اسلام کا قانون استیزان (حصہ دوم:احکامات و مسائل)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کے احکامات)

انسان معاشرت کے بغیر ادھوراسمجھاجاتاہے۔انسان اور جانور میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جانور کا بچہ ماں باپ اور خاندان کے بغیر پل بڑھ جاتاہے لیکن انسان کے بچے کے لیے معاشرتی رشتوں کے بغیر اپنی زندگی کو جاری رکھناقطعاََ بھی ممکن نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انسان اس حد تک معاشرت کا محتاج ہے کہ ایک دن کے لیے بھی انسان کابچہ تنہائی کی تاب نہیں لاسکتااور موت کے بے رحم ہاتھ ہمیشہ کے لیے اسے اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔معاشرتی رشتے انسان کی پہچان ہوتے ہیں اور معاشرتی تعلقات انسانی زندگی کا قیمتی اثاثہ و ناقابل فراموش سرمایاہوتے ہیں۔معاشرت کا دارومدار معاشرتی روایات پرہے۔استصحاب کے قانون کے تحت اسلام نے ہر مقامی رسم و رواج کو جائز قرار دیاہے اگر وہ شریعت کے مطابق ہے ،اوراگر اس مقامی رسم و رواج سے اﷲ تعالی کی قائم کی ہوئی کوئی حدٹوٹتی ہے یااسلامی عقائد سے ٹکراؤ پیداہوتاہے یا پھر ظلم و زیادتی اور حق تلفی کا امکان پیداہوتاہے تو پھر اس رسم و رواج کی کوئی گنجائش نہیں۔اس سب کے باوجود اسلام نے وحی کی بنیادپرکچھ اسلامی معاشرتی اقداروروایات کوانسانی معاشرے میں متعارف کروایاہے،نکاح،حجاب،سلام،مہمان نوازی اور استیزان ان میں کچھ ہیں۔ان سے کبھی کبھی تعلقات میں بھاری پن پیداہوجاتاہے لیکن ان کے دوررس اثرات بہت ثمرآور ہیں۔

اسلام نے مسلمانوں سمیت کل انسانوں کو یہ طریقہ سکھایا ہے کہ کسی کے ہاں جانے سے پہلے اس سے اجازت لینی چاہیے اور تب اس کے ہاں داخل ہواجائے۔اجازت لینے کا جو طریقہ معلم انسانیت ﷺ نے تعلیم فرمایا ہے اس کے مطابق پہلے اہل خانہ پر سلام کیا جائے اور ڈیوڑھی یا دورازہ کے باہر یا داخلے کاراستہ جہاں سے آواز کا اندر اہل خانہ تک پہنچنا ممکن ہووہاں سے بآوازبلند السلام علیکم کہاجائے،پھر اندر آنے کی اجازت مانگی جائے اور بہتر ہے کہ اپنا نام بھی ساتھ بتادیا جائے ،لیکن بعض اوقات تعلقات اتنے زیادہ قریبی ہوتے ہیں کہ سلام کی آواز سے ہی شخصیت کی پہچان ممکن ہوجاتی ہے تب نام بتانے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن اگر صاحب خانہ پوچھے کہ کون تو پھر ’’میں‘‘کہ کر اسے پریشان نہیں کرنا چاہیے اور اپنا معروف نام بتانا چاہیے۔اجازت لینے کے لیے دروازے کے سامنے نہیں کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح دروازہ کھلنے پر گھرکے اندر نگاہ پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے جس سے قطعی طور پرمنع کر دیاگیاہے۔

گھرمیں داخل ہونے کی اجازت لینے کے لیے ضروری ہے صرف تین بار ہی اجازت مانگی جائے ،اب دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اجازت مل جائے تو فبہادوسری صورت میں پھر دو امکانات ہیں ایک یہ کہ گھر میں شاید کوئی نہیں اس صورت میں واپس جانا مناسب ہے کیونکہ جب صاحب خانہ گھر میں ہی نہیں تو اس گھرمیں جانے کا کوئی جوازنہیں بنتااوردوسراامکان یہ ہے کہ صاحب خانہ گھر میں تو ہے لیکن اس وقت وہ کسی سے ملنا نہیں چاہتایا صرف اسی نووارد سے ہی نہیں ملنا چاہتا،اس صورت میں بھی شریعت کا حکم ہے بغیرکچھ محسوس کیے واپس چلے آؤکیونکہ اسلامی شریعت صاحب خانہ کو اسکی شخصی آزادی کے باعث یہ حق دیتی ہے وہ چاہے تو آنے والے سے ملے اور چاہے تو نہ ملے اوریہ بھی ممکن ہے کہ وہ ملنا تو چاہتاہو لیکن اس وقت کے مخصوص گھریلونجی حالات اسے اس امر کی اجازت نہ دیں۔اس اختیار کے باوجود مسلمانوں کا اخلاق اس قدر بلند ہے کہ آنے والے مہمان کو خدا کی رحمت سمجھاجاتاہے اور بزرگوں کو جب گھر میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی تھی تو وہ افسوس کرتے تھے کہ قرآن کی اس آیت پر کبھی عمل نہ ہو سکا کہ اجازت نہ ملنے پر بغیر کچھ محسوس کیے واپس چلے جایاکرو۔بہرحال تیسری دفعہ کے بعد چوتھی مرتبہ اجازت مانگنے کا حکم نہیں ہے اور واپس چلے آنے کی نصیحت کی گئی ہے۔اجازت دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل بالغ ہو،بچے کی اجازت کی کوئی شرعی حیثیت نہیں،اہل خانہ میں سے کوئی داخل ہونے کی اجازت دے یا پھر گھرکاکوئی ملازم یا خدمت گار اجازت دے تب اندر داخل ہو جانا چاہیے۔

قرآن مجید میں استیزان کے لیے جن مکانات کی تفصیل بیان کی ہے انہیں چاراقسام میں بآسانی تقسیم کیاجاسکتاہے۔پہلی قسم میں اپنے مکانات ہیں جن میں انسان خود رہتاہے،ان میں اجازت لینے کی ضرورت نہیں اس لیے جب وہ تالاکھول کر اندرداخل ہوگاتوکس سے اجازت طلب کرے گا؟؟۔ہاسٹل یا ہوٹل کے کمرے اس کی بہترین مثال ہیں۔دوسری قسم میں وہ مکانات شامل ہیں جن لوگ اجتماعی طورپرقیام پزیر ہوتے ہیں اور گھرمیں خواتین بچے اور بڑے بوڑھے سب ہی رہ رہے ہوتے ہیں اس صورتحال میں اجازت لینا ضروری ہے خواہ کتناہی قریبی رشتہ دارہو،اجازت نہ لینے پر وہ گناہ گارہوگا۔قرآن مجید کے مطابق تیسری قسم میں وہ گھرآتے ہیں جن میں کسی کے ہونے یا نہ ہونے کے دونوں احتمال پائے جاتے ہوں،اگروہ کسی اور کا مکان ہے تو اور اس میں کوئی نہیں یا اجازت مانگنے کا کوئی جواب نہیں آرہاتوایسی صورت میں لوٹ جانا چاہیے کیونکہ کسی کے مال میں تصرف جائز نہیں اور اپنا مکان ہے اور تین بار اجازت ملنے پر جواب نہیں آرہاتو احتیاط سے داخل ہوجانا چاہیے ۔چوتھی قسم اجتماعی استعمال کے مکانات کی ہے،جیسے مساجد، دکانیں، لائبریریاں،ہسپتال،بنک اور اجتماعی مفادات کے دیگرمقامات ،ان میں شرعی طور پر اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر مقامی ذمہ داران نے اجازت لینے کایاداخل ہونے کا کوئی طریقہ کاریاضابطہ مقررکر رکھاہو تو اس کوپوراکرنے میں کچھ مضائقہ نہیں اگر وہ شرعی حدودکے اندر ہو۔ہنگامی صورتحال کے نتیجے میں جیسے زلزلہ آگیاہویاآگ لگی ہویا کسی گھرکے اندر سے چینخنے چلانے اور مددمددکا شور آرہاہوتو پھر بغیراجازت کے داخل ہو کر اہل خانہ کی مددکرنی چاہیے اور انہیں کسی ناگہانی مصیبت سے نجات دلانی چاہیے۔

فی زمانہ اجازت لینے کے متعددطریقے ہیں۔ایک طریقہ برقی گھنٹی بجانا ہے ،اس صورت میں سلام کرنے یااپنا نام پکارنے کی ضرورت نہیں رہتی،تین دفعہ گھنٹی بجائی جائے اور اگر اہل خانہ میں سے کوئی نکل آئے توالسلام علیکم سے گفتگو شروع کردی جائے،اور اگر تین دفعہ گھنٹیاں بجانے پر کوئی نہیں نکلاتو چوتھی مرتبہ گھنٹی قطعاََبھی نہیں بجائی جائے اور بغیر کچھ محسوس کیے واپس چلاجایاجائے۔اگر میزبان سے پہلی ملاقات ہے تو اپنا مطبوعہ تعارفی کارڈپیش کر دینابھی اچھی روایت ہے۔سنت ہے کہ اطلاع دے کر کسی کے گھر جایاجائے۔ایجادات میں تنوع کے باعث کسی سے اس کے گھر گئے بغیر بھی ملاقات ہو سکتی ہے لیکن اس کے بھی کچھ آداب ہیں جو استیزان کے باب سے ہی ماخوذ ہیں۔جس کو فون کیاجائے توتین دفعہ تک وہ اٹھا لے تو ٹھیک چوتھے دفعہ نہ کیاجائے اور استیزان کے قانون کے مطابق سلام کرکے اپنا نام بتایاجائے،بغیرسلام کیے اور بغیرنام بتائے گفتگوشروع کر دینااور اگر اگلاپوچھے کہ جناب کاا سم شریف؟؟توناراض ہوجانا کہ اب ہمیں پہچانتے بھی نہیں ہوتو یہ بری عادت ہے۔اگر کسی کو فون پر کوئی تحریری پیغامیہ بھیجاہے تو اس میں بھی آخر میں اپنانام لکھنا ضروری ہے،ممکن ہے جسے یہ پیغامیہ بھیجاجارہاہے اسکے فون سے بھیجنے والے کانام مٹ چکاہواوراسے نمبر زبانی یاد نہ ہو تب کسی مہربان کے پیغامیے کے ملنے کی خوشی ایک ذہنی دباؤ میں بدل جاتی ہے کہ نہ معلوم اتنا اچھا پیغامیہ کس نے بھیجاہے؟؟خط کا آغاز بھی السلام علیکم سے کیاجائے اور اسی طرح اگر انٹر نیٹ سے کسی کو برقیاتی پیغامیہ ارسال کیا جائے تو اس کاآغاز بھی السلام علیکم سے کیاجائے اور آخر میں اپنانام اورمقام بھی ضرور لکھاجائے۔

قانون استیزان کے متعددمقاصداور اثرات و ثمرات ہیں لیکن ان میں سے سب سے اولین انسان کی انفرادی زندگی کا تحفظ ہے۔استیزان کے قانون سے زندگی کی رازداری باقی رہتی ہے اورایک فرد معاشرے کے بہت بڑے جم غفیر میں اپنی شخصیت کو محفوظ تصور کرتاہے،فکری تطہیرانسان کے ذہن میں جگہ پاتی ہے،ذہنی یکسوئی کے مواقع میسرآتے ہیں۔قانون استیزان معاشرے کے افراد کو تہذیب و شائستگی کا درس دیتاہے ذراتقابل ملاحظہ ہو کہ ایک معاشرت میں ہر کوئی منہ اٹھائے گھرمیں گھساچلاآرہاہے،گھروالے آرام کر رہے ہیں یاکھاناکھارہے ہیں یانجی گفتگومیں مشغول ہیں یا میاں بیوی تخلیہ میں ہیں یاگھرمیں بچوں کی تعلیم کا عمل جاری ہے اور اگلے دن ان کے امتحانات ہیں یاگھرمیں کہیں دور سے بڑے پیاروالے مہمان آئے بیٹھے ہیں یااہل خانہ عبادت میں مشغول ہیں یا مطالعہ و ریاضت کے پیش نظر ملاقات نہیں کرنا چاہتے اور فرض کریں یہ سب کچھ نہیں بھی ہے اور اہل خانہ کسی سے نہیں ملناچاہتے اور یہ ان کا شرعی حق ہے کہ وہ کسی سے ملیں یا کسی کسی سے نہ ملیں اور ان حالات میں ایک شخص دروازہ کھولے دھڑام دھڑام سے گھرمیں آن گھستاہے توان اہل خانہ پر کیا بیتے گی؟؟جبکہ ایک دوسری طرز کی معاشرت ہے جس میں اہل خانہ کسی سے نہیں ملناچاہتے اور دروازے پر گھنٹی بجتی ہے اور انہیں پتہ ہے کہ دو دفعہ اور بجے گی اور پھر آنے والا بغیر کچھ محسوس کیے واپس چلاجائے گااور اگلی ملاقات میں شکوہ بھی نہیں کرے گاتو ایسی معاشرت میں یقیناََرہنے والے ایک آسودگی اورراحت کاسامان اپنے یمین و یسار محسوس کریں گے۔درحقیقت رحمت اللعالمین ﷺ کالایاہواہی ہر قانون انسان کے لیے دنیاوآخرت کی کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 523372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.