کیا ہو گیا ہےپاکستانی نوجوان کو، کیااس کی پسند، ترجیح،
مشغلہ اور وقت صرف کرنے کا زریعہ صرف انڈین گانے سننا، شعر و شاعر ی کرنا (sms)،
یا پھر اس سیاست پر باتیں کر کے اپناقیمتی وقت ضائع کرنا، جس کا آپ حصہ
نہیں اور نہ ہی کبھی کسی ادنی درجہ کے لیڈر تک کوئی رسائی ہے(بیشتر نوجوان
مراد ہیں)۔
دوسری طرف وہ نوجوان ہیں جو جس جگہ نوکر(Job) ہوگئے،بس اب پنشن تک اسی
کوہلوکے چکر کاٹنا ہی زندگی کا مقصد رہ گیا؟۔
وہ حضرات جو کسی بھی شعبہ سے منسلک اپنے علم اور ہنر کے استعمال سے قوم و
ملک کی خدمت کر رہے وہ قابل تحسین تو ہیں مگر اپنے اوپر مزید سیکھنے، پڑھنے
اور غور و فکر کے دروازے بند کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ وہ احباب جو یہ سمجھتے ہیں
یا انکی زندگی،مصروفیات اور ترجیحات کو دیکھ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی
زندگی کامطمح نظر ہو کہ،اب ہمیں مزید کچھ نہیں پڑھنا،سیکھنا، سوچنا، جو ہم
کر رہے ہیں بس وہی کافی و شافی ہے۔
زندگی کا مقصد، اگر صرف مرنے تک جینا، گھربار کے لیے رزق کی تلاش میں دوڑ
لگانا ہو تو یہ بڑا مقصد نہیں ہے۔ مقصد عربی زبان کا لفظ ہے اور قصد سے
ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا‘ کسی چیز کی طرف
جانا،اور اس چیز کی جستجو میں ہمہ وقت لگے رہنا۔انسان اگر اپنے مقصد کو
سمجھ جائے تو پھر اسی کی طرف متوجہ اور اسی راہ پر گامزن رہتا ہے -
زندگی اور زندگی کے مقصد پر مجھے جتنے مضمون ملے وہ یا تو مذہبی انداز کے
تھےیا پھر باعمل ،باہمت،اور تاریخ کے عظیم کرداروں کی زدگی کی داستان پر
مشتمل تھے۔ مگر ہمارے سامنے تو پاکستانی، موجودہ، زندہ اور ہٹا کٹانوجوان
اور مستقل کا سہارا ہے ، آخر اس کو زندگی کا کون سا گر سکھایا جائے کہ وہ
بخوشی اسے اپنا مقصد حیات بنا لے۔ اور بنائے تو کیسے بنائے اور کرئے تو کیا
کر ئے ؟
زندگی کے مقصد کے بارے میں بڑے متضاد جواب پائے جاتے ہیں، ہر صاھب علم اپنی
سوچ اور سمجھ کے مطابق جواب دیتا ہے۔مگر میرے خیال میں ہمیں زندگی کے مقصد
کا تعین کرتے ہوئے اپنی تخلیق کا وقت اور جگہ پیدائش ضرور زہن نشین رکھنی
چاہیے۔ تاکہ ہم اس سوالی کے جواب میں یہ مدنظر رکھیں کہ وہ کس علاقے کا
بانشندہ ہے اور اس کو کیا حالات و مشکلات سے واسطہ ہے۔اور اس کی زندگی کا
مقصد اور ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟
زندگی بےمعنی اور بے مقصدبالکل نہیں ہےبلکہ زندگی کا مقصد معلوم نہ ہونے کا
تعلق صرفبے علمی سے ہے۔اگر ہمیں زندگی اور مقصد،دونوں الفاظ کا علم ہی نہ
ہو تو،تعین کیسے ہوگا؟۔ سادہ الفاظ میں ، اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میںجواب
دوں گا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ’’ماں کی گود سےقبر میں اترنے تک، علم کی
جستجو میںلگے رہو‘‘۔لہٰذا ربی زدنی علما کی دعا کے ساتھ ہی علم کے حصول کو
ہی زندگی کا مقصد بنا لیں۔
زندگی عمل کا،مسلسل چلتے رہنے، بڑھتےاور سیکھتے رہنے کا نام ہے۔ بے شک اس
وقت ملک عزیز اور امت مسلمہ گھمبیر مسائل کا شکار ہے ۔ مگر ان مسائل اور
مصائب سے نکالنے کے لیے یقینا،سب سے زیادہ زمہ داری نوجوان نسل پر ہیپر ہی
عائد ہوتی ہے ۔ آج اگر نوجوان نسل نے اپنے اردگرد کے حالات سے بے خبری ظاہر
کی تو ہمارا کل، آج سے بھی برا ہوگا۔ ہم سب کواس سلسلے میں اپنی پوری
توانائیاں صرف کرنی چاہییں، بالخصوص اپنی سوچ اور علم کو وسیع ترکرنا ہوگا۔
دوسرے کو تلقین کرنا اور خود بیٹھے رہنااچھا نہیں، آج کا مضمون ’’بحیرہ روم
اورملحقہ بندرگاہیں‘‘لکھنے کے لیے مجھے بہت کچھ پڑھنا پڑا،بحیرہ روم کا
حدود اربعہ، جغرافیائی کیفیت و نشاندہی، ملحقہ ممالک کی تفصیل اور
بندرگاہوں پر تحقیق کرنا پڑی۔ مشہور ویب سائٹس سے مواد لیا، اس کا ترجمہ
کیا اوراپنی اس ویب سائٹ پر شائع کر دیا۔ کیوں؟
کیوں کہ میں سمجھتا ہوں یہی وہ آخری حل سے جس سے ہماری سوچ،سمجھ،فکر، شعور
میںبہتری آئے گی۔اوریہی ایک آخری طریقہ ہے کہ خود بھی علم کی جستجوں میں
رہیں اور دوسروں کےلئے بھی مواد پیش کریں۔یہ علمی اور قلمی جہاد اس لئے بھی
ضروری ہیں کہ، ہمارے نادیدہ دشمن کی پوری پوری کوشش اس جانب ہے کہ کس کس
ہتھکنڈے اور غیر محسوس طریقے سے،پاکستانی نوجوان کو برین واش کیا
جائے،زیادہ سے زیادہ وقت ضائع کیا جائے,اس کی ترجیحات اور خواہشات کو بدلا
جائے۔ |