بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کے احکامات)
قرآن مجید نے اسلام کے لیے’’دین‘‘کا لفظ استعمال کیاہے۔’’دین‘‘کے عام طور
پر چار مفاہیم مراد لیے جاتے ہیں،سیاست،معاشرت،معیشیت اور مذہب۔اسلام کا
قانون استیزان اس دین کے معاشرتی اسباق کا ایک باب ہے۔قرآن مجید نے اپنے
مدنی دور کی سورتوں اور آیات میں اسلام کے معاشرتی قوانین نازل فرمائے
ہیں۔مدینہ میں چونکہ اسلامی ریاست کی تاسیس ہوئی اس لیے متعدد معاشرتی
قوانین وہیں نازل ہوئے،جیسے ہی اسلامی معاشرے میں کوئی مسئلہ درپیش
ہوتااسکے حل کے لیے ذات نبویﷺ سے رجوع کیاجاتا،آپ ﷺ بعض اوقات خود سے فیصلہ
فرمادیتے اور بعض اوقات وحی الہی کا انتظار فرماتے اور یوں اس مسئلے کا حل
مسلمان معاشرے تک پہنچ کر تاقیامت اسلامی شریعت کا حصہ بن جاتا۔
اسلام کے قبل کے جاہلی معاشروں میں ،اسلام کے بعد کی جہالت میں اور آج بھی
مغربی سیکولر تہذیب میں بعض اوقات بغیر اجازت کے کسی کے گھرمیں داخل
ہوجایاجاتاہے،یا بغیراطلاع کے کسی کادروازہ کھول کر اس کے کمرے میں
درآیاجاتاہے یا صاحب خانہ کے نجی اوقات میں اس کے معمولات کے اندر مخل ہو
جایا جاتاہے یا کسی کے گھر کا دروازہ اس قدر پیٹاجاتاجاتا ہے کہ وہ شدید
ردعمل کے اظہار پر مجبور ہوجاتاہے یاپھرایسے اوقات میں ٹیلی فون کیاجاتاہے
جوملاقات کے لیے انتہائی غیرموزوں وقت ہوتاہے ۔یہ سب جاہلانہ رسوم و رواج
ہیں خواہ انہیں کوئی بھی نام دے دیاجائے اسلامی نظام زندگی نے انسانوں کو
انسان بنایا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر انبیاء علیھم السلام اس دنیامیں
تشریف نہ لاتے تو وحشت و بربریت اور درندگی و سفاکی کے باعث جنگل کا بادشاہ
انسان ہوتا،انبیاء نے انسان کو انسانیت کی تعلیم دی اور خاص طور پر آخری
نبی ﷺ نے تو انسانیت کے اخلاق کی تکمیل فرمادی اور انہوں نے انسانوں کو
انسانیت کا درس عظیم دیا،انسان کی قدرومنزلت میں اضافہ فرمایااور انسان کو
انسان کی پہچان عطا کی ،قانون استیزان بھی دراصل حق خلوت سے ماخوذاورشخصی و
ذاتی زندگی کے تحفظات سے مستعار ایک قانون ہے ۔
قرآن مجیدنے خواتین کے حقوق کا کس حد تک تحفظ کیا ہے اس کا اندازہ اس بات
سے کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کاقانون استیزان ایک عورت کی وجہ سے ہی نازل
ہوا،انصار مدینہ کی ایک خاتون محسن نسواں ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور
شکایتاََ عرض کی کہ اے اﷲ کے رسولﷺمیرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،میں
گھرمیں کبھی ایسے حال میں ہوتی ہوں کہ کسی مرد کا آنا مجھے ناگوار
گزرتاہے،لیکن ایسی حالت میں کبھی میراوالد اور کبھی میرے بھائی گھرمیں داخل
ہوجاتے ہیں تو میرے لیے کیاحکم ہے؟؟تب اﷲ تعالی نے یہ آیات نازل کیں جن میں
استیزان کاقانون مذکورہے۔قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے حکم دیا ہے کہ:
’’اے لوگوجوایمان لائے ہواپنے گھروں کے سوادوسرے گھروں میں داخل نہ ہواکرو
جب تک کہ گھروالوں سے اجازت نہ لے لواور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو،یہ
طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھوگے۔ہاں اگر وہاں
کسی کونہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے،اور اگر تم
سے کہاجائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جایا کرو ،یہ تمہارے لیے زیادہ
پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ تعالی اسے خوب جانتاہے۔البتہ
تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جوکسی
کے رہنے کی جگہ نہ ہوجن میں تمہارے فائدے یاکام کی کوئی چیز ہوتم جوکچھ
ظاہر کرت ہواور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اﷲ تعالی کو خبر ہے۔‘‘(سورہ
نورآیات26-29)
’’اے لوگوجوایمان لائے ہو لازم ہے کہ تمہارے لونڈی غلام اور تمہارے وہ بچے
جوابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ،تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس
آیاکریں۔صبح کی نمازسے پہلے،دوپہرکوجب کہ تم کپڑے اتارکررکھ دیتے ہواورعشاء
کی نماز کے بعد۔یہ تین اوقات تمہارے لیے پردے کے اوقات ہیں،ان کے علاوہ
اگروہ بغیراجازت کے تمہارے پاس آئیں تو کوئی گناہ نہیں تم پراورنہ ہی ان
پر۔تمہیں ایک دوسرے کے پاس باربارآناہی ہوتاہے،اس طرح اﷲ تعالی تمہارے لیے
اپنے ارشادات کی توضیع کرتاہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔اور جب تمہارے بچے عقل
کی حدکوپہنچ جائیں توچاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آئیں جس طرح ان کے بڑے
اجازت لیتے رہے ہیں اس طرح اﷲ تعالی اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتاہے اور
وہ علیم و حکیم ہے‘‘۔(سورۃ نورآیت58,59)
ایک بار محسن انسانیت ﷺ حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں تشریف لے گئے اور تین بار
بلند آواز سے سلام کیا،حضرت سعدبن عبادہ سلام کی آوازسن کر دل ہی دل میں
جواب دیتے رہے تیسری بار کے سلام کا کوئی جواب نہ آنے پر جب آپ ﷺ واپس چلنے
کو ہوئے تو حضرت سعد بن عبادہ تیزی سے آپ ﷺ کے پیچھے سے آن پہنچے ،آپ ﷺ نے
پوچھا میرے سلام کے جواب کیوں نہ دیے عرض کیا دل میں جواب دیتارہا اور
چاہتارہا کہ آپ ﷺ کی زبان سے سلامتی کی دعابارہا مجھ پر آتی رہے۔ایک شخص نے
آپ ﷺ سے پوچھا میری والدہ کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں تو کیا ہر مرتبہ ان
کے پاس جاتے ہوئے اجازت طلب کروں؟؟ توآپﷺ نے جواب ارشاد فرمایا کہ کیاتو
چاہتاہے کہ اپنی والدہ کو بغیر پردہ کے دیکھے؟؟۔ایک شخص نے دروازے کے سامنے
کھڑے ہو کر اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اسے تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ دروازے
سے ہٹ کر اجازت مانگوکیونکہ اجازت لینے کا مقصد یہی ہے کہ گھر میں نگاہ نہ
پڑے۔حضرت جابر ؓایک بار آپ ﷺ کے ہاں حاضری کے لیے تشریف لے گئے اور اندرآنے
کی اجازت چاہی،آپ ﷺ نے اندر سے پوچھا کون؟؟حضرت جابر نے عرض کی’’ میں‘‘آپ ﷺ
نے فرمایا’’میں میں‘‘کیا مطلب؟؟اپنانام یا کنیت بتاؤ۔ایک بار آپ ﷺ ایک
اونچی جگہ پر تشریف فرماتھے کہ کلدہ بن حنبل آپ ﷺ کے پاس پہنچ گئے،آپ ﷺ نے
اس کی تعلیم کی خاطر فرمایا کہ واپس جاؤ اور اور کہو السلام علیکم !کیامیں
آجاؤں؟؟،تب اس نے ایسا ہی کیا۔قبیلہ بنوعامر کا ایک فرد آپ ﷺ کے گھر حاضر
ہوااور سلام کہے بغیر پوچھنے لگا میں آجاؤں؟؟آپ ﷺ نے اپنی خادم کو بھیجا کہ
جاؤ اسے سمجھاؤ کہ پہلے سلام کہے اور اندر آنے کی اجازت طلب کرے ۔
حضرت فاطمۃ الزہرا خاتون جنت جب بھی آپ ﷺکے ہاں تشریف لاتی تھیں تو اگر چہ
وہ والد محترم کا گھر تھا لیکن پھر بھی اجازت کی طلب گار ہوتیں اور اجازت
ملنے پر اندر تشریف لاتیں۔ایک بار حضرت عمر ؓنے حضرت ابوموسی اشعری کو بلا
بھیجا،وہ آئے تین بار آواز دی اور اندر آنے کی اجازت چاہی،اجازت نہ ملنے پر
واپس ہو لیے۔اگلی ملاقات میں حضرت عمر نے پوچھا اے ابوموسی اشعری میں نے آپ
کو بلایاتھاااور آپ آئے ہی نہیں؟؟؟حضرت ابوموسی اشعری نے جواب دیا کہ میں
آیا تھا تین بار آواز دی سلام کیا تو کوئی جواب نہ ملنے پر واپس ہو لیا
کیونکہ میں آپﷺ سے یوں ہی سنا ہے۔ایک بار ام المومنین حضرت زینب بنت جحش جب
ملنے کے لیے ام المومنین حضرت عائشہ کے ہاں آئیں تو اجازت لے کر اندر داخل
ہوئیں۔ایک بار چار عورتیں ام المومنین حضرت عائشہ کے ہاں حاضر ہوئیں اور
سلام کیے بغیر اجازت مانگنے لگیں،آپ ؓنے فرمایا کہ تم میں سے جوشریعت کے
مطابق اجازت مانگنے کا طریقہ جانتی ہو وہ اسی طریقے سے اجازت مانگے،چنانچہ
ان میں سے ایک عورت نے پہلے سلام کیااور پھر اجازت مانگی تب انہیں اجازت دے
دی گئی۔حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓفرماتے ہیں کہ جب اپنی ماؤں اور بہنوں کے ہاں
جاؤ تو بھی پہلے اجازت چاہو،پھر انتظار کرو اور اجازت ملنے پر داخل
ہواکرو۔حضرت عطا بن ابی رباحؒ نے ایک بار حضرت عبداﷲ بن عباس ؓسے پوچھا کہ
میری تین یتیم بہنیں ہیں اور میں ہی ان کی کفالت کرتا ہوں تو کیا ان کے پاس
جانے کے لیے اجازت مانگاکروں ؟؟تو حضرت نے جواب دیا کہ کیاتم انہیں بغیر
پردے کے دیکھنا پسند کرو گے ؟؟ حضرت عطا بن ابی رباحؒنے جواب دیا کہ قطعاََ
نہیں تب حضرت عبداﷲ بن عباس ؓنے فرمایا کہ ان سے اجازت لے کر ہی ان کے ہاں
داخل ہواکرو۔حضرت طاؤس بن کیسان جو کبارتابعین میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ
ماؤں بہنوں کے ہاں بھی جاتے ہوئے اجازت لو کہ میں اس سے برااور کوئی کام
نہیں سمجھتاکہ گھرمیں بغیر اطلاع کے داخل ہوں اور میری نگاہ ان کے پردے کے
مقام پر پڑ جائے۔عطا بن ابی رباح ؒسے پوچھاگیا کہ کیا اپنی بیوی سے بھی
اجازت لی جائے تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں بیوی کے پاس جانے کے لیے اجازت
لینے کی ضرورت نہیں،لیکن حضرت عبداﷲ بن مسعودؓکی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں کہ
میرے خاوند جب بھی گھرمیں داخل ہوتے ہیں کسی نہ کسی طریقے سے مجھے مطلع کر
دیتے ہیں،کبھی کھنکارتے ہیں اور کبھی باہر بلند آواز سے کسی سے باتیں کرنے
لگتے ہیں جس کامقصد اپنی آمد کی اطلاع دینا ہوتاہے۔
|