حکیم الامت کی حکیمانہ باتیں اور ہم جیسے کوتاہ نظر

تاریخ کے اوراق پر سُنہری الفاظ سے یاد کیا جانے والے شخص کو میں کن کن زاویوں سے یاد کروں؟ اُن کی دانشوری پربحث کروں کہ ان کی فلسفیانہ سوچ پر روشنی ڈالوں؟ ان کی عظمت کا ذکر کروں کہ انکی سادہ زندگی کے قصے سُناوں؟ان کی حکیمانہ باتوں پر تبصرہ کروں یا ان کے دل میں مسلمانوں کا کھویا ہوا مقام واپس لانے کی آرزو کو خراج تحسین پیش کروں؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ شروع کروں تو کہاں سے۔۔۔۔۔

حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒؒؒؒؒؒؒؒ 9 نومبر1877 کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ (موجودہ پاکستانی شہر۔ سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔بیسوی صدی کے عظیم شاعر اور مُفکرکی فلسفیانہ سوچ اور حکیمانہ باتوں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔

پروفیسر محمد علی عثمان کہتے ہیں کہ کسی نے اقبال کی شاعری میں فلسفے کو پایاتو اس نے فلسفی شاعر کا خطاب دیا۔کسی نے آپ کے اشعار میں قرآن عظیم الشان کے آیات کی تفسیر پائی تو اس نے اقبال کو قرآن کے عظیم خطاب سے نوازا۔کسی اور کو آپ کے خطبات میں مسلمانوں کیلئے جداگانہ ریاست کا تصور نظر آیا تو اس نے آپ کو مُفکر پاکستان کہا۔اقبال کو خود ہی اپنی اہمیت کا اور اپنی شاعری کاتا ابد زندہ رہنے کا احساس تھا۔آپ جانتے تھے کہ اگر نطشے، گوئٹے، ملٹن اور شیکسیئرمغرب کے نمائیندہ شغراء تھے اور اُن کو مغرب میں ایک بلند مقام حاصل تھا تو وہی رتبہ علامہ اقبال کو ملا تھا۔اگر مغرب میں کوئی نطشے او ر شیکسیئرکو پرستش کی حد تک چاہتا تھا تومشرق میں ایسے لوگ تھے جو اقبال کا پوجا کی حد تک احترام کرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اقبال نے اپنے آپ کو شاعر مشرق گردانا۔

مصور پاکستان نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کوسب سے ذیادہ خودی پر زور دیا ہے۔اُن کی شاعری میں قرآن مجید کے آیات کی تفسیرہے اور ان کے خطبات میں مسلمانوں کے لئے جُداگانہ ریاست کا تصوراور رزق حلال کی تلقین ہے۔ان کے خیال میں محنت سے دُنیا کی ہر چیزکوحاصل کیا جا سکتا ہے ۔آج کے دور میں پاکستان جس بدترین لعنت کا شکار ہے وہ رشوت خوری ہے۔ہر جگہ رشوت کے بغیر کا م کروانا نا ممکن نظر آتا ہے۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ رزق حلال ہی انسان کی دائمی زندگی میں اس کی نجات کا باعث بنے گا۔

اقبال صحیح معنوی میں اسلامی نظام کے خامی تھے اور ان کے خیال میں مذہب کے بغیرسلطنت کا تصور ممکن نہیں تھا۔وہ حصول پاکستان اس لئے چاہتا تھاکہ مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات ملے اور ایک ایسا مملکت کا قیام چاہتا تھا جہاں مسلمان اپنی زندگی اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق بسر کرسکے۔وہ مسلمانوں کو شاہین کی نظر سے دیکھتے تھے۔مگر اُسے کیا پتہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد بھی نہ تو صحیح معنوی میں اسلامی قانون ہوگا ، نہ ہی مسلمان اسلامی اُصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کریگا اورنہ انگریزوں کی غلامی سے نجات ملے گی ۔

اقبال مسلمانوں میں خودی وخوداعتمادی، عزت نفس اور جہاں بانی کا ولولہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔وہ مسلمانوں کے اپنے آباواجداد کے کارناموں کو باربار دُھرانے، اُس پر فخر کرنے اور خود کچھ نہ کرنے سے مُخالفت رکھتا تھا۔اُن کی شاعری میں نہ صرف شکوہ تھا بلکہ اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی موجودہ حالت اور اسکا حل بھی نظر آتا ہے۔اُس نے نہ صرف مسلمان نوجوانوں کو بیدار کرنے کے لئے نظمیں لکھی بلکہ اس نے بچوں میں اچھی اچھی عادتیں پیدا کرنے کیلئے بھی پیاری پیاری نظمیں لکھیں۔

آج کل اقبال کا پاکستان دھماکوں کے آواز میں دفن ہے۔دن بدن جرائم میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔اقبال نے جن لوگوں کو شاہین کا خطاب دیا تھا آج انہوں نے کرگس کا روپ دھار لیا ہے۔ توتو اور میں میں کی وجہ سے لوگوں میں انتشار اور مایوسی پیدا ہوچکی ہے۔پارٹی بازی کی وجہ سے ہم میں فاصلے بڑھتی گئی ہیں۔اپنا اصلاح کرنے کی بجائے دوسروں پر تنقید کرنا ہم اپنا اولین فرض سمجھنے لگے ہیں۔کیا علامہ اقبال ایسا پاکستان چاہتا تھا؟َ کیا اُس نے ایسے لوگوں کیلئے دن رات محنت کی تھی ؟؟؟؟ ہرگز نہیں۔۔۔ اقبال ایسا پاکستان بُرے خواب میں بھی نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔

اگر اہم پاکستانی قوم انپی خودی کی حفاظت وپرورش کر سکے، اپنی زندگی کو جہد مسلسل سے تعبیر کر سکے، اپنے آپکو شب بیداری کی لزت سے آشنا کر سکے تو ممکن ہے کہ ہم ایک کامل قوم کا روپ دھارلیں گے۔۔پاکستان جب تک اقبال کا شاہین نہیں بنے گا، پاکستان کا تصویر ہی مکمل نہیں ہوگی۔۔۔