوئی کہ ان
کی رات (کا ثواب)میری رات کے بدلے میں مجھے مل جائے۔ ما ں کے حقوق پر اس
قدر وضاحت کے باوجود ہماراطرز عمل کیا ہے، انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس
نے تمھارے ساتھ جیسا کیا تمھیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ، اس پر انعام کیسا!
لیکن اﷲ تعالی کی رحمت پر قربان جائیے کہ ماں کی خدمت پر بھی اجر عظیم کا
وعدہ فرمایا گیا کہ جس کی ماں خدمت و حسن سلوک سے خوش ہو گئی گویا کہ اس نے
ماں کے قدموں تلے جنت پا لی ، دنیا و آخرت کی کنجی ماں کی خدمت ہے ، لوگ
بزرگوں سے دعائیں کراتے ہیں ، کرانا بھی چاہئے کہ اچھی بات ہے لیکن گھر میں
موجود بزرگ ہستی ماں جی کو بھلا دیتے ہیں ، ان سے حسن سلوک سے پیش آئیں گے
تو دعا کی درخواست بھی نہیں کرنی پڑے گی ، خود انکے دل سے دعا نکلے گی ، جس
کی قبولیت انشاء اﷲ یقینی ہے
اگر خدانخواشتہ ماں کے حقوق کے بارے میں کوتاہی کی ، ماں کے مقابلے میں
دوستوں کو خوش کرنے کی فکر کی ، ماں بات کرنا چارہی ہے اور ہم اپنے موبائل
میں مست رہے، ماں کے سامنے زبان دارزی کی اور مظلوم ماں کی بد دعا لگ گئی
تو کہیں کے نہیں رہیں گے ۔اب بیٹے تو بیٹے ، بیٹیاں بھی ماں کے ساتھ بد
تمیزی سے پیش آتیں ہیں،قیامت کی علامات میں سے ہے کہ ً لونڈی اپنے آقا کو
جننے گی ً علماء اس کا مطلب ارشاد فرماتے ہیں کہ بیٹی ماں پر حکم چلائے گی
،آپ ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تین بددعائیں فرماتے
ہیں اور آپﷺ سے عرض کیا کہ آپ آمین کہیں اس سے اندازہ کریں کے کتنی سخت
بددعا ہے، تین میں ایک یہ ہے کہ ً وہ شخص ہلاک ہو جائے جس کے والدین بوڑھے
ہوجائیں ایک یا دونوں اور وہ انکی خدمت کر کے جنت نہ حاصل کر سکے ً
بوڑھے والدین اولڈ ایج ہوم میں ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ سینے سے لگانے اور
خوب خدمت کے مستحق ہیں ، اگر کسی کے والدین دنیا سے جا چکے اور اس سلسلے
میں اگر کچھ کوتاہی ہو چکی ہو اور اب پچھتاؤا ہو رہا ہے تو علماء فرماتے
ہیں کہ ایسا شخص مایوس نہ ہو ، اﷲ تعالی سے اس کوتاہی پر معافی مانگے اور
والدین کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرے اور انکے لئے خوب دعائیں کرے تو
فرما برداروں میں شمار ہو جائے گا۔۔۔انشاء اﷲ تعالی |