ہر سال کی طرح اس سال بھی مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہی یوم
مادر کا شور وغل شروع ہو گیا۔ ماں کی عظمت کا ہرایک کو احساس ہوگیا، گی باپ
کی محبت کا خیال آگیا ۔مٹھائیوں اور لفظوں کے سہا رے ماں کی محبت کا تذکرہ
شروعکردیاگیا. لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماں کی محبت کو لفظوں میں بیان نہیں
کیاجا سکتا ہے۔ یہ رشتے ہر گھر میں موجود ہوتے ہیں یا تو جسمانی طور پر
یاپھر روحانی طور پر۔ جب بات ہو گی ان رشتوں سے محبت کی تو اس بارے میں
کوئی دوسرا کسی کو کیا بتائے گا اگراس نے خود ان رشتوں کی محبت ان کاتقدس
محسوس نہیں کیا ۔اور اگر کسی نے اس تقدس اس محبت کو محسوس کر لیاہے تو پھر
ان محبت بھرے الفاظ اور دردمندانہ تحریروں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔یہ مدرز
دے اور فادرز ڈے منا کر ہم ان معصوم بچوں کے جزبات سے بھیکھواڑ کرتے ہیں جو
ان رشتو ں سے محروم ہو چکے ہیں۔حدیث ہے کہ ۔ کسی یتیم کے سامنے اپنے بچے کو
پیار نہ کرو کہیں اس کو اس کمی کا احساس نہ ہوجائے ۔پھر ان دنوں کو منانے
کی وجہ کیا ہے ؟ کیوں لوگ ساتسمندرپارکرکے ماں کو مٹھائیاں کھلانے جاتے ہیں؟
کیوں بڑی بڑی تقریبیں منعقد کرتے ہیں؟.
تاریخی اعتبار سے اس دن کا آغاز سن 1870ء میں ہوا جب جولیا وارڈ نامیعورت
نے اپنی ماں کی یاد میں اس دن کو شروع کیا جولیا وارڈ اپنے عہد کیسایک
ممتاز مصلح، شاعرہ، انسانی حقوق کی کارکن اور سوشل ورکر تھیں۔ بعد ازاں
1877ء کو امریکہ میں پہلا مدر ڈے منایا گیا۔ 1907ء میں امریکی ریاست
فلاڈیفیا میں اینا ایم جاروس نامی سکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو
منانے کی رسم کا آغاز کیا۔ اس نے اپنی ماں این ماریا ریویس کی یاد میں یہ
دن منانے کی تحریک کو قومی سطح پر اجاگر کیا یوں ان کی ماں کی یاد میں
باقاعدہ طور پر امریکہ میں اس دن کا آغاز ہوا۔ یہ تقریب امریکہ کے ایک چرچ
میں ہوئی۔ اس موقع پر اس نے اپنی ماں کے پسنددیدہ پھول تقریب میں پیش کیے۔
اس تحریک پر اس وقت کے امریکی صدر وڈ رولسن نے ماؤں کے احترام میں مئی کے
دوسرے اتوار کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ اس کےبعد یہ دن
ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے برطانیہ میں اس
دن کو مدرنگ سنڈے۔ بھی کہا جاتا ہے۔ مغربی دنیا میں لوگ اپنی ماؤں کو تحائف
پیش کرتے اور ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ یوں سال بھر بوڑھے والدین میں سے ماؤں
کو اس دن کا انتظار رہتا ہے۔ امریکہ سمیت یورپ بھر میں بوڑھے والدین کو
گھروں کی بجائے اولڈ ہومز میں رکھا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ اس دن اولڈ ہومز
میں اپنی ماؤں سے ملاقات کرتے اور ان کو سرخ پھولوں کے تحائف پیش کرتے ہیں۔
جن لوگوں کی مائیں اس دنیا میں نہیں ہیں وہ سفید پھولوں کے ساتھ اپنی ماؤں
کی قبروں پر جاتے اور وہاں یہ گلدستے سجاتے ہیں۔ ہر ملک میں مدر ڈے کو
منانے کے لیے مختلف دن مختص ہیں تاہم امریکہ، ڈنمارک، فن لیند، ترکی،
اسٹریلیا اور بیلجیم میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو ہی منایا جاتا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اب بہت سے سمجھدار اور دینی مزاج سے ہم آہنگ لوگ بھی
اس دن اپنی ماں کے لئے پھول اور تحائف کے انتخاب کے لئے پریشان نظرآتے ہیں
۔ کچھ لو گ الفاظ کا سہارا لے کر اس دن میں اپنی ماں کو خراج عقیدت پیش
کرتے ہیں۔ہمارے مسلم معاشرے میں بھی اولڈ ہاوسز بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
کئی مسلم ممالک اس طرح کی تقریب منانے میں سرفہرست مانے جاتے ہیں. وہ
معاشرہ جہاں ماں کے قدموں تلے جنت اور جہاں باپ کی رضا میں رب کی رضا ہوا
کرتی تھی آج وہی معاشرہ اس جنت اور اس رضائے ربانی سے دامن بچا تا نظر آتا
ہے۔ دن میں نہ جانے کتنی دفعہ ماں باپ کی حکم عدولی کر کے سال میں ایک دفعہ
ان کی خدمت میں تحائف اور پھول پیش کر کے جنت کمانے کا تصور بھی نہیں کیا
جا سکتا ۔ہمیں بحیثیت مسلمان صاف صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ماں باپ کر
بڑھاپے میں اف تک نہ کہو۔بس اتنی سی بات سمجھ لیجئے پھر دیکھئے کوئی دن آپ
کے نزدیک اہمیت کا حامل نہیں رہے گا۔بﷲ شب وروز کا ہر لمحہ ماں باپ کی خدمت
پر ابھارے گا ان
کی رضامندی اور خوشنودی کی فکر پیدا کرے گا. |