شاعری کیا ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ شاعری کی بنیاد خیالات ہوتے ہیں اور خیالات مشاہدہ سے زیادہ
فکر اور شعور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی فکر کی بلندی اور شعور کی گہرائی سے
جنم لینے والے نئے خیالات کو مخصوص قواعد کے مطابق ہم قافیہ الفاظ کی صورت
میں پیش کرنا ہی شاعری ہے(تاریخ الادب العربی،ص:۲۵)۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی
میں جن اشخاص نے جتنے بلند خیالات کو شاعرانہ لباس مہیا کیا تاریخ نے انہیں
شعراء کی صف میں اتنا ہی بلند قد عطا کیا کہ
میرے اشعار کا رتبہ جہاں میں اعلی ٹھراہے
’’نتیجہ فکر‘‘ میر ا سمند سے بھی گہرا ہے
اشعار کا معیار
جس طرح پھلوں کے چھلکے جتنے بھی دیدہ زیب اور جازب ِنظر ہوں، کھانے والوں
کا منظور نظر تو ان کا اندرونی مواد ہی ہوتا ہے، اسی طرح کلام جتنے بھی
قافید بندی کے تقاضے پورے کرلے، سننے والوں کے لیے دلچسپی کا سامان تو اس
کے ان مول اور تیکھے خیالات ہی ہوا کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار کی تعریف انکے پُر حکمت مضامین
کی وجہ سے فرمائی اور فرمایا:
ان من الشعر حکمۃ
(صحیح البخاری، الادب،باب ما یجوز من الشعر، الرقم:۵۶۷۹)
’’بعض اشعار حکمت بھرے ہوتے ہیں۔ ‘‘
اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ’’شعر تو ایک کلام ہے، اگر اس کا مضمون
اچھا ہے تو شعر بھی اچھا ہے اور مضمون بُر اہے تو شعر بھی بُرا ہے ‘‘۔
(الجامع الصغیر،حرف الشین، الرقم:۴۹۴۰)
اسی حقیقت کو شاعر دربارِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان الفاظ
میں پیش کرتے ہیں۔
وانما الشعر لب المرء یعرضہ علی المجالس ان کیسا وان حمقا ’’شعر آدمی کی
فکر کا نتیجہ ہوتے ہیں جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ سمجھ دار ہو تو
اس کی دانش مندی نمایاں ہوتی ہے، اگر بے وقوف ہو تو اس کی نادانی کا پتہ
چلتا ہے‘‘۔
ذمہ داری کا احساس
شاعری کو دیگر تمام ادبی صنعتوں میں منفرد مقام حاصل ہے ۔وجہ یہ ہی ہے کہ
اشعار کے مترنم اوزان اور نہایت مشابہہ الفاظ سامعین کے دلی جذبات کو اپنے
سحر میں ایسے جکڑ لیتے ہیں کہ تلخ حقائق، خشک موضوعات ا ور واعظانہ نصائح
ان کے ذریعے با ٓسانی دماغ کے لاشعور میں بیٹھتے چلے جاتے ہیں۔ روز مرہ کے
مشاہدہ میں اس کی قریب ترین مثال کیپسول سے دی جاسکتی ہے کہ اس کا ظاہری
کور cover)) اندرونی تلخی کو چھپا کر کڑوی دوائی غیر محسوس طریقے سے جسم کے
رگ وپے میں پہنچادیتا ہے۔
اشعار کی یہی الفاظ کی جھلملاہٹ، اسلوب کی نیرنگی اور قافیوں کی مشابہت ہی
تو ہے جو نوجوانوں کو سن رسیدہ شعراء کے قریب کردیتی ہے۔ اس سے شعراء کی
ذمہ داری میں یقینا اصنافہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی اسی خداداد صلاحیت کے
ذریعہ قوم کے ان معمار وں کا رخ سیدھے رستے اور حقیقی منزل کی طرف موڑتے
ہیں یا انہیں الفاظ وزباں کے نشے میں ایسا دھت کردیتے ہیں، جس کا نقشہ
قرآن کھنچتا ہے۔
والشعراء یتبعھم الغاوُن۔ الم ترانھم فی کل واد یھیمون ۔وانھم یقولون مالا
یفعلون۔ (الشعرائ: ۲۲)
ترجمہ:’’رہے شاعر لوگ ، تو ان کے پیچھے تو بے راہ لوگ چلتے ہیں۔ کیا تم نے
نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میںبٹھکتے پھرتے ہیں اور یہ کہ وہ ایسی باتیں
کہتے ہیںجو کرتے نہیں ہیں‘‘۔
نتیجہ فکر
ان تمہیدی گذارشات کا حاصل یہ ہے کہ
ّ(الف) شاعری بلند خیالات کو مخصوص پر کشش صورت میں پیش کرنے کا نام ہے۔
(ب) خیالات و نظریات ہی اشعار کا جو ہر ہوتے ہیں، اس لیے اسلام میں اشعار
کے جائز و ناجائز ہونے کا مدار ان کے مضمون کو بنایا گیا ہے۔
(ج) اشعار کی ظاہری مخصوص ساخت، مسحور کن ترنم اور دل کو چھولینے والی
قافیہ بندی ان کے مضامین کی طر ف سامعین کے دل و دماغ کو کھینچ لیتی ہیں اس
لیئے کسی قوم کی ذہنی تعمیر و تخریب میں شعراء کا کردار اہم ہوتا ہے۔
اردو نعت گو شعراء کی بے اعتدالیاں
نعت بھی ایک شعری صنف ہے۔ اس لیئے اس میں بھی درج بالا ترحیمات کا بھر پور
اہتمام ہونا چاہیئے۔ مزید براں توصیفِ محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے
مضمون پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے جو مقام ِتقدس حاصل ہے اس کا بھی تقاضا
ہے کہ اس میں اشعار کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جائے۔
لیکن جب عصرِ حاضر کے بعض نعتیہ کلاموں اور خیر القرون کے نعتیہ مجموعوں کا
تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے تو ہر دو کے مضامین میں ایک فکری دوری اور شعوری
فرق نمایاں نظر آتا ہے۔ مثلاً:
(الف) عہدِ رسالت کے شعرا مدحتِ رسول میں اطاعتِ رسول کی دعوت بھی دیا کرتے
تھے جبکہ آج کل کی نعتیہ شاعری عموماً اس زاو یے سے بالکل محروم ہے۔
(ب) ماضی کا شاعر حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور عمدہ
معمولات کو یوں ترغیبی انداز میں پیش کرتا تھا کہ سامعین ان محاسن سے خود
کو مزین کرنے کا عزمِ مصمم لے کر اٹھتے، اس کے برعکس ہمارے عہد کے اکثر
شعرا سر کارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کو وہ مافوق البشر رخ عطا
کرتے ہیں کہ حاضرین کے دل میں عش عش کرنے کے سوا عمل کا کوئی جذبہ ہی نہیں
ابھرتا۔
(ج) بعض جدید نعتیہ کلاموں میں رحمہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمۃ
کا مظاہرہ کفار سے نرمی اور مداہنت سے قریب رواداری کی صورت میں پیش کیا
جاتا ہے۔ جبکہ قدیم نعتوں میں رحمۃ کا صحیح معنی سطح زمین سے امن دشمن
عناصر کا خاتمہ بیان کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان اشعار میں خاتم النبین
صلی اللہ علیہ وسلم کو میدانِ جہاد میں مصروفِ قتال بھی دکھایا جاتا تھا۔
(د) قاری حیراں ہوجاتا ہے کہ ایک طرف تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نعتوں کے
ذریعے توحید کا درس دیتے تھے۔ رب العزت کی ذات و صفات میں یکتائی اور
وحدانیت کے اظہار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصدِ اصلی
قرار دیا کرتے تھے۔ دوسری طرف بعض اردو نعت گو شعرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کو غائبانہ پکارنے، ہر طرح کی حاجات میں ان سے مدد طلب کرنے کی دعوت دیتے
نظر آتے ہیں۔
(ر) ادب کا طالب علم قدیم نعتوں میں گناہوں کے دنیوی نقصانات اور اخروی
عذابات کے تذکرے سے اپنے اندر توبہ کی پکار سنتا ہے جبکہ جدید نعتوں میں
شفاعتِ رسول کا اسلامی عقیدہ اس مبالغہ آمیز طرز میں پیش ہوتا ہے کہ عوام
عشقِ رسول کے چند نعرے لگا کر کامل نجات کا یقین کرلیتے ہیں۔
حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کے خصوصی اعزازات
مدحتِ رسول کے حقیقی اسلامی مزاج کو سمجھنے کے لیئے شاعر رسول حضرت حسان بن
ثابت رضی اللہ عنہ کے نعتیہ کلام کا گہرا مطالعہ انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ وہ
صحابی ہیں جنہیں حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی کے منبر
پر بٹھا کر یہ دعا دی۔
اللّٰھم ایدہ بروح القدس
(المعجم الکبیر، باب الحا، الرقم:۳۵۸۰)
’’اے اللہ! جبرئیل کے ذریعے اس کی مدد فرما‘‘
صرف یہی نہیں بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے اشعار سننے کے بعد
تعریفی و دعائیہ کلمات کے ذریعے سندِ قبولیت بھی عطا فرماتے۔
مثلاً جب حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ مشہور شعر کہا:
فان ابی ووالدہ و عرضی لعرض محمد منکم وقاء
میرے باب دادا اور میری عزت ناموس، ناموس رسالت مآب کی حفاظت پر قربان
ہے‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا دی۔
وقاک اللّٰہ یا حسان حر النار
’’اے حسان! اللہ تعالیٰ تمہیں جہنم کی گرمی سے محفوظ رکھے‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان موقع بموقع تائیدات نے حضرت حسان رضی
اللہ عنہ کے ان نعتیہ اشعار کو مزاجِ شریعت سے موافقت کی سند عطا فرمائی۔
اسی وجہ سے ہر عہد کے ثنا خواںِ رسول کے لیئے ضرور ی ہے کہ وہ آپ کے دیوان
کا گہری نظر سے مطالعہ بھی کریں اور آپ کی فکر کو اپنے اندر جذب کرنے کی
کوشش بھی کرے۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی شاعری کے اجزائ:
آپ کے مدحتی اشعار توصیفِ رسول کے ساتھ ساتھ درج ذیل خصوصیات سے بھی مزین
ہوتے تھے۔
(۱) درسِ توحید
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہے گئے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کے درج ذیل اشعار کس خوبصورتی سے پڑھنے والی کی توجہ توحید کی اہمیت اور
شرک کی مذمت کی جانب مبذول کراتے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ جلسہ ٔ سیرت کا ایک
شاعر شرک کے جالے چند اشعار کے ذریعے کیسے صاف کرسکتا ہے۔
نبی اتانا بعد یأس وفترۃ
من الرسل والاوثان فی الارض تعبد
وانذرنا نارا وبشرنا جنۃ
وعلمنا الاسلام فااللّٰہ نحمد
’’جب انسانیت ہدایت سے نا امید ہوچکی تھی، رسولوں کی آمد کا وقفہ طویل
ہوگیاتھا، روئے زمین پر بتوں کی پوجا پھیل چکی تھی، اللہ نے آپ کو نبی بنا
کر بھیجا۔ آپ نے ہمیں جہنم سے ڈرایا اور جنت کی خوش خبری سنائی، اور ہمیں
اسلام سکھایا، پس ہم اللہ تعالیٰ ہی کا شکر ادا کرتے ہیں۔
وانت الہ الخلق ربی و خالقی
بذلک ماعمرت فی الناس اشھد
تعالیت رب الناس عن قول من دعا
سواک الھا انت اعلی و امجد
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۸۵)
’’اے ساری مخلوق کے الہہ! توہی میرا رب اور میرا خالق ہے، جب تک میں زندہ
ہوں لوگوں میں اسی بات کا اعلان کرتا رہوں گا۔ اے تمام لوگوں کے پروردگار!
تو ان تمام مشرکوں کی باتوں سے پاک ہے جو تیرے علاوہ کسی اور کو اپنامعبود
بناتے ہیں۔ تیری شان اس سے بہت بلند ہے‘‘
غزوہ خندق کے واقعہ سے توحید کا درس دیتے ہیں اور خوب دیتے ہیں۔
واشک الھموم الی الا لہ وما تری
من معشر متالبین غضاب
اموا بغزوھم الرسول والبوا
اھلِ القری وبوادی الاعراب
’’اے مخاطب! تم تمام غموں اور اس لشکر کی شکایت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی
سے کرو جو مختلف علاقوں سے آکر ایک جگہ جمع ہوگیا ہے اور غضہ میں بے تاب
ہوا جاتا تھا۔ انہوں نے اردگرد کی تمام بستیوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے جنگ کرنے کو بھی جمع کر لیا تھا۔‘‘
وغدوا علینا قادرین بأیدیھم
ردّوا بغیضھم علی الاعقاب
بھبوب معصفۃ تفرق جمعھم
وجنودربک سید الارباب
وکفی الا لہ المومنین قتالھم
واثابھم فی الاجر خیر ثواب
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۶۶)
’’یہ لشکر پوری قوت کے ساتھ ہم پر چڑھ دوڑا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے تیز
آندھیوں اور فرشتوں کے ذریعے ان کو الٹے پائوں بھاگنے پر مجبور کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے مومنین کو لڑے بغیر کامیابی دی اور بہترین ثواب بھی عطا
فرمایا‘‘۔
(۲) داعیانہ مزاج کی آبباری
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے اکثر اوقات انسانوں
کو انکے خالق سے جوڑنے میں صرف ہوتے تھے۔ دن ہو یا رات، سفر و حضر، مکہ
مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ یہ مبارک محنت ہر طرح سے جاری رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ
دعوتِ الی اللہ کو قرآن کریم سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی
اتباع کرنے والوں کا راہِ سفر قرار دے تا ہے۔
قل ہذہ سبیلی ادعوا الی اللّٰہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی (یوسف: ۱۰۸)
(اے پیغمبر !) کہہ دو کہ: یہ میرا راستہ ہے۔ میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ
اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی۔
اسی محنت کو جاری رکھنے کے لیئے حضرت حسان رضی اللہ عنہ اپنے نعتیہ اشعار
میں حضور کی دعوتی زندگی کو نمایاں کرتے تھے۔ آج کے قصیدہ خواں اگر
جلوسوں، محفلوں اور مشاعروں میں فریظۂ تبلیغ کی اہمیت اجا گر کریں تو
گناہوں کے سیلاب کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ذکرِ رسول میں حضور کی اس صفت کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ تفصیل سے بیان
کرتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
بدل علی الرحمن من یقتدی بہ
وینقذ من ھول الخزایا ویرشد
’’جو شخص بھی آپ کی اقتداء کرتا ہے آپ اسے اللہ تعالیٰ کا راستہ دکھاتے
ہیں۔ اسے رسوائی کی مصیبت سے نجات دلواتے اور صحیح راہ نمائی فرماتے۔‘‘
امام لھم یھدیھم الحق جاھدا
معلم صدق ان یطیعوہ یسعدوا
’’آپ لوگوں کے امام ہیں، پوری کوشش کرکے انہیں حق کا راستہ دکھاتے اور سچی
بات کی
تلقین کرتے ہیں۔ اگر لوگ آپ کی بات مانتے تو کامیاب ہوجاتے۔‘‘
عزیز علیہ ان یحیدوا عن الھدی
حریص علی ان یستقیموا و یھتدوا
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۰۹)
’’آپ پر نہایت گراں ہوتا تھا کہ لوگ ہدایت کے راستے سے ہٹ جائیں۔ آپ حریص
تھے کہ لوگ سیدھے راستے پر جمے رہیں۔‘‘
ایک اور قصیدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی لگن کو نمایاں کرتے
ہیں۔
ثوی فی قریش بضع عشرۃ حجۃ
یذکر لویلقی صدیقا مئواتیا
ویعرض فی اھل المواسم نفسہ
فلم یر من یؤوی ولم یر داعیا
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۷۷)
’’حضور قریش کے درمیان دس سال سے زائد عرصہ اس کیفیت میں رہے کہ جو بھی
دوست یا ہمدرد ملتا اسے دعوت دیتے۔آپ حج کے ایام میں مختلف قبائل کے پاس
جاتے اور ان سے اسلام کی حمایت کی بات کرتے لیکن وہاں ا نہیں کوئی پناہ
دینے والا یا ان کی دعوت کو آگے پہنچانے والا نہ ملا۔ ‘‘
(۳) شوقِ جہاد
حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے اپنے نعتیہ کلام میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے
زمانے میں لڑی گئی جنگوں کے بڑے ایمان افروز نقشے کھینچے ہیں۔ اس طرح انہوں
نے اپنے عہد کی نئی نسل میں شوقِ جہاد اجاگر کرنے اور وصفِ شجاعت پیدا کرنے
میں اہم کردار ادا کیا۔
آج کے اسلامی شعرا بھی مغربی پروپیگنڈہ سے متاثر نئی نسل کے زہنوں سے
تصورِ جہاد سے متعلق شہات ختم کرسکتے ہیں۔ اور عرصے سے سوئی ہوئی امت میں
بے داری کی تڑپ جگا سکتے ہیں۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کی
جرائت و شجاعت اور بنو قریظہ کی ہزیمت کی یوں یاد دلاتے ہیں:
غداۃ اتاھم یھوی الھیم
رسول اللّٰہ کا القمر المنیر
لہ خیل مجنبۃ تعادی
بفرسان علیھا کا الصقور
ترکناھم وما ظفروا بشیئٍ
دماء ھم علیھم کا لعبیر
فھم صرعی تحوم الطیر فیھم
کذالک یدان ذوالفند الفخور
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۱۹۰)
’’روشن چاند کی طرح چمکتے ہوئے چہرے والے حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر چڑھائی کی ، آپ نے ان پر عقاب کی طرح ان پر
حملہ کیا اور صحابہ تیز رفتار گھوڑوں کو دوڑارہے تھے۔ہم نے بنو قریظ کو اس
عبرت ناک حالت میں چھوڑا کہ ان کا خون زعفران کی طرح پھیلا ہوا تھا اور
انہوں نے ذرہ بھر بھی کامیابی نہیں پائی۔ ہر سو ان کی لاشیں بکھری تھیں
جنہیں پرندے نوچ رہے تھے۔ ہر متکبر اور سرکش کی یہی سزا ہے‘‘۔
شہدا ء بدر کی یاد میں کہی گئی اس دلسوز نظم میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ
میدانِ جہاد کی خوفناک فضا میں صحابہ کرام ک رضی اللہ عنہم کے جذبۂ وفا کی
تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تذکرت عصرًا قد مضی فتھافت
بنات الحشا وانھل منی المدامع
صبابۃ وجدٍ ذکر تنی احبۃ
قتلی مضوا فیھم نضیع ورافع
وفوا یوم بدرٍ للرسول وفوقھم
ضلال المنایا والسبوف اللوامع
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۱۹۷)
’’ مجھے ماضی یاد آیا تو میرا دل غمگین اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ یہ بے
چینی میرے ان دوستوں کی یاد میں ہے جو (غزوہ بدر میں) شہید ہوگئے، جن میں
(میرے قریبی ساتھی) نضیع اور رافع بھی تھے۔جب ان پر موت کے سائے منڈلارہے
تھے اور چمکتی تلواریں ٹوٹ رہی تھیں، انہوں نے اس وقت بھی رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم سے بھر پور وفاداری کی‘‘
(۴) اطاعتِ حبیب کی ترغیب
اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق اور اطاعت لازم و ملزوم ہیں کہ مرضیٔ جاناں کے
آگے سرِ تسلیم خم کرنا ہی حقیقی محبت ہے۔
قرآن ِکریم کا اندازِ تریت بھی یہی ہے۔ متعددِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے
عشق رسول میں سرشار ہوکر بار ہاں یہ سوال کیا کہ حضور! جنت میں آپ کا
دیدار کیسے ہوگا؟ آپ کی زیارت سے ہم آنکھوں کو ٹھنڈا کیسے کرسکیں گے؟ کہ
جنت میں آپ کے اور ہمارے درجات میں اتنا فرق ہوگا کہ
ع وہ کہاں!
میں کہاں
تو ربِ کریم نے یہ آیت نازل فرمائی(تفسیرِ ابن کثیر:۳/۸۹)۔
ومن یطع اللّٰہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللّٰہ علیھم من النبین
والصدیقین والشھداء والصلحین ۔وحسن اولئک رفیقا (النسائ: ۶۹)
’’اور جو لوگ اللہ اور سول کی اطاعت کریں گے تو ان کے ساتھ ہوںگے جن پر
اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیائ، صدیقین، شھدائ، اور صالحین اور وہ
کتنے اچھے ساتھی ہیں!‘‘
ان آیات میں یہ سمجھایا گیا کہ جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات
کا شرف صرف اطاعت گزاروں کو ملے گا۔ اس لیئے ایک سچے عاشق کے لیئے ضروری ہے
کہ زندگی کے ہر موڑ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنا وظیفہ
بنائے۔
اس اسلامی مزاج کے برعکس آج کی نعتیہ شاعری میں اتباعِ رسول کی تلقین
عموماً نظر نہیں آتی، حالانکہ عہد ِ حاضر کا ثناء خواں عوام کے دلوں میں
موجزن حب ِرسول کا مقدس دریا اطاعتِ رسول کی طرف موڑ کر مغرب کی اندھی
تقلید کے مھلک اثرات سے ملک و قوم کو بچا سکتا ہے۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ اس رخ سے بھی لاجواب اشعار کہہ گئے
مثل الھلال مبار کا ذارحمۃٍ
سمح الخلیقۃ طیب الاعواد
واللّٰہِ ربی لانفارق امرہ
ماکان عیش یرتجی لمعاد
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۱۵۵)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو چاند کی طرح خوبصورت ہیں۔ بابرکت ہیں اور
رحمت والے ہیں۔ بہترین عادات کے حامل اور عمدہ خوشبو والے ہیں۔خدا کی قسم !
جب تک میری جان میں جان ہے، میں آپ کے کسی ایک حکم(اور سنت ) کی مخالفت
نہیں کروں گا۔ ‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تلقین ان اشعار
میں بھی کرتے ہیں۔
یابکر آمنۃ المبارک ذکرہ
ولدتہ محصنۃ بسعد الاسود
نوراً اضاء علی البریۃکلھا
من یھد للنور المبارک یھتدی
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۱۵۳)
’’اے آمنہ کے مبارک بیٹے! جسے انہوں نے انتہائی پاکیزگی اور عفت کے ساتھ
جنم دیا۔ آپ دنیا کے لیئے برکت کا جہاں ثابت ہوئے۔ آپ ایسا نور تھے جو
ساری مخلوق پر چھا گیا اور جسے اس مبارک نور کی پیروی نصیب ہوئی وہ ہدایت
یافتہ ہوگیا‘‘۔
خلاصۂ کلام !
گذشتہ تین چار دہائیوں سے اردو شعراء کی کثیر تعداد نعت گوئی کی طرف بڑے
والہانہ انداز سے متوجہ ہوئی ہے۔ حتی کہ بڑے بڑے نام ور ترقی پسند اور لینن
اور اسٹالن کی تعریف میں رطب اللسان رہنے والے نظم گو شعراء بھی نعت کہتے
نظر آتے ہیں۔ بلا شبہ یہ بڑی مثبت اور خوش آیند تبدیلی ہے، لیکن ضرورت اس
امر کی ہے کہ نعت گوئی کے اس مقدس فریضے کی دائیگی میں شرعی حدود کی بھر
پور رعایت کی جائے۔
اردو نعت کے اس روز افزوں زخیرے میں بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں جن میں
سے اکثر کی نشان دہی اس مضمون میں کی گئی ہے ۔ ان بے احتیاطوں سے بچائو کا
سب سے مناسب راستہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نعتیہ اشعار کا
تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور اس سے مزاجِ اسلامی کشید کرکے اردو شاعری کے
قالب میں ڈھالا جائے۔ |