امام الانبیاءﷺ کے معجزاتی سفرکے اسرار و نکات

تبارک اﷲ شان تیری،تجھی کو زیباہے بے نیازی
کہیں تووہ جوشِ لن ترانی،کہیں تقاضے وصال کے تھے
اﷲ تعالیٰ نے حضورامام الانبیاء ،تاج دارختم نبوت، حضرت محمدمصطفیﷺکوبے شمار معجزات وخصائص سے شرف یاب فرمایا،یہاں تک کہ تمام انبیاء سابقین علیہم السلام کے جملہ معجزات،کمالات،محاسن و مکارم،اوصاف جمیلہ اورعلوم آپﷺکی ذاتِ اقدس میں جمع فرمادیئے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی ورسول کو ایک معجزہ عطافرمایا،کسی کودواور کسی کو چند معجزے عطافرمائے لیکن اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیﷺکوسراپامعجزہ بنا کر بھیجا،اس لئے آپ ﷺکو جامع المعجزات، جامع الکمالات اور جامع الصفات پیغمبر کہا جاتا ہے۔ ان تمام معجزات میں سے ایک بہت بڑا،گراں قدراور عظیم الشان معجزہ ’’معجزۂ معراج‘‘ ہے۔

واقعہ معراج النبیﷺدرحقیقت پوری تاریخ انسانیت کاسب سے عظیم الشان معجزاتی سفراور حیرت انگیزومحیرالعقول واقعہ ہے کیونکہ نہ صرف اس بے مثال سفرکی نوعیت یکسر مختلف ہے بلکہ اس مقدس سفرکے مقاصداورطریقہ کاربھی بالکل منفرد اورجداگانہ ہے۔ یہ ایک ایساسفرہے جوصرف اورصرف حضورخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺکیلئے ہی خاص ہے۔آپ کے علاوہ کسی اورنبی کو اس طرح کا شرف حاصل نہیں ہوا۔

معراج کامعنی ومفہوم
لغوی اعتبارسے معراج ’’سیڑھی‘‘یا’’سیڑھی کے ڈنڈے کے مشابہ چیز‘‘کو کہتے ہیں،جس کوپکڑکرروحیں اوپرچڑھتی ہیں․․․․․․اور’’معراج‘‘ اس راستے کوکہتے ہیں جس پرفرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں،اس کی جمع ’’معارج‘ہے۔

معراج کی تین حالتیں
علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ مسجدحرام سے بیت المقدس تک کاسفر’’اسراء‘‘ہے……اور وہاں سے آسمانوں تک کاسفر’’معراج‘‘ہے……اورپھرآسمانوں سے’’مقامِ قابَ قوسین‘‘اور’’لامکاں‘‘ تک کا سفر ’’اعراج‘‘کہلاتاہے۔

سفرمعراج کاانتہائے مقام
حضور نبی کریم ﷺکوآسمانی معراج کہاں تک ہوئی؟اس بارے میں علماءِ کرام کے مختلف اقول ملتے ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ سدرۃ المنتہیٰ اورجنت المأویٰ تک حضورنبی کریمﷺتشریف لے گئے۔بعض کاقول ہے کہ عرش تک حضورﷺکومعراج ہوئی……اورایک قول یہ ہے کہ حضورسیدعالمﷺفوق العرش تک گئے۔ جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ حضوراکرمﷺطرفِ عالم تک گئے یعنی عالم اجسام کی وہ انتہاء جس کے پیچھے کچھ بھی نہیں ہے،نہ ہوا،نہ زمان ومکاں بلکہ عدمِ محض ہے۔

سفرمعراج کی منازل کاحکم
علماءِ کرام سفر معراج کے حکم کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ’’اسراء‘‘یعنی مسجدحرام سے مسجداقصیٰ (بیت المقدس)تک حضورﷺکا بے داری کی حالت میں اور اپنے جسم اطہرکے ساتھ تشریف لے جاناقطعی اوریقینی ہے،اس کامنکر مبتدع وبدعتی ہے……اورآسمانوں کی طرف معراج ہونااحادیث مشہورہ سے ثابت ہے،اس کامنکر فاسق اورگمراہ ہے……جب کہ آسمانوں سے جنت کی طرف اورعرش یافوق العرش تک یالامکاں تک جانااخباراحادسے ثابت ہے،اس کامنکرسخت گناہ گارہے۔
(بہ حوالہ:شرح عقائدنسفی)

واقعہ معراج کی تاریخ
جمہور علماء اورمحققین کے نزدیک معراج النبی ﷺکا واقعہ ہجرت سے تقریباًایک سال پہلے ہوا ہے اور یہ عظیم الشان اور معجزاتی سفر27رجب المرجب 12نبوی اور پیر کے دن رات کے انتہائی قلیل حصہ(Zero Time) میں ہوا۔

سفرنامہ معراج النبیﷺ
حضورنبی کریمﷺکے اخص خصائص ،اشرف کمالات وفضائل اور روشن ترین معجزات وکرامات سے یہ امرثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضور سید عالمﷺکوفضیلت ِاسراء اورمعراج سے وہ خصوصیت،شرافت اورعظمت وفضیلت عطا فرمائی ہے، جس کے ساتھ اورکسی نبی اوررسول کو مشرف نہیں فرمایااورجہاں اپنے محبوبﷺکوپہنچایا،کسی اورکووہاں تک پہنچنے کاشرف نہیں بخشا۔

سفرمعراج کے حوالے سے قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْریٰ بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہُ ھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo ﴾
ترجمہ:’’وہ(ہرعیب ونقص سے)پاک ہے جوراتوں رات اپنے لے گیااپنے (خاص)

بندے کومسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک،جس کے آس پاس ہم نے بہت برکتیں نازل فرمائی ہیں تاکہ ہم (اپنے )اس( بندۂ خاص) کواپنی قدرت کی خاص نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی سننے والا،وہی دیکھنے والاہے‘‘۔
(سورۂ بنی اسرائیل:آیت نمبر1)

سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت مبارک جس میں حضورسیدعالمﷺکے عظیم معجزاتی سفریعنی’’سفر معراج‘‘کاذکربیان ہواہے۔اس آیت مبارک میں حضور سرورِ کائناتﷺکے سفرمعراج کاذکرہے ،یہ عظیم الشان سفررات کے انتہائی کم وقلیل (Zero Time) حصے میں ہوا۔کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے:
دیکھنے کے لیے سرکار کو معراج کی شب

اپنے محور سے نکل آئے تھے باہر لمحے
علماء کرام فرماتے ہیں کہ رات کے ایک قلیل لمحہ میں اتنی عظیم الشان سیرکر کے واپس آجاناعادتاًمحال وناممکن ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اس سفرکوبیان کرکے ظاہرفرمادیا کہ مخلوق کیلئے تویہ محال ہے ،اگرخالق کیلئے بھی یہ محال ہوتویہ خالق کیلئے نقص اورعیب ہوگااوریہ سفرکرانے والا خالق’’سبحان‘‘ہے، یعنی وہ ہرنقص وعیب اورہرکمزوری سے پاک ومنزہ ہے۔اس لئے بعض علماء کرام نے یہ فرمایاکہ اﷲ تعالیٰ اس آیت کے شروع میں لفظ ’’سبحان‘‘ذکرکر کے واقعہ معراج کوہرطرح سے ثابت فرمادیاہے۔

حضور نبی کریم ﷺکے اس سفرمعراج کواﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے لاریب ولافانی کلام قرآن مجیدمیں بیان فرمایاہے۔عام طورپرلکھے ہوئے سفرناموں میں سات چیزوں کا تذکرہ ضروری ہوتاہے یعنی
1)……سفرکس نے کیا؟ 2)……سفرکس نے کرایا؟
3)……سفرکہاں سے ہوا؟ 4)……سفرکہاں تک ہوا؟
5)……سفرکس وقت ہوا؟ 6)……سفرکتنی دیرمیں ہوا؟
7)……سفرکس لئے ہوا؟

اﷲ تعالیٰ نے اس آیت مبارک میں ان سب سات چیزوں کاانتہائی دلنشین کلام اورجامع اندازمیں ذکر فرمادیاہے۔
1) سفرکس نے کیا……فرمایاکہ:اُس کے عبدخاص(حضرت محمدمصطفیﷺ)نے
سفرکیا۔
2) سفرکس نے کرایا……فرمایاکہ:’’سبحان ‘‘(اﷲ سبحانہ وتعالیٰ) نے کرایا۔
3) سفرکہاں سے ہوا……فرمایاکہ:’’مسجدحرام‘‘ سے ہوا۔
4) سفرکہاں تک ہوا……فرمایاکہ:’’مسجداقصیٰ‘‘(بیت المقدس)تک ہوا۔
5) سفرکس وقت ہوا……فرمایاکہ: ’’رات‘‘ میں ہوا۔
6) سفرکتنی دیرمیں ہوا……ارشادہواکہ: ’’لیلاً یعنی رات کے انتہائی قلیل لمحہ میں ہوا۔
7) سفرکس لئے ہوا……ارشادفرمایاکہ:’’تاکہ قدرت ِ خداوندی کی خاص نشانیاں
دکھائی جائیں‘‘۔

سفرنامہ معراج النبی ﷺکی انفرادیت
علامہ غلام رسول سعیدی اپنی مایہ نازتصنیف’’شرح صحیح مسلم‘‘میں رقمطراز
ہیں: ’’عموماًیہ ہوتاہے کہ بڑی شخصیات سفرکرتی ہیں تواس کے ماتحت اس سفرکو بیان کرتے ہیں……کسی ملک کاصدریاوزیراعظم سفرکرتا ہے تواس کے وزراء اس سفرکو بیان کرتے ہیں……وزراء سفر کریں توان کے ساتھی یاصحافی اس سفرکوبیان کرتے ہیں جبکہ مالک سفرکرے تواس کے غلام اس سفرکوبیان کرتے ہیں اوریہاں طرفہ تماشایہ ہے کہ سفربندے نے کیااوربیان اس کا خالق و مالک کررہاہے۔اس سفرمیں آپﷺ کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھااگرصحابہ کرام میں سے کوئی آپ کے ساتھ ہوتاتووہ اس سفر کی تمام جزئیات کوبڑے کیف اوروجدسے بیان کرتا۔اس لئے اﷲ تعالیٰ نے چاہاکہ اس کے محبوب کے اس عظیم سفرکواﷲ تعالیٰ کے علاوہ اورکوئی بھی پوری طرح نہیں جانتا، اس لئے اﷲ تعالیٰ نے بڑی جامعیت کے ساتھ اس سفرمعراج کوقرآن مجیدمیں بیان فرمایا۔ اگریہ سوال کیاجائے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تواس سفرمعراج میں آپﷺکے ساتھ تھے تواس کاجواب یہ ہے کہ پورے سفرمیں تووہ بھی ساتھ نہیں تھے بلکہ سدرۃ المنتہیٰ پر یہ کہہ کرساتھ چھوڑگئے کہ اگرمیں اس مقام سے ایک بال کے برابر بھی آگے گیاتوجل کرخاکسترہوجاؤں گا‘‘۔(شرح صحیح مسلم)

لفظ عبدہٗ کے اسرارونکات اوراطلاق
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے فر ما یاکہ…… ’’سبحان (ہر عیب او رنقص سے پاک)ہے جو اپنے عبد خاص کو راتوں رات لے گیا ‘‘۔(القرآن)

ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ یہاں رسول کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ یوں کیوں نہیں فر مایا کہ ’’سبحان ہے وہ جو اپنے رسول کو لے گیا ؟اس کا ایک جواب یہ ہے کہ رسول وہ ہو تا ہے جو اﷲ تعالیٰ کے پاس سے بندوں کی طرف آئے اورعبد وہ ہوتاہے جو بندوں کی طرف سے اﷲ تعالیٰ کے پاس جائے اور یہ اﷲ تعالیٰ کے پاس سے آنے کا نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف جانے کا موقع تھا، اس لئے یہاں رسول کا ذکر نہیں بلکہ عبد کا ذکر کرنامناسب تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ’’عبد ‘‘ کااطلاق ’’روح مع الجسد‘‘ پر کیا جا تا ہے ۔ فقط ’’روح‘‘ پر عرب کی لغت اور محاورات میں ’’عبد‘‘ کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا سفر معراج کے ذکر میں’’ عبد‘‘ کا ذکر کر کے یہ بیان فر ما دیا کہ یہ معراج جسمانی تھی روحانی نہیں تھی یعنی حضور سید عالمﷺاپنے جسم وجان کے ساتھ معراج پر گئے تھے۔

علاوہ ازیں آپ ﷺ کو محض عبد نہیں فر ما یا بلکہ ’’عبدہٗ‘‘فر ما یا ہے ، یعنی اُس کاخاص بندہ ! عبدتو دنیا میں لاکھوں کروڑوں ہیں لیکن کامل عبد وہ ہے جس کا مالک خود کہے کہ یہ میرا بندہ ہے ، اﷲ تعالیٰ نے حضور سید عالم ﷺ کا جہاں بھی ذکر فر ما یا، اپنی طرف اضافت و نسبت کر کے فر ما یا ……مثلاًارشاد ِ خدا وندی ہے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابَ۔(سورۃ الکھف : آیت ا)
ترجمہ:’’اﷲ ہی کیلئے تعریفیں ہیں جس نے اپنے بندہ خاص پر کتاب نازل فر ما ئی ‘‘۔
اور جب اﷲ تعالیٰ نے اپنا ذکر فر ما تا ہے تو اپنی اضافت اور نسبت آپ ﷺ کی طرف فرما تا ہے ……مثلاً
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ۔ (سورۃ البقرہ : آیت ۳۰)
ترجمہ:’’(اور یا د کیجئے اے محبوب ﷺ )جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فر ما یا ‘‘۔
(وَاذْکُرْ رَّبَّکَ)’’اپنے رب کا ذکر بہ کثرت کیجئے ‘‘۔ (آل عمران : آیت ۴۱)
(فَلاَ وَرَبِّکَ)’’قسم ہے آپ کے رب کی ‘‘۔(النساء : آیت ۶۵)
اﷲ تعالیٰ نے اپنی نسبت آپﷺ کی طر ف اور آپ ﷺ کی نسبت اپنی طرف کر کے ظاہر فر ما دیا کہ اے پیار ے محبوب ! تم ہمارے ہو ا ور ہم تمہارے ہے ۔

گلدستۂ سفرمعراجِ مصطفی ﷺ
امام الانبیاء حبیب ِکبریاحضرت محمدمصطفیﷺکے عظیم الشان معجزاتی سفریعنی سفر معراج کوعلماءِ اسلام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:……مکہ مکرمہ سے حضورسید عالمﷺ کابیت المقدس تک رات کے ایک انتہائی قلیل حصے میں تشریف لے جانا آیت قرآنی سے ثابت ہے،اس کامنکرکافرہے․․․․ اورآسمانوں کی سیراورمنازلِ قرب میں پہنچنا مشہورومستنداحادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے،اس کامنکر فاسق اورگم راہ ہے․․․․ معراج شریف بیداری کی حالت میں جسم اقدس اورروح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی، یہی جمہوراہل ایمان اورعلماءِ اسلام کاعقیدہ ہے اوراصحابِ رسولﷺکی کثیرجماعت بھی اسی پرمتفق ہے اورآیاتِ قرآنیہ اوراحادیث نبویہﷺ سے بھی یہی مستفادہوتا ہے۔حضرت جبرائیل علیہ السلام کابراق لے کرحاضرہونا……حضورسیدعالمﷺ کو انتہائی اعزازواحترام کے ساتھ سوارکرنا……حضورﷺکاسینہ مبارک چاک کیا جانا …… بیت المقدس میں حضوراکرمﷺ کا انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت فرمانا …… جبرائیل علیہ السلام کاہرہرآسمان پردروازہ کھلوانا…… ہر ہرآسمان کے ملائکہ اور صاحب مقام انبیاءِ کرام علیہم السلام کا زیارت نبویﷺسے شرف یاب ہونااورحضور سرورِعالم ﷺکی تعظیم وتکریم بجالانا……تشریف آوری کی مبارک بادیں دینا……حضور ﷺکا ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیرفرمانا……آسمانوں پردربان ملائکہ سے حضرت جبرائیل کاسوال وجواب کرنا……وہاں کے عجائبات دیکھنا……اور تمام مقربین کی آخری منزل سدرۃ المنتہیٰ(جہاں سے آگے جانے کی کسی مقرب سے مقرب فرشتے کوبھی مجال نہیں ہے) کوپہنچنا……حضور سیدعالمﷺکوجبرائیل کادودھ پیش کرنااور جبرائیل امین کاوہاں پہنچ کرآگے جانے سے مجبوراً معذرت کرکے رہ جانا…… پھرمقامِ قربِ خاص میں آقا ﷺ کاترقیاں فرمانااوراس قربِ خاص ( جس کے تصورسے بھی مخلوق کے اوہام وافکار پروازسے عاجزوقاصرہیں) میں پہنچنااوروہاں دیدارِخداوند ِقدوس سے شرف یاب ہونا……امت کیلئے پچاس نمازوں کافرض ہونااور پھراس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کاکمی وتخفیف کرانااورصرف پانچ نمازوں کارہ جانا …… حضورﷺکا شفاعت فرمانا…… جنت ودوزخ کی سیرکرنااورپھراپنی جگہ واپس تشریف لے آنا…… معراج سے واپسی پر حضور اقدسﷺکااس عظیم الشان واقعہ کے اظہارو بیان میں تأمل کرنا……اورصبح کفارِمکہ کا تمسخر اُڑانااورتعجب وانکارکرنا……اوربعض ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کامرتد ہوجانا…… واقعہ معراج کی سب سے پہلے اوربغیرکسی تردّدوتوقف کے سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کے تصدیق کرنے پر ان کو بارگاہِ مصطفیﷺ سے’’صدیق‘‘ (نہایت سچے)کاعظیم لقب عطاہونا……اورآقا ﷺ کا اس واقعہ کی خبریں دینا…… کفارِمکہ کا اس واقعہ پرشورمچانااوربیت المقدس کی عمارت کی نشانیاں طلب کرنا ……اور ملکِ شام جانے والے قافلوں کی کیفیتیں حضور ﷺ سے دریافت کرنااورحضورﷺکا بعینہٖ وہ سب کچھ بتانا……اورقافلوں کے جو احوال آقاﷺ نے بتائے قافلوں کے آنے پران کی تصدیق ہونا․․․․․وغیرہ وغیرہ یہ تمام امور کتب حدیث کی مستندومعتبراحادیث سے ثابت ہیں اوربہ کثرت احادیث مبارکہ ان تمام امورکے بیان اورتفاصیل سے لبریزہیں۔
(ملخص تفسیرخزائن العرفان،مفسرعلامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی)

آسمانوں کی سیر اورانبیاءِ سابقین سے ملاقات ِنبویﷺ
جب حضورسیدعالمﷺمکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک پہنچے اورپھروہاں سے لامکاں کے سفرکی طرف توجہ فرماتے ہوئے پہلے آسمان پرپہنچے توحضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کادروازہ کھولنے کیلئے کہاتووہاں کے دربان نے پوچھاکہ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے کہامیں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھاگیاکہ:تمھارے ساتھ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے کہاکہ:جناب حضرت محمدﷺہیں! انھوں نے پوچھاکہ کیاوہ بلائے گئے ہیں؟حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بشارت سنائی توانھوں نے آپ کو مرحبااورخوش آمدیدکہااور پھر پہلے آسمان کادروازہ کھول دیاگیا……جب آپﷺ وہاں پہنچے تونبیٔ اوّل حضرت آدم علیہ السلام کوموجوداورمنتظرپایا۔حضرت جبرائیل نے حضرت آدم علیہ السلام کاآپﷺ سے تعارف کرایاکہ یہ آپ کے باپ حضرت آدم ہیں،ان کوسلام کریں۔آپﷺنے سلام کیاتوانہوں نے جواباًسلام کیااورکہا،اے صالح ابن صالح مرحبا……اسی طرح تمام آسمانوں پریہی معاملہ ہوتا رہایعنی دوسرے آسمان پرحضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام……تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام ……چوتھے آسمان پرحضرت ادریس علیہ السلام ……پانچویں آسمان پرحضرت ہارون علیہ السلام …… چھٹے آسمان پرحضرت موسیٰ علیہ السلام……اور ساتویں آسمان پرحضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی․․․․ اسی طرح حضورسرورِ عالمﷺمنازل طے کرتے، ہر آسمان کے ملائکہ اورصاحبِ مقام انبیاءِ کرام علیہم السلام کواپنے دولتِ دیدارسے شرف یاب فرماتے ہوئے اوران کی تحیت وتسلیم کی نذریں قبول کرتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ پررونق افروزہوئے۔سدرۃ المنتہیٰ پر آپ ﷺکے سامنے فرشتوں کا قبلہ بیت المعمور لایاگیا۔وہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺکودودھ،شہداورشراب کے تین جام پیش کئے توآپﷺنے ’’دودھ‘‘کاجام پسندکرکے قبول فرمایا……حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہاکہ :
’’بلاشبہ آپ نے (دودھ منتخب کرکے)دین ِفطرت کو اختیارفرمایاہے‘‘۔

نام محمدﷺکی عظمت وشان
علامہ غلام رسول صاحب سعیدی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف’’شرح صحیح مسلم‘‘ میں رقم طرازہیں کہ:
’’مسجداقصیٰ میں تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت فرمانے کے بعد حضورنبی کریمﷺآسمانوں پرتشریف گئے اوروہاں ہرآسمان پرصاحب مقام انبیاء سے ملاقات فرمائی۔ہرآسمان پرحضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایامگر دروازہ نہیں کھلااورحضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایاکہ ان کے ساتھ امام الانبیاء حضرت محمدﷺہیں توسب آسمانوں کے دروازے کھلتے گئے۔اس سے معلوم ہواکہ حضورنبی کریمﷺکوعزت واحترام کی جس عظیم اورمخصوص شاہ راہ سے لے جایاجارہا تھایہ صرف آپﷺکے ساتھ خاص تھا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جب اپنانام لیاتوکسی آسمان کا دروازہ نہیں کھلااورجب نام محمدﷺلیاتودروازہ کھل گیااوریہ واضح ہوگیاکہ ……عزت وعظمت کاکوئی دروازہ آپﷺکے نام کے بغیرنہیں کھلتا۔ اسلام میں داخل ہونے کادروازہ نام محمدسے کھلتاہے․․․․توبہ کی قبولیت ان ہی کے درپرآنے سے اوران ہی کانام لینے سے ہوتی ہے……قبرمیں اجالا اسی نام سے ہوتاہے…… شفاعت کادروازہ بھی صرف نام ِمحمدﷺسے کھلے گااورجنت کا دروازہ بھی اسی مبارک وعظیم نام سے کھلے گا‘‘۔(شرح صحیح مسلم،جلداول،ازعلامہ غلام رسول سعیدی)

تحفہ معراج ……نماز
رات کے ایک قلیل لمحہ میں اتنی عظیم الشان سیر کر کے و اپس لے آنا عا دتاً محال ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ ظاہر فر ما دیا کہ مخلوق کیلئے تو یہ محال ہے ، اگر خالق کے لئے بھی یہ محا ل ہو تو یہ خالق کے لئے نقص اور عیب ہو گا اور خالق ’’سبحان ‘‘ ہے یعنی وہ ہر نقص اور عیب سے پاک و منزہ ہے ۔ اس لئے بعض علماء کرام نے یہ کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت کے شروع میں لفظ ’’سبحان ‘‘ سے ہوئی ۔ سبحان اﷲ تعالیٰ کی صفت اور اس کا ذکر ہے،جبکہ اس مقدس سفر کے ذکر کے آخر میں فر ما یا ’’ انہ ھو السمیع البصیر ‘‘ یعنی بے شک وہ سمیع و بصیر ہے ۔ سمیع و بصیر بھی اﷲ تعالیٰ کی صفت اور اس کا ذکر ہے پس اس سفر معراج کی ابتداء بھی ذکر الٰہی سے ہوئی اور انتہا بھی اﷲ تعالیٰ کے ذکر پر ہوئی ۔ سفر معراج سے آپ ﷺ نماز کا تحفہ لے کر آئے وہ بھی اﷲ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔

مادی انسانوں نے ترقی کی اوران کی معراج یہ ہے کہ وہ ’’چاند‘‘ پر پہنچے وہاں جا کر معلوم ہو کہ چاند پر بھی مٹی ہے اور وہ مٹی کے ڈھیلے بہ طورِ سوغات وہاں سے ساتھ لائے تو یہ مٹی سے چلے اور مٹی تک پہنچے اورجوکچھ لے کر آئے وہ بھی مٹی ہے اور حضور اکرم ﷺاﷲ تعالیٰ کے ذکر سے چلے ، اﷲ تعالیٰ کے ذکر تک پہنچے اور جو تحفہ لے آئے وہ بھی اﷲ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔اس سے معلوم ہو ا کہ مادی معراج میں انسان مٹی سے آگے نہیں نکل سکا اور روحانی معراج میں انسان خدا تک پہنچتا ہے ۔
(شرح صحیح مسلم جلد1،صفحہ690،ازعلامہ غلام رسول سعیدی،مطبوعہ فریدبک سٹال لاہور)

حضور سید عالم ﷺ اﷲ پاک سے اپنی امت کے لئے نماز کا عظیم الشان تحفہ لے کر آئے اور فر ما یا کہ ’’ کہ تم اس طرح اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو گویا کہ تم اپنے رب کودیکھ رہے ہو اور معراج کا حاصل اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو نا اور اس کا دیدار ہے اور دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں، اس طرح آپ ﷺ نے امت کیلئے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ دن میں پانچ مر تبہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو اور اس طرح نماز پڑھے کہ حسنِ اُلوہیت کے جلوؤں میں ڈوب جائے ۔ گو یا کہ آپ ﷺ نے خود ایک مرتبہ معراج کی اوراپنی امت کے لئے دن میں پانچ مر تبہ معراج کا تحفہ لے کر آئے ۔

عارفین کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی معراج کی تین حالتیں ہیں ۔

پہلی حالت وہ ہے جب آپ ﷺ حطیم کعبہ سے مسجداقصیٰ گئے اورتمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فر مائی ۔ اس کی نمائندگی حالت قیام میں ہے…… دوسری حالت وہ ہے جب آپ ﷺ پہلے آسمان سے لے کر سدرۃ المنتہی تک پہنچے اس کا اظہار نماز میں حالت رکوع میں ہے…… تیسری حالت وہ ہے جب آپ ﷺ عرشِ عظیم سے ماوراء یعنی ’’ دنیٰ فتدلیٰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ ‘‘ تک پہنچے اور آپ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کا وہ قرب حاصل ہوا کہ جس سے بڑھ کر قرب کا تصور نہیں ہو سکتا ۔ اس کے قائم مقام نماز میں حالتِ سجدہ ہے، کیونکہ سجدہ میں بندہ کو اپنے رب کا وہ قرب حاصل ہو تا ہے کہ جس سے بڑھ کر قرب کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔
ستاروں میں دمک ہے ، چاندکی ضوبھی زیادہ ہے
شبِ معراج ہے، آقاﷺنے سب ہی کونوازاہے
Moulana Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 195486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.