شہر میں غیر ملکی فوڈ چینز کاکاروبار بڑھ گیا
کراچی بدل رہا یا کراچی بدل چکا۔ اس بارے میں مختلف رائے ہوسکتی ہیں ، لیکن
میری نسل کے لئے کراچی تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا وہی ہے، لیکن اب
رہنے سہنے کھانے پینے اور سیر و تفریح کے سب انداز بدل چکے ہیں۔کراچی کی
نہاری جو دو تین روپے میں پیٹ بھر دیتی تھی، اب غریب کی پہنچ سے دور ہوکر
امیروں کا چونچلا بن گئی ہے۔ نہاری کی پلیٹ ساٹھ، ستر روپے کی ہوگئی ہے،
کراچی یونیوسٹی کی کیفے ڈی پھونس سے لے کر اسٹوڈینس بریانی سب کچھ تبدیل
ہوچکا ہے، نہ وہ ذائقہ ہے نہ وہ ماحول ، بے فکری اور آزادی سے کراچی کے ہر
گلی محلے میں جانا بھی اب تو خواب ہوگیا ہے۔ کراچی جو 70 کی دہائی تک ایک
بڑا غریب پرور شہر ہوا کرتا تھا اور یہاں ملنے والے کھانے اور پکوان لذت
اور معیار کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہوا کرتے تھے،یہ خوش ذائقہ اشیائے
خورونوش نہ صر ف تازہ اور معیاری ہوا کرتی تھیں بلکہ کم قیمت بھی،نہ جیب پر
گراں گزرتی تھیں نہ معدہ پر،ہوٹلوں میں آدھا نان بھی مل جاتا تھا جبکہ
گریبی مفت ہوتی تھی، یہ شہر برنس روڈ کی مغز نہاری ، نلی نہاری ،سری پائے،
سیخ کباب، گولہ کباب ، کٹا کٹ ،میٹھے دہی بڑے،ربڑی ، نمکین و میٹھی لسی ،
پیر کالونی کی حلوہ پوری ،ڈرگ کالونی کے چپلی کباب ، بولٹن مارکیٹ کی تلی
مچھلی، لیاری کے ماما ڈوسا کی دال چاول ڈش، ناظم آباد کے مرغ چھولے ، لنڈی
کوتل چورنگی کا بالٹی گوشت ، سپر ہائی ویکا دنبہ روسٹ ،حسن اسکوائر کی
سجی،لیاقت آباد کی مٹکا قلفی ،جامعہ کلاتھ مارکیٹ کی چاٹ ، پانی پوری ، گنے
کے رس اور فریسکوکے سموسوں کیلئے مشہو ر تھا- شہر میں جابجا ٹھیلوں اور
ریڑھیوں پر حلیم اور بریانی ملاکرتی تھی لیکن اب یہ شہر بڑے تیزی سے مغربی
ملکوں کے جنک فوڈ کلچر کو اپناتا جارہا ہے۔ کراچی والوں کے نخرے بدل گئے،ان
کی زبان کے چٹخارے بھی ماحول کے ساتھ بدل گئے۔ اب یہاں بڑے بڑے غیرملکی اور
مہنگے مہنگے آوٹ لیٹس کھل گئے ہیں۔پاکستان اب دال روٹی کھانے والا معاشرہ
نہیں رہا ،بڑے شہروں اور خاص طور پر کراچی میں تو امریکی اور مغربی فوڈ چین
اور فرنچائز کا انبار لگتا جارہا ہے،70 کی دہائی میں نرسری پر خیام سنیما
کی عقبی گلی میں ایک برگر شاپ ہوتی تھی جہاں سلاد کے بڑے بڑے پتوں کے ساتھ
کولڈ ڈرنک کے ساتھ برگر 2 روپے میں ملا کرتا تھا لیکن اس زمانے میں اس برگر
کو ہیم برگر کہا جاتا تھا ، اب یہاں کھانے والوں کی کاروں کی قطار لگی رہتی
ہے۔ برنس روڈ کا برگر گو مہنگا ہوگیا ہے۔ لیکن اب بھی غریب کا گزارا ہے۔
برگر کا چلن توکوئی 25 سال پہلے عام ہوا، آج کراچی میں ایک وقت میں ایک
لاکھ سے بھی زیادہ برگر کھالیے جاتے ہیں،صرف برگرز کی اقسام اور ناموں پر
نظر ڈالیں تو بھی یہ تعداد حیرت میں ڈال دیتی ہے۔شہر کراچی کے پرانے رہائشی
آج بھی اس بات کو یاد کرتے ہیں ۔ لیکن اب ، لوگوں کے کھانے پینے کے انداز
بدلے ہوئے ہیں۔۔ جس شہر میں پہلے ٹھیلوں اورریڑھیوں پر صرف مرغ چھولے،
حلیم، بریانی یا بن کباب کھائے جاتے تھے، آج وہاں بڑے بڑے غیر ملکی آوٹ
لیٹس کھلے ہوئے ہیں اور ان کی ہر روز بڑھتی ہوئی رونق، گاہکوں کا رش، جدید
انداز و تراش خراش اور صاف صفائی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گویا آپ کسی اور
ملک میں بیٹھے ہیں۔نئی نسل کیلئے حلیم اوربریانی کا ذائقہ اولڈ ہوگیا،آج
برگر، سینڈوچ اور پیزا ان کا ہا ٹ فیورٹ ہے۔کراچی میں 90کی دہائی میں برگر
کو متعارف کرانے کا سہرا مسٹربرگر کے سر ہے، اس امریکی غذا کو پاکستان کے
دال روٹی والے معاشرے میں وہ پذیرائی ملی کہ آج 25 سال بعد بھی اسے ہاتھوں
ہاتھوں خریدا جاتا ہے۔ نئی نسل آسانی سے اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں
کہ90کی دہائی میں لوگ برگر کے نام سے بھی ناواقف تھے اور جب تک انہوں نے
پہلی مرتبہ اسے کھا کر دیکھ نہیں لیا، وہ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ برگر ہوتا
کیا ہے۔ 1998 میں پہلی مرتبہ امریکی فاسٹ فوڈ کمپنی نے پاکستانی معاشرے میں
قدم رکھا جس کے بعد اس کی مانگ میں اضافہ ہوتا چلا گیا، آج ہر روز اس کی
طلب میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔فاسٹ فوڈ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس
کا آغاز 18 ویں صدی میں امریکا سے ہوا۔ ابتدا میں سستے اور غیر معیاری قسم
کے برگر صرف میلوں ٹھیلوں اور سرکس وغیرہ میں اسٹالز پر دستیاب ہوتے تھے۔
بعد ازاں انیسویں صدی میں ’’وائٹ کاسل‘‘ نامی پہلی فوڈ چین معرض وجود میں
آئی جو اعلیٰ معیار کے برگر اپنے گاہکوں کو ریستورانوں میں فراہم کرتے تھے۔
اس کے بعد میکڈونلڈ برادرز نے 1948 اپنی فوڈ چین میکڈونلڈ کا آغاز کیا اور
یوں دیکھتے ہی دیکھتے تیزی سے بدلتی دنیا میں فاسٹ فوڈ کا رجحان بھی تیزی
سے فروغ پانے لگا۔ رفتہ رفتہ فاسٹ فوڈ کی مقبولیت یورپ اور امریکا کے ساتھ
دنیا میں پھیلنے لگی۔ اس دوران غیر ملکی مشہور فوڈ چینز نے اپنا نیٹ ورک
بڑھایا اور دنیا بھر کے ممالک میں فاسٹ فوڈ کلچر تیزی سے فروغ پانے لگا۔
مغرب سے فاسٹ فوڈ کلچر مشرق اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی پہنچ گیا۔ طبی
ماہرین اور صحت سے متعلق اداروں نے فاسٹ فوڈ کو نقصان دہ قرار دیا ہے، مگر
زمانے کی تیز رفتار ترقی اور وقت کی کمی کے باعث یہ کلچر تیزی سے ساری دنیا
میں پھیلنے لگا۔ امریکا اور دوسرے ممالک میں بے شک اسے جنک فوڈ بھی کہا
جاتا ہولیکن ہمارے یہاں رات کے کھانے کے طور پر برنچ میں، شام کی چائے کے
ساتھ برگر ہضم کرلیا جاتا ہے۔ گویا برگر ایک فیشن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے
، آج بڑے شہروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جہاں امریکی و مغربی
فرنچائز کے ساتھ عربی، افریقی، چائنیز، تھائی، جاپانی، انڈین، بنگالی،
حیدرآبادی اور اطالوی فرنچائز مثلاً سب وے ، پیزا ہٹ ، ہارڈیز ’او پی ٹی پی
، نینڈوز ، ڈنکن ڈونٹس اور ڈومینوز نہ ہوں، دنیا بھر میں شہرت رکھنے والی
امریکی فوڈ چین کے ایف سی کو پاکستان میں آئے کئی برس گزر گئے ہیں، یہ
پاکستان کی پہلی غیر ملکی فرنچائزز میں سے ایک ہے۔کین ٹکی فرائیڈ چکن کے
آپریشن منیجر سندھ محمد عظیم کا کہنا ہے کہ ہماری کمپنی انتظامیہ حال ہی
میں تبدیل ہوئی ہے، نئی انتظامیہ عنقریب برانچیں بڑھانے والی ہے۔اس کا واضح
مطلب یہ ہے کہ کمپنی کا کاروبار بڑھ رہا ہے۔برگر کنگ بھی ایک غیر ملکی فرم
ہے جو گزشتہ سال ہی پاکستان میں آئی ہے ابھی اس کا ایک سال بھی پورا نہیں
ہوا۔ کراچی شہر میں اس وقت برگر کنگ کی صرف 4یا 5 آوٹ لیٹس ہی ہیں، برگر
کنگ ہولڈنگز انکارپوریٹ کے ایگزیکٹووائس پریذیڈنٹ اینڈ ایشیا پیسیفک کے
صدر، ایلییاز ڈی یاز سیس کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ بہت جلد پاکستان میں
اپنا بزنس بڑھائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری
کیلئے مثالی ماحول موجود ہے۔اب ہر چھوٹے بڑے شاپنگ مال میں فوڈ کورٹس کھل
گئے ہیں-
غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے لگے، معاشی سرگرمیوں میں تیزی کے
امکان، بین الاقوامی فوڈ چین نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کاروباری معاہدہ کر
لیا، ملک ریاض کہتے ہیں بحریہ ٹاؤن کراچی سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو روزگار ملے
گا، مستحکم معیشت سے ہی دہشتگردی ختم ہوگی، آج کل کے جدید دور میں کھانے
پینے کی پرانی روایات بھی بدلتی جا رہی ہیں۔ اب لوگ گھر کے بنے ہوئے سادہ
کھانوں کے بجائے بازار کے بنے ہوئے کھانے زیادہ شوق سے کھاتے ہیں۔ کراچی
شہر کے جس علاقے اور حصے میں جائیں وہاں ہر گلی، محلے میں مختلف ٹھیلوں،
اسٹالز اور ڈھابوں پر کھانے کی اشیا فروخت ہوتی نظر آئیں گی۔ محمدعلی نامی
کراچی کے شہری ایک کالج کے کینٹین میں برگر اور فاسٹ فوڈ کی دکان پر پارٹ
ٹائم نوکری کرتے ہیں جنہوں نے حال ہی میں کالج ٹائمنگ کے بعد شہر کی مشہور
مارکیٹ میں اپنا خود کا ایک 'برگر' کا ٹھیلا لگایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ،
’آجکل شہر میں چلنے والا سب سے اچھا کاروبار کھانے پینے کی اشیا کا ہے شہر
کی جس دکان اور ٹھیلے ہر دیکھیں گاہکوں کا رش ہی نظر آئے گا کئی دکانوں
والوں نے دوسرا کام کرتے تھے انھوں نے کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنی شروع
کردی ہیں جسمیں سب سے زیادہ فاسٹ فوڈ بکتا ہے‘۔شہریوں میں فاسٹ فوڈ کی
پسندیدگی کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ، ’میں گزشتہ کئی سالوں سے اجس کالج
کینٹین میں کام کر رہا ہوں وہاں برگر بنانے میں ہمارا ہاتھ نہیں رکتا آپ
خود اندازہ کرلیں یہ چیزیں کتنی بکتی ہیں‘۔ شہر میں فاسٹ فوڈ کے نام پر
بکنے والے چکن اور بیف برگرز، بن کباب، فرنچ فرائز، حلیم چنا چاٹ رولز اور
دیگراشیا شامل ہیں اکثر اوقات دفتروں اور دیگر اداروں میں کام کرنیوالے
افراد لنچ ٹائم میں بھی اسی طرح کے کھانے کھانا پسند کرتے ہیں۔ چھٹی کا دن
یو یا ویک اینڈ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان کھانوں کیلئے شہر کے مختلف
ریستورانوں اور ہوٹلں کا رخ کرتی ہے مگر شہری حفظان ِصحت کے اصولوں کے خلاف
تیار کئیگئے ان کھانوں کے مضر اثرات سے بالکل ناواقف ہیں۔ ان کھانوں کی لذت
اور مقبولیت ایک طرف لیکن اب میڈیا پر آنے والی رپورٹوں نے کراچی کے شہریوں
کو لرزا کر رکھ دیا ہے، ان رپوٹوں میں بازار کے کھانوں میں مضر صحت مصالحے،
غیر معیاری تیل و گھی، گوشت کو جلد گلانے کے لیے مختلف کیمیائی اجزا، اور
گلی سڑی سبزیاں اور مضر صحت گوشت کے استعمال کو دکھایا گیا ہے، جس سے لوگوں
کی تشویش بڑھ گئی ہے۔ ان غیر معیاری کھانوں سے انسانی صحت تباہ ہورہی ہے۔
کیوں کہ یہ چیزیں معیاری چیزوں سے کہیں سستے داموں مل جاتی ہیں۔ فاسٹ فوڈ
کا کاروبار کرنیوالے ان اشیا کی تیاری حفظان صحت کے اصولوں کو پس پشت ڈال
کر اپنا کاروبار چمکانے میں مگن ہیں۔ان اشیا کو خریدنے کر کھانے والے شہری
یہ نہیں جانتے کہ زبان کے چٹخارے انھیں کئی بیماریوں میں مبتلا کر رہے
ہیں۔کراچی کے سول اسپتال کے جنرل فزیشن ڈاکٹر سلیم مصطفیٰ بتاتے ہیں کہ،
’اسٹریٹ فوڈ کے انسانی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں جس میں تیل کی زیادتی کے
باعث جسم میں کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے اگر ان اشیا کا استعمال روزانہ کی
بنیاد پر کیاجائے تو انسان بیماریوں میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جنک
فوڈ سے جسم میں توانائی کے بجائے کیلوریز میں اضافہ اور پروٹین کی مقدار کم
ہوجاتی ہے جس سے جسم فربہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور دیگر بیماریاں جنم لیتی
ہیں‘۔فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے پاکستانیوں کی سماجی و معاشرتی
زندگی کو مکمل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ صبح کا ناشتا اور رات کا کھانا تاخیر
سے کھانے کے باعث لوگوں کی سماجی زندگی اب گھر اور خاندان کے بجائے ہوٹلوں
تک محدود ہوگئی ہے۔ جو لوگ اچھا کھانا کھانے اور کھلانے کے شوقین تھے، اب
گھروں پر روایتی کھانوں کی دعوتیں کرنے کے بجائے ہوٹلوں میں کھانا کھانے
اور کھلانے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے روایتی خاندانی نظام اور رابطے کم زور
ہورہے ہیں۔ فاسٹ فوڈ ریستورانوں نے بھی نصف شب کے بعد اپنی پروڈکٹس کی
قیمتوں میں نمایاں کمی کرکے لوگوں کو خصوصاً نوجوان کو نصف شب کے بعد گھروں
سے باہر رہنے پر مجبور کردیا ہے۔30 سال پہلے لاہور میں کھانے پینے کی مختلف
اشیا کے لیے مشہور ’ڈھابے‘ ہوا کرتے تھے۔ اب لاہور میں 20 ہزار کے قریب
ہوٹل اور ریستوران ہیں۔کراچی میں برگر، بریانی، حلیم، روسٹ، گولا کباب،
چپلی کباب، نہاری، پائے، سینڈوچ اور دوسرے کھانے پینے کی اشیا کی دکانوں کی
تعداد تین لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ کراچی میں اس وقت سب سے زیادہ چلنے والا
کاربار ہی کھانے پینے کا ہے۔ڈاؤ میڈیکل ہیلتھ سائنس یونیورسٹی کے پروفیسر
ڈاکٹر زمان شیخ کہتے ہیں کہ ’فاسٹ فوڈ میں کیلیوریز کی بھرمار ہے ایک چھوٹے
سے بن کباب میں نمک اور چکنائی کی بھرپور مقدار موجود ہوتی ہے جس سے انسانی
جسم میں کولیسٹرول میں اضافہ، موٹاپا اور دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں جو
صحت کیلئے خطرناک ہیں‘۔جبکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ، ’ان کھانوں کو
جانچنے کا کوئی پیمانہ کوئی نہیں ہے اگر شہری ان اشیا کی بناوٹ دیکھ لیں تو
ان کا دل لرز جائے کہ کس گندگی دے اسکو تیار کیاجاتا ہے شہریوں کو فاسٹ فوڈ
جیسے کھانوں کا چسکا منہ کو لگ گیا ہے‘ ایسے کھانوں کو متاثر کن بنانے
کیلئے ان میں فوڈ کلر کے بجائے کپڑا رنگنے کا رنگ استعمال ہو رہاہے جو بہت
سستا ہوتا ہے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ’فوڈ ڈیپارٹمنٹ اوردیگر انتظامیہ کو
فعال ہونے کی ضرورت ہے حکومت کو چاہئے کہ ان اداروں میں کام کرنیوالے
افسران کو غیر متوازن اشیا کا پیمانہ کرنے اور ان چیزوں کی فروخت کرنیوالوں
سے سختی سے نمٹیں تو ان بیماریوں پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔‘ اس
وقت ٹھیلوں، ڈھابوں اور دکانوں اور روسٹورنٹ میں حفظان ِصحت کے اصولوں
کیخلاف بننے والے ان کھانوں کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی سرکاری ادارہ بھی
سرگرم نہیں ہے۔ کئی پاکستانی نجی چینلز کے کئی پروگرامز کی کئی چھاپہ مار
ٹیموں نے فاسٹ فوڈ کا گندا کاروبار کرنیوالے ایسے کئی چہرے بے نقاب کرکے
افسران بالا کی توجہ اس جانب دلانے کی کوشش بھی کی مگر سب عارضی رہا، کھانے
والے کھا رہے ہیں بیچنے والے کاروبار کررہے ہیں اور اپنی جیبیں بھر ر رہے
ہیں۔ اور مرنے والے مر رہے ہیں۔ کراچی کے علاقوں مثلاً طارق روڈ، حیدری،
کلفٹن، ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد اور دیگر تمام
علاقوں کے شاپنگ سینٹرز کے پورے پورے فلورز ان فرنچائزز سے بھرے ہیں لیکن
چند سال پہلے کی بات ہے شہر میں ایک ہی فوڈ اسٹریٹ ہوا کرتی تھی ،برنس روڈ
جہاں ایک ساتھ درجنوں ہوٹلز اور ریسٹورنٹس ہوا کرتے تھے، مگر دیسی اسٹائل
کے جبکہ اب ہر علاقے کی اپنی ایک فوڈ اسٹریٹ ہے۔ گلشن اقبال، نارتھ ناظم
آباد یہاں تک کہ نیو کراچی میں سندھی ہوٹل پر بھی کھانوں کی انگنت ورائٹیز
اور ریسٹورنٹس موجود ہیں کچھ عالمی اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ کراچی اب
بھی سستے ترین شہروں میں شامل ہے،کم ازکم یہاں ایک وقت کا کھانا جتنے کم
پیسوں میں مل جاتا ہے ایسا باقی شہروں میں کم ہی ہوتا ہے لیکن کراچی کے
بدلتے ہوئے لائف اسٹائل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پیسہ اب شاید مسئلہ نہیں
رہا، ہر طبقے کے لوگ اپنی پہنچ کے مطابق ہوٹلنگ کرتے ہیں۔ ان قیمتوں میں
کمی بیشی کی بنیاد وقت، سائز، اسپیشل ایونٹس اور ڈیلز پر انحصار کرتی ہے،ان
قیمتوں کے باوجود غیر ملکی فوڈ چینز کا بزنس خوب بڑھ رہا ہے۔ -کراچی کے ایک
رہائشی اور ہوٹلنگ کے شوقین، بتاتے ہیں کہ اب شہر کے کسی بھی علاقے میں چلے
جائیں ہوٹل پر جگہ نہیں ملتی، آپ کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سندھی مسلم
سوسائٹی میں واقع نینڈدز کی میں ایک ایک گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ گھنٹوں
تک ٹریفک میں پھنسے رہنے کی کوفت کے باجود لوگ ان آوٹ لیٹ میں جگہ ملنے کا
انتظار کرتے ہیں۔غور طلب پہلو یہ ہے کہ کراچی بری طرح سے بدامنی اور دہشت
گردی کی لپیٹ میں ہے، اگر یہاں امن ہو توفوڈ انڈسٹری اربوں روپے کا منافع
دے سکتی ہے، بعض علاقے تو ایسے ہیں جہاں ریسٹورنٹس اور ہوٹلنگ کا بزنس بہت
عروج پر ہے،جیسے پورٹ گرینڈ اور دو دریا وغیرہ ، ان علاقوں میں چلتا فوڈ
بزنس رونق بخش ہونے کے ساتھ دولت بخش بھی ہے،فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے چلن پر
تبصرہ کرتے ہوئے روایتی کھانوں کے ہوٹل مالکان کہتے ہیں مغربی طرز کے یہ
جنک فوڈ اور ان کے ساتھ انرجی سافٹ ڈرنک کا استعمال معاشرے میں شکم پرے
رجحا ن کو فروغ دے رہا ہے ، سافٹ ڈرنکس اور کاربونیٹیڈ واٹر سے معدے میں
تیزابیت بڑھ رہی ہے جس سے نظام ہضم کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کے
باوجود اب بھی شام ہی سے کراچی میں انواع و اقسام کے کھانوں کا مرکز سمجھے
جانے والے 'برنس روڈ' پر کھانوں کے شائقین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ شہر کے
مرکزی علاقے صدرکے نزدیک واقع اس فوڈ اسٹریٹ کو دیسی و ثقافتی کھانوں کا
اہم مرکز سمجھا جاتا ہے جہاں لذیذ و مزیدار کھانوں کے کئی چھوٹے بڑے
ریستوران قائم ہیں۔ شام ہوتے ہی یہاں کھانا کھانے آنے والوں اور خریدنے
والوں کا رش لگ جاتا ہے جو رات گئے تک رہتا ہے۔مچھلی کھانے کے شوقین افراد
میں کراچی کے علاقے کیماڑی کی قدیم مچھلی مارکیٹ آج بھی مقبول ہے۔ موسم کچھ
خوشگوار ہو اور اہلیان کراچی ساحل سمندر تفریح گاہوں اور فوڈ اسٹریٹ کا رخ
نہ کریں ایسا ممکن نہیں، آخر خوش خوراکی میں کراچی والے بھی کسی سے کم
نہیں، |