توہین رسالت و صحابہ کا قانون ۔۔۔

آج اگر آپ شرق ، غرب ، شمال و جنوب کی طرف نظر دوڑائیں تو آپکو دنیا کے ہر کونے میں مسلمان مار کھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ نیل کے ساحل سے کاشغر تک، دشت لیلی سے تورا بورا تک ، قلعہ جنگی سے گوانتانامو و ابو غریب کے عقوبت خانوں تک پانچ براعظم میں جسطرف بھی نگاہ اٹھائیں خون مسلم پانی کی طرح بہتا ہوا نظر آئے گا۔ صدیاں گزر گئیں امت مسلمہ پر کالی رات چھائی ہوئی ہے اور صبح کا سورج طلوع نہیں ہو رہا ، اسی صبح کے انتظار میں اقبال اس دنیا سے روتا ہوا چلا گیا۔ جب قوموں پر رات ہو جائے تو صدیاں لگ جاتی ہیں سویرا ہونے تک، لیکن میں الله کی رحمت سے ناامید نہیں ہوں ایک دن آئے گا جب امت مسلمہ پر پھر بہار آئے گی، لیکن پیوسطہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔۔ ہمارے جسم تو پہلے ہی زخموں سے چور ہیں اور کمریں جھک گئیں ہیں، لعشیں اٹھا اٹھا کر لیکن ایسے حالات میں ہماری روحوں کو بھی توہین رسالت ، توہین صحابہ و اہلبیت کرکے کچوکے لگائے جارہے ہیں۔ مسلمان چاہے کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو وہ سب کچھ تو برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے آقا و مولا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم اور انکی اہلبیت کی توہین کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔ اس نفسا نفسی کے دور میں بھی مسلمان اپنے آقا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں بہت حساس ہیں اور ہونا بھی چاہئیے۔ اگر کوئی شخص توہین رسالت سن کر خاموش رہے اس کے سینہ میں دھڑکنے والا دل کسی مومن کا دل ہو ہی نہیں سکتا۔ جناب صدیق اکبر سے لیکر فتاوی عالمگیری تک تمام اکابرین امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ گستاخ رسول کی سزا صرف موت ہے اس جرم کے مرتکب کو معاف کرنے کا اختیار کائنات میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ امت کی اسی حساسیت کے پیش نظر پاکستان میں ٢٩٥ سی کا قانون بنایا گیا جو کہ آج تک ہمارے پینل کوڈ کا حصہ ہے۔ ٢٩٥ سی کے مطابق توہین رسالت کے مرتکب کی سزا موت ہے۔ جب سے یہ قانون بنا ہے تب سے این جی اوز ، نام نہاد ہیومن رائٹس کی چئمپئن خواتین ، لبرل و سیکولر دانشور اس قانون کو ختم کروانے کی کوشیش میں سرگرداں ہیں انکا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اس قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے لوگ ذاتی انتقام و دشمنی کے لئیے اسکا استمعال بے گناہوں پر کرتے ہیں لہذا اس قانون کو ختم ہونا چاہئیے۔ میری ہمیشہ ان جاہل دانشوروں سے گذارش رہی ہے کہ اسکا غلط استمعال ضرور روکنا چاہئیے اور کسی بے گناہ کو اس قانون کے تحت سزا نہیں ملنی چاہئیے ۔ اگر ان مفلوج ذہنوں کا مؤقف مان لیا جائے تو پاکستان کے ہر قانون و ضابطے کا خاتمہ ہونا چاہئیے کیونکہ جہاں پاکستان میں ہر قانون کا صحیح استعمال ہوتا ہے وہاں اسکا غلط استعمال بھی ہوتا ہے مثال کے طور پر پینل کوڈ میں ایک اور قانون ہے ٣٠٢ ۔ قتل ایک بندہ کرتا ہے لوگ ایف آئی آر میں پورے خاندان کا نام لکھوا دیتے ہیں جو کہ ٣٠٢ کا غلط استمعال ہے۔ اب کوئی عقل و دانش سے عاری شخص یہ مطالبہ کر دے کہ چونکہ اسکا غلط استمعال ہوتا ہے لہذا اس قانون کو ختم کر دینا چاہئیے تو آپکا جواب اس فاطرالعقل کو یہ ہوگا کہ جاؤ اپنے دماغ کا علاج کرواؤ ہو سکے تو بجلی کے جھٹکے لگواؤ تاکہ تمھاری سمجھدانی میں یہ بات آجائے کہ کسی بھی قانون کے غلط استمعال کو روکنے کے لئیے اقدام اٹھانے چاہئیے نا کہ سرے سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئیے۔ اب ہمیں دین بھی یہ دانشور سکھانے کی کوشیش کرتے ہیں دنیا کے حکمرآنوں کے پروٹوکول و آداب انکے بیوروکیٹ و دربان مرتب کرتے ہیں لیکن شہنشاہ کونین، جسکی شہنشاہی زمین و آسمان پر ہے کے دربار کے آداب خالق کائنات نے پہلے ہی طے کر رکھے ہیں۔ یہ وہ بارگاہ رسالت ہے کہ جہاں آواز نبی صلی الله علیہ وسلم سے اونچی ہو جائے تو ساری زندگی کی عبادتیں و ریاضتیں برباد ہو جاتی ہیں۔ لہذا یہ دانشور ہمیں دین نہ سکھائیں کیونکہ دین کوئی آج نیا نہیں آیا ہمارے بزرگ یہ مسائل پہلے ہی طے کر گے ہیں اور توہین رسالت کے قانون پر امت مسلمہ کا اجماع ہے اسے ختم کرنے کا حق آپ کے پاس نہیں ہے، ہاں اسکے غلط استمعال کو ہر صورت روکنا چاہئیے اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔ آج صبح جیو نیوز کے ایک مارننگ شو میں توہین اہلبیت کی گئی جس طریقے سے کی گئی میں ان الفاظ کو دہرا کر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانا نہیں چاہتا۔ جیو نے اس پروگرام کو بند کر دیا اور اس پروگرام کی ہوسٹ نے غلطی تسلیم کرتے ہوے معافی بھی مانگ لی۔ اب جیو کے تنخوادار ملازم اور انکے نظریاتی حمایتی میدان میں کود پڑے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ چونکہ انھوں نے معذرت کر لی ہے لہذا قوم انھیں معاف کردے الله بھی تو ہماری بے شمار خطائیں معاف کرتا ہے۔ بے شک الله معاف کرتا ہے اور توہین اہلبیت کا گناہ بھی معاف کرنے پر الله قادر ہے، کر سکتا ہے، مگر اسکا فیصلہ تو روز معشر ہو گا کہ کس کی توبہ قبول ہوئی اور کس کی نہیں ۔ ان کرائے کے دانشوروں کی خدمت میں گذارش ہے کہ توہین اہلبیت کے مرتکب افراد کو معاف کرنے کا حق نہ کسی ریاست کے پاس ہے ، نہ کسی عدالت اور نہ عوام کے پاس ۔ حکومت کو جاگنا چاہئیے اور قانون کے مطابق ٢٩٥ اے ، بی کے تحت جیو کے خلاف مقدمہ درج کرنا چاہئیے، کیونکہ ایسا نہ ہو کہ معاملہ حکومت کے ہاتھ سے نکل کر عوام کی عدالت میں چلا جائے۔ سنی اتحاد کونسل کے مفتیان کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں جیو کے خلاف فتوی دیا ہے، اب اس فتوی کے خلاف نام نہاد دانشور اور کرائے کے نیم ملاں زبانیں دراز کریں گے کیونکہ انھوں نے تنخواہ تو حلال کرنی ہے۔ لیکن صاحبزادہ حامد رضا صاحب نے بروقت اس ایشو پر آواز اٹھائی اور جسکی وجہ سے پیمرا میں تھوڑی حرکت ہوئی اور اس نے جیو نیوز کو نوٹس جاری کیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ حکومت اس حساس مسئلے میں اپنے محسن جیو کی پشت پناہی نہیں کرے گی۔ حرمت رسول صلی الله علیہ وسلم پر جان بھی قربان کا نعرہ لگانے والوں کو بھی سوچنا چاہئیے اور جیو چینل کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے۔ کیونکہ اگر آپ ایک چینل دیکھنا نہیں چھوڑ سکتے تو آپ نے جان کہاں قربان کرنی ہے سوچئیے گا ضرور ۔۔۔۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186437 views System analyst, writer. .. View More