حیا ختم ہو جائے تو جو چاہے کر و

نبی ء رحمت ﷺ کا فرمان ہے ’’ جب تم میں سے حیا ختم ہو جائے تو جو چاہے کرو‘‘۔سنن ابوداؤد ، جلد سوم، حدیث 1393

محکمہ پولیس نے حیا ء کب اتار پھینکی کچھ یقین سے کہنا مشکل تاہم بات بہت پرانی ہے ، کم از کم اپنے ہوش میں تومجھے یاد نہیں کہ محکمہ پولیس کبھی مثالی رہا ہو ،ہر دور میں پولیس کے خلاف عوامی شکایات ایک جیسی رہی ہیں، 2008ء کے بعدشہباز شریف نے پنجاب کا چپہ چپہ بدل ڈالا ، بعض محکموں میں توایسی ایسی اصلاحات ہوئیں کہ جن کا اس سے قبل تصور محال تھاپٹواریوں کے چنگل اور چکر بازیوں سے نجات دلانے کے لئے لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کر نے کاکام کسی کارنامے سے کم نہیں،کمپیوٹر توانہوں نے تھانوں میں بھی بھیجے تھے مگر پولیس والوں کی اولادوں اور دوست احباب کے علاوہ ان سے کوئی مستفید نہ ہوسکا،شہباز شریف جن کے کام کی اچھی شہرت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اگرکسی شعبے میں مسلسل ناکام چلے آرہے ہیں تو وہ پولیس کا ہے، شریف شہریوں کے لئے پولیس قابل نفرت محکمہ کیوں ہے اور’’ لیکچر بازی و فوٹو سیشن ‘‘کی بجائے پولیس افسران اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اس کا جواب کبھی بھی گھمنڈی پولیس افسران نے تحمل اور ڈھنگ سے نہیں دیا ،ویسے کارکردگی کے نام پر انکے پاس بتانے اور دکھانے کو کچھ ہے بھی نہیں ، رشوت ستانی میں ہمیشہ پہلی پوزیشن لینے ، رشوت لے کربے گناہوں پر عرصہء حیات تنگ کرنے اور معمولی چوروں سے لے کر خطر ناک اشتہاریوں،ڈکیتوں،منشیات فروشوں کی پشت پناہی کرنے والی پولیس نے محض ’’کارروائیاں ‘‘ڈالنے کے لئے آ ج بھی وہی پرانے طریقے اپنائے ہوئے ہیں جو مدتوں پہلے’’ رائج ‘‘تھے لیکن ا ٓوارہ منش نوجوانوں کو ڈکیتوں کے گینگ بنا کر پیش کرنے اور انکے ساتھ تصویریں کھنچوانے کا فرسودہ فارمولاجرائم کی شرح کو نیچے لا سکتا ہے اور نہ ہی کسی افسر کی روحانی محفلوں میں شرکت اور سر کھانے والے طویل خطابات عوام الناس کے کام آنے والے ہیں،البتہ اس سے مداح سرائی کرتے ٹاؤٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو تو ہو،تمام شعبہ ہائے زندگی میں کالی بھیڑوں کی موجودگی سے پولیس سب سے زیادہ اور بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے ،ہرقسم کا ٹاؤٹ پولیس کو دستیاب ہے جوبے گناہوں کو جھوٹے مقدموں میں پھنسانے کے لئے کچہری میں پھرتے گواہوں کی طرز کے جعلی مدعی بھی فراہم کرتا ہے ،پولیس چاہے تو ان سب کو دھتکار کر اپنے کام سے کام رکھ سکتی ہے لیکن پولیس کو بے وجہ ہی واہ واہ کرنے اور ’’مرغے ‘‘ گھیر گھیر کر لانے والے ٹاؤٹوں کی اب بری طرح لت پڑ چکی ہے ، اس رویے نے ایس ایچ او لگوانا منافع بخش اور آسان ترین کاروبار بنا دیا ہے، سو جسے دیکھو اس نے ایس ایچ او لگوانے کاکام پکڑ رکھا ہے، بات چند لاکھ روپے کے عوض ایس ایچ او کی تقرری پر ہی ختم نہیں ہو جاتی،اصل کھیل تو اس کے تھانے میں بیٹھنے کے بعد ہوتا ہے ،جہاں لین دین اور خا لصاًکاروباری معاملات کو بھی امانت میں خیانت کا رنگ دے کر پولیس مال کھارہی ہے ،پولیس کو دیہاڑی لگتی نظر آئے تو شہر کے کسی بھی پولیس سٹیشن میں جس پر جب چاہیں جھوٹی ایف آئی آر کر وا لیں اور دوسری جانب کسی کا قتل بھی ہوجائے یا کسی بیٹی کی عزت لٹ جائے تو پولیس کی مرضی ہے کہ ایف آئی آر کاٹے نہ کاٹے اور کچھ بعید نہیں کہ مدعی پر ہی مقدمہ ہو جائے ، باقی رہی تفتیش توجن تفتیشیوں کی حالت اور سائلوں کے ساتھ انداز گفتگو دیکھ کرہی گھن آتی ہو تو ان سے انصاف کی کیا توقع کی جاسکتی ہے ،جرائم کی بیخ کنی کی بجائے پولیس کی بھرپور سر پرستی کی وجہ سے گوجرانوالہ شہر میں منشیات کا دھندہ اس خوفناک حد تک پھیل گیا ہے کہ گنجان آباد محلوں کی گلیوں کی ہر نکڑ سے ہیروئن کی پڑیا آسانی سے مل سکتی ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے ٹکی ٹافی کی طرح نشہ بیچتے پھر رہے ہیں مگر پھر بھی شرم کسی کو نہیں آتی،ایس ایچ او زکو اور نہ انکے سپہ سالار کو،سر عام جاری اس کاروبار میں کون کون ملوث ہے اس کا پتا چلانا کچھ مشکل نہیں، ہر محلے میں ایسے باضمیر لوگ موجود ہیں جوچیخ چیخ کر ان انسانیت کے دشمنوں کے نام لے رہے ہیں مگر پولیس اپنے ٹاؤٹوں کی چھیڑی ہوئی ’’مدھرموسیقی‘‘ کے سوا کسی اور فضول شخص کی بات پر کان دھرنا نہیں چاہتی سو مست ماحول میں ہے،بڑی بڑی توندوں والی اورذہنی و جسمانی لحاظ سے ’’ مکمل ان فٹ ‘‘پولیس کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس نشے سے کسی ماں کے جگر گوشے کی زندگی تباہ ہو رہی ہے ، انہیں تو اپنی منتھلی سے دلچسپی ہے سوکم عمرلڑکے نشے کے ٹیکے لگا لگاکر خود کو ختم کرتے جا رہے ہیں، امن و امان کی یہ حالت کہ عوام گھر پر محفوظ اور نہ دوکان کارخانے میں، ڈاکوجب جہاں جسے چاہیں لوٹ لیں کوئی رکاوٹ نہیں،دکھاوے کے ناکے اور گشت عوام کے کسی کام کے نہیں، شہر کے نامی گرامی جواریوں کی روز جمنے والی جوئے کی محفلیں اپنی جگہ مگر اب توگلی گلی جواء خانے کھلے ہوئے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، ایک وقت آیا تھا کہ اوپر کی سطح پر پولیس کی لوٹ مار میں قدرے کمی ہوئی تھی لیکن تھانوں کی حالت تب بھی وہی تھی ، ہر دور کی پولیس نے اپنی سیاہ کاریوں کی ذمہ داری ’’سیاسی مداخلت‘‘کو قرار دے کر اپنی جان خلاصی کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے ، حالانکہ شاید سیاسی مداخلت نہ ہو اور عوامی نمائندے لوگوں کو پولیس کے پنجہ ء ستم سے نہ چھڑائیں تو پولیس کے بھیڑئیے لوگوں کی بوٹیاں تک نوچ لیں،عوامی نمائندوں نے لوگوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف تو ضرور دینا ہوتا ہے کیونکہ ووٹ لینے دوبارہ عوم کے پاس جانا انکی مجبوری ہے، البتہ سیاستدانوں میں بھی ایسے ہیں جو عوامی نمائندگی کا مکروہ دھندہ کرتے اور اپنی عہدے کو ذاتی مفادات کے لئے خوب استعمال کرتے ہیں اور پولیس انکے لئے بڑی مددگار ہوتی ہے تاہم روز محشر جب حساب کی کتاب کھلنی ہے تو سب کو اپنے اپنے عمل کی جواب دہی سے گزرنا ہے،وہاں پولیس کا سیاسی مداخلت والا بہانہ چلنے والا نہیں، ’’خدا خوفی اور دیانتداری کے لیکچر‘‘ بہت بھلے مگر اعلیٰ پولیس افسران اپنی ناک تلے ظلم کی انتہا کو دیکھیں،، تھانوں کو ٹھیک کرنے سے پہلے کم از کم اپنے دفاتر میں توعوام کی پہنچ آسان بنائیں، ٹاؤٹوں کی بجائے سماجی کارکنوں اور معززین شہرکو عزت دیں پھر کوئی گھناؤنا کاروبار راز نہیں رہے گا،پولیس کی قیادت ’’دوستوں‘‘ کی خوشنودی اور ٹاؤٹوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لئے نکمے اور پرلے درجے کے بد عنوان ایس ایچ اوز لگانے کی بجائے کھڈے لائن لگے ہوئے چند ہی سہی مگر اچھی شہرت کے افسران کو تھانوں میں تعینات کرے تو کچھ ہی عرصے میں واضح فرق نظر آنے لگے گا،ان فیصلوں کے لئے شہر کی پولیس کو مثالی جرات رکھنے والے اورجذبہ ء خدمت سے سرشارایک ایسے سربراہ کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں کرائم فائٹر ہو اورنام کا ہی نہیں کام کا بھی راجہ ہو ،پولیس والوں نے ایمانداری کے نام پرنہ جانے کتنے حلف اٹھائے اور بے توقیر کئے ہیں اسکے باوجودپولیس کی دلدل اور کیچڑ میں رہ کر بھی جس نے اپنی اصلاح کر نی ہوکر سکتا ہے مگرجو حیا ء اتار پھینکنے پر مصر ہو وہ پھر نبی ء رحمت ﷺ کے فرمان کے مطابق جو چاہے کرے۔

Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 67228 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.