میرے شہر کامقدر ،میرے گاؤں کی
حالت کب بدلے گی ،کیسے بدلے گی ،کون بدلے گا،ہماری سوچ کب بدلے گی ،کون
بدلے گا ،کب بدلے گا،کیسے بد لے گا ، خدابھی ان قوموں کی حالت نہیں بدلتا
جب تک نہ ہو خیال انھیں اپنی حالت بدلنے کا،میرے شہر کے حاکم ایک سے بڑھ کر
ایک خدمت کا ستون بنا بیٹھا ہے ،ہم بہت بھولے بھالے ہیں ،بہت جلد بھول جاتے
ہیں ،پھر امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں انھیں لوگوں سے جنھوں نے گہرے زخموں سے
چور کیا ہوتاہے ۔لکڑی کے چولھے پر اور ایل پی جی کے چولھے پر رہنے پہ مجبور
کیا ہوتا ہے ،سوئی گیس کی سہولت سے محروم کرنے کے لئے کورٹ سے سٹے آرڈر
لینے والوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں ،پھر انہیں سے امیدیں وابستہ کر لیتے
ہیں ،یہ ہمارے مسیحا ہیں ہمیں بنیادی سہولتیں دلوائیں گے ،یہ نیک نامی کے
پجاری تختیوں اشتہاروں سے آگے بھی جائیں گے ،مجھے آج تک وہ بات نہیں بھولتی
جب جونیجو صاحب بوریوالہ آئے تھے وہاں بی ٹی ایم ٹیکسٹائل والے سیٹھ داؤد
نے کہہ دیا کہ بوریوالہ کا نام تبدیل کرکے اسکو اگر آپ میرے نام پر داؤد
آباد کردیں تو میں اسکو پیرس تو نہیں مثل پیرس بنادوں گا ،لیکن وہاں بھی
اپنے نام کی تختی ہر موڑ پر سجانے والوں نے پسند نہ کیا ،گورنمنٹ کے ٹیکس
سے بننے والے چوک جب حکومت بدلتی ہے ضرور نئے بنتے ہیں نئی تختیاں لگتی ہیں
،کئی توٹیکس کے پیسوں سے اپنی پارٹی کے جھنڈے ہی ماربل سے بنا ڈالتے ہیں ،
بہت خوب کوئی دوسر ا ا ٓتاہے وہ اپنی پارٹی کی دھاک بٹھانے کے لئے ہر چوک
میں شیر بٹھاتا ہے، سیٹھ داؤد نے بھی در پردہ خوب بدلا لیا ہوگا پاکستان کی
ایک بہت بڑی ٹیکستائل سے دست شفقت اٹھالیا ہوگا بوریوالہ کی عوام کو روز
بروز بے روزگار کرتا گیا یہ نام کے پجاری لوگ اپنے نام کے لئے، اپنے کام کے
لئے غریب کے چولھے کی پرواہ نہیں کرتے انھیں تو نام سے غرض و غائیت ہے پیسے
کمانے کے تو کئی طریقے ہیں ان امیروں کے پاس ،پستا ہے تو غریب کیونکہ وہ
صرف آس لگائے بیٹھا ہے،غربت ،غربت غربت کی رٹ لگائے رکھتا ہے بتوں سے ہیں
امیدیں خدا سے نا امیدی یہ کافری نہیں تو اور کیا ہے ۔اپنے اندر تبدیلی آئے
گی تو حالت بدلے گی ہم ایک دوسرے کی خیر خواہی کو پروان چڑھائیں گے تو
کامیاب ہو جائیں گیاایک ـفرمان کا مفہوم کچھ یوں ہے جو کسی کی حاجت کو
پوراکرنے کی کوشش کرتا ہے اﷲ اسکی حاجت کو پورا فرما دیتا ہے ،آئیں ہم اپنے
ہمسائے کی خیر خواہی میں لگ جائیں الیکشن میں نام کے پجاریوں کی وجہ سے
پیدا ہونے والی رنجشیں بھلادیں ہم اپنے عزیزوں سے صلہ رحمی کرنے والے بن
جائیں جو تجھ سے تعلق توڑے آپ اس سے تعلق جوڑنے والے بن جائیں ،جو آپکو
محروم کرے آپ اسے عطا کرنے والے بن جائیں اپنے سے بڑوں کی عزت چھوٹوں سے
شفقت ،یتیموں کی سرپرستی کرنے والے بن جائیں پیارے مصطفی ﷺ کی غلامی کا پٹا
گلے میں ڈال کر نقش پا سرور کونین پر چلنے والے بن جائیں ، ایک دوسرے کی
عزت آبرو کے امین بن جائیں ،آسانی میں اور مشکل میں خدا سے لو لگائیں
تبدیلی آئے گی ، ہاں ایسی تبدیلی آئے گی آنے والی نسلیں نیک ہونگی ،ہاں
آئیں گے پھر ایسے حاکم کے جو بغیر تمیز کئے آپ کس برادری سے ہیں کس قبیلے
سے ہیں ہمیں ووٹ دیا تھا یا نہیں میرٹ پر خدمت کریں گے ،تحصیل ناظم کے
الیکشن ہورہے تھے ،ایک معزز شخصیت اس وقت کے تحصیل ناظم کی سیٹ پر الیکشن
لڑ رہے تھے دن رات کیمپین کے لئے ایک کیا ہوا ہے کیا دیکھتا ہوں ایک سادہ
لوح شخص انکے پاس آکے کہتا ہے سر آپکے دفتر کے قریب ہی ایک بس کھڑی ہے جس
میں سے تیس چالیس لوگ جن میں زنانہ سوار بھی ہیں اس لئے اتار دئے ہیں کہ
سارجنٹ کو حسب منشا ٗ رشوت نہیں ملی سارجنٹ کو کہہ دیں سواریوں کو یوں رسوا
نہ کرے ،صاحب کا سوال تھا گاڑی میری ہے یا کسی اور ٹرانسپورٹر کی جب یہ پتا
چلا کہ گاڑی میری نہیں بلکہ کسی پردیسی کی ہے تو بیٹھے پجارومیں اور چل دئے
کاش یہ سوچا ہوتا سواری میری نہیں سوار تو میرے شہر کے رسوا ہو رہے ہیں جب
حکمرانوں کا معیار یہ بن جائے انصاف کرنے کے لئے سلیکٹ ہونے والے حاکموں کا
معیار یہ ہو تو آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ انہیں آپکے چولھے جلنے یا بجھنے سے
کوئی غرض نہیں ، آپکی عزت نفس مجروح ہونے سے کیا غرض و غائت ،شائد یہ اس
معزز شخصیت کا ٹیسٹ ہی ہو بارگاہ الٰٰھی سے وہ الیکشن بھی ہار گئے ساتھ وہ
اس آدمی کی نظروں سے ایسے گرے کہ لاکھ وہ مقتدر بن جائیں پر انکے معیار
انصاف نے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو اَن مٹ ہیں ،کسی امیرکی دولت سے نہیں پر
کسی مظلوم کی بدعا سے ڈرنا چاہیے ،روائت کامفہوم ہے ایک شخص بضد ہوا خدایا
میں تیری دعوت کرنا چاہتا ہوں ، دعوت قبول ہوئی طرح طر ح کے پکوان تیار
ہوئے میزبان منتظر جب شام تک اسکی سوچ کے مطابق کوئی مہمان نہیں آتاتو عرض
کرتا ہے آپ تشریف نہیں لائے ، پوچھا گیا اس حلیے کا ایک فقیر آیا تھا جی
آیا تھا کیا دیا تھا اسے جلی ہو ئی روٹیاں خراب ہونے والے پکوان ،خدا سے
ڈرتے رہنا چاہیے ،مخلوق کے ساتھ زیادتی سے گریز کرنا چاہیے ،خدا کے بندوں
کا احترام کرنا چاہیے ، میں نے کئی بادشاہوں کی بادشاہیوں کو فقیروں کے
ہاتھوں الٹتے پڑھا ہے ،حاکم وقت میں بھی تبدیلی آئے گی ہاں جب وہ قرآن و
حدیث سے رہنمائی لیں گے وہ بھی حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جیسی ہستیوں کے نقش قدم
پر چل کر نظام کو چلائیں گے ۔تبدیلی پارٹیوں کے جھنڈوں کی محتاج نہیں بلکہ
تبدیلی تو یہ ہے کہ تو جس جگہ بھی ہے مظلوم کی مدد کر انصاف کر یتیم کے سر
پر دست شفقت رکھ ،صلہ رحمی کر ،حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا خیال رکھ تبدیلی
آنے والی ہے۔ |