رسم جہیز۔۔۔۔۔ایک غلط فہمی کا ازالہ!

,,بیٹی کا جہیز ،، یہ لفظ بظاہر جس قدر خوبصورت اور سننے میں بھلا معلوم ہوتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ وہ اپنے پیچھے ایک بھیانک تاریخ اور دل سوز واقعات کی طویل فہرست لیے ہوئے ہے ،پوری دنیا آج لڑکیوں کی حفاظت اور ان کی جانوں کے تحفظ کو لیکر فکر مند نظر آ رہی ہے اور تمام ممکنہ ذرائع اور عصری وسائل کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ لڑکیوں کے تئیں بڑھتے غلط رجحانات اور نفرت کو کیسے کم کیا جائے ٹیلیویژن ، ریڈیو ، انٹر نیٹ ،اخبارات ، رسائل ، میگزینس ،ہر طریقہ سے اس بات کی تشہیر کی جا رہی ہے کہ بیٹی ہمارا مستقبل ہیں اگر وہ سلامت نہیں رہیں گی تو دنیا کی رفتار اپنے آپ رک جائے گی ،مگر انسانوں کے ذریعہ چھیڑی جا رہی اس مہم کے نتائج ہمیشہ امید کے بر خلاف ہی آ رہے ہیں ملکی اور عالمی آنکڑے بتاتے ہیں کہ قتل جنین کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود خاطر خواہ کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی ہے، اس کی وجہ کسی طور پر افلاس اور غربت کو قرار نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ ہمارے ہم عصر بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے،خود انسان کے اندرموجود ترحم کا فطری عنصر ان سارے قیاسات کو مسترد کر دیتا ہے آج کے دور میں دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا کوئی اتنا بڑا مشکل مسئلہ نہیں ہے کہ لوگ اس کے خوف سے اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے لگیں ہو سکتا ہے کسی دور میں ایسا رہا ہو مگر اب ایسا نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو یہ واقعات صرف غربت زدہ سماج میں ہوتے جبکہ قتل جنین کے واردات ذی ثروت سماج میں بھی ہو رہی ہیں ،اگر غور سے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بیٹیوں کے تحت بڑھتے نفرت اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی قتل کی واردات کی واحد اور اہم محرک ہندو پاک میں موجود جہیز کی رسم ہے جس نے پورے سماج کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے، اور لوگ بھوکے بھیڑئے کی طرح لڑکی والوں کو لوٹنے کی تاک میں لگے ہوئے ہیں اس رسم نے لوگوں کی ذہنیت کو کس قدر بدل کر رکھ دیا اس کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں اگر اگر اس دور میں جس کے یہاں پانچ لڑکے ہیں تو اسے اپنے بیٹوں پر فخر ہے یہ اس لئے نہیں کہ اس کے بیٹے کچھ انوکھی صلاحیت کے مالک ہیں بلکہ صرف اس لئے کہ ان کے ذریعہ بہت سا جہیز گھر میں آنے کی امید ہے جہیز کی اس لعنت نے ان تمام مسائل کوجنم دیا ہے جو آج لڑکیوں کے تعلق سے موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اگر اس رسم کا دیس نکالا کردیا جائے جو تو نہ ہمیں پروٹیست کرنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ مہم چھیڑنے کی ، خیریہ تمام باتیں ایک طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم سماج میں بھی یہ رسم اسی طرح اپنے پیر جما چکی ہے جس طرح دوسرے مذاہب میں ایک طرف مسلم طبقہ ویسے بھی عمومی طور پر غربت کی مار جھیل رہا تھا جہیز کی وبا نے اور اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ، اور دوسری طرف جہیز کے تعلق سے پورا مسلم سماج جس میں بہت سے مذہبی شخصیات بھی شامل ہیں ایک زبردست غلط فہمی میں مبتلا ہے در اصل اکثر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ جہیز کی رسم پیغمبر اسلام صلّی اﷲ علیہ و سلم کی جاری کردہ سنت ہے اس لئے بعض حضرات کسی بھی طرح اس سنت کو ادا کرنے کی نیت سے جہیز دینا اچھا سمجھتے ہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکے والوں کی فرمائش کے مطابق انہیں کیش رقم دینے کے با وجود لڑکی والے تھوڑا بہت جہیز بھی رکھ دیتے ہیں جس کے پیچھے اسی سنت نبوی کی ادائے گی کا تصور کار فرما ہوتا اور ان کا یہ تصور جہیز اس وقت اورپختہ ہو جاتا ہے جب دین کے ذمہ دار علماء یا مفتیان کرام اپنی تقریر میں اس کے سنت ہونے کا ثبوت احادیث کریمہ سے پیش کر دیتے ہیں در اصل پیغمبر اسلام صلّی اﷲ علیہ و سلم کی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا جب نکاح حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے ہو اتو رخصتی کے وقت سرکار مدینہ صلّی اﷲ علیہ و سلم نے انہیں ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ایک مشکیزہ پانی بھرنے کے لئے اور کچھ دیگر ضرورت کے سامان دئے تھے یہ بات احادیث سے ثابت ہے اس روایت کو بنیاد بنا کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ جہیز دینا سنت ہے اس لیے کہ ہمارے نبی نے اپنی بیٹی کی شادی میں جہیز دیا تھا جبکہ حقیقت حال بالکل اس کے برعکس ہے نہ یہ جہیز تھا اور نہ اس رسم کی نسبت پیغمبر اسلام کی طرف کی جا سکتی ہے اور نہ کسی جہت سے یہ اسلامی طریقہ کے تحت آتا ہے حقیقت یہ کہ پیغمبر اسلام صلّی اﷲ علیہ و سلم نے بچپن ہی سے حضرت علی کرّم اﷲ وجہہ الکریم کی پرورش فرمائی تھی اور آپ ہی کے زیر سایہ آپ کی نش و نما ہوئی شادی کے وقت حضرت علی اتنہائی غربت کے عالم میں تھے گھر میں سامان نام کی کوئی چیز نہیں تھی یہاں تک کہ نکاح کے وقت مہر کی ادائیگی کے لیے بھی آپ کے پاس پیسے نہیں تھے جب سرکار دو عالم صلّی اﷲ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مہر کی ادائیگی کے لیے کہا تو آپ نے عرض کیا کہ میرے پاس اس جنگی زرہ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے اور پھرپیغمبر اسلام کے حکم پر آپ نے اسی زرہ کو بیچ کر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا مہر ادا کیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت علی اپنے نکاح کے وقت کس قدر غربت کے عالم میں تھے ایسی صورت حال کو ملاحظہ فرما کر ہمارے نبی صلّی اﷲ علیہ و سلم نے از راہ شفقت و ہمدردی کے ان کے یہاں وہ تھوڑا سامان پہنچا دیا جن کی سخت ضرورت تھی ظاہر سی بات جہاں ایسی سخت صورت حال ہو تو ہر مومن کا یہ اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ دوسرے مومن کے کام آیے اور اس چیز میں سرکار مدینہ صلّی اﷲ علیہ و سلم دوسروں پر سبقت لے جانے والے تھے لہذا اس تعاون کو موجودہ جہیز کی قبیح رسم کے لیے دلیل بنانا کسی طرح قرین قیاس نہیں ہے نیز جب ہم عرب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس طرح کی کسی بھی رسم کا پتہ اس خطہ میں نہیں چلتا ہے نہ دور جاہلیت میں اور نہ ہی عصر اسلام میں اور نہ کسی صحابی سے یہ سنا گیا کہ انہوں نے اس سنت کی ادائیگی کے لیے جہیز دیا ہو اور ہمارے موقف ایک قوی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر سرکار دو عالم صلّی اﷲ علیہ و سلم نے یہ جہیز اپنی بیٹی کو دیا تھا تو ضروری تھا کہ وہ اپنی تمام بیٹیوں کو جہیز دیتے مگر ایسی کوئی روایت کتب احادیث میں نہیں ملتی کہ آپ نے تمام صاحبزادیوں کو اسی طرح کچھ سامان دیا ہو اس سے پتہ چلا کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو جو سامان دیا گیا تھا و ہ جہیز کے نظریہ کے تحت نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایک ضرورت تھی جسے پورا کیا گیا تھاظاہر سی بات ہے کہ موجودہ جہیز کے لین دین اور حدیث پاک میں مذکور صورت حال کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے یہاں حال یہ ہے کہ لڑکا بزنس مین ہے ہر طرح کی سہولیات اور ضروریات گھر میں موجود ہیں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں ہے پھر بھی جہیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے یا مطالبہ کے بغیر دیا جا رہا ہے لہذا نہ اس طرح جہیز دینا اسلام میں کوئی پسندیدہ عمل ہے اور نہ ہی اس طرح جہیز لینا اسلامی طریقہ ہے لینے دینے کا یہ سلسلہ ختم ہی کر دیا جایے تو سماج کے لیے بہتر ہے اس سلسلہ میں علماء کرام کو ذرا احتیاط سے کا م لینا پڑے گا اور جہیز کے متعلق جب بھی کوئی سوال کرے تو حالات اور اصول قضا کو مد نظر رکھتے ہوے یہ جواب دینا زیادہ مناسب ہوگا کہ جہیز کی رسم اسلامی نہیں ہے اس کا لینا دینا کسی طرح مناسب نہیں ہے اور سنت کا تو تصور ہی سرے سے رد کر دینا چاہئے یہ غلط فہمی ہے جو ہمارے درمیان عام ہو گئی ہے اسلام کبھی بھی ایسی بے ہودہ رسم کی اجازت نہیں دے سکتا جس سے سماج میں بگاڑ پیدا ہو یا کسی کی حق تلفی ہو ۔

Abid Chishti
About the Author: Abid Chishti Read More Articles by Abid Chishti: 5 Articles with 6665 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.