ظالم حکمراں کا تسلط کیونکر ممکن :ایک لمحۂ فکریہ

افسوس! ہمیں یہ یا د ہی نہ رہا کہ ہمارا مقصد زیست کیا ہے ؟
آج بھی اگر ہم بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا شروع کردیں توپرور دگار ہم کوہماراکھویا ہوا وقار دوبارہ عطا فرمادے گا

یہ دین اسلام جس نے عا لم بشریت کی تقدیر بدل دی اس کی تبلیغ واشاعت ایک اہم ترین فریضہ ہے اگر اس ملت میں ایسے افراد نہ ہوں جو اس پیغام ِرحمت کو دنیا کے گو شے تک پہنچا نے کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیں تو یہ عالمگیر پیغامِ ہدایت چند ملکوں میں محدود ہوکر رہ جا ئے گا اور یہ پیغام سے بھی نا انصافی ہوگی اور ان قوموں پر بھی ظلم ہوگا جو گھپ اندھیروں میں بھٹک رہی ہے جن کی زندگی کی تاریک راتیں کسی روشن چراغ کے لئے ترس رہی ہیں۔ نیز وہ قوم اور ملک جس نے اس دین کو قبول کرلیا ہے اس کے آئینہ دل پر بھی غفلت کی گرد پڑسکتی ہے ان کی گرمیٔ عمل بھی سستی کا شکا ر ہو سکتی ہے اس کے لئے جس بڑی سے بڑی مالی قربانی، ایمانی فراست،قلبی بصیرت، روحانی تربیت کی ضرورت ہے وہ پوری ہونی چاہئے اگر ملت اپنے اس اہم ترین فریضہ کو ادا نہ کرے گی وہ اﷲ تعا لیٰ کی جناب میں اپنی اس کوتاہی کے لئے جوابدہ ہوگی۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘(پارہ ۴؍رکوع ۳ آیت)

صحابیٔ رسول حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا نیکی کا حکم دیتے رہنا اور برائی سے روکتے رہنا نہیں تو اﷲ تعالیٰ تم پر ایساحاکم مقرر کردیگا جو تمہارے بزرگوں کا احترام نہیں کریگا، تمہارے بچوں پر رحم نہیں کرے گا، تمہارے بڑے بلائیں گے لیکن ان کی بات نہیں مانی جائے گی وہ مددگار طلب کریں گے لیکن ان کی مدد نہیں کی جائے گی وہ بخشش طلب کریں مگر انہیں بخشا نہیں جائے گا۔ (مکاشفۃالقلوب ص: ۱۱۸)آج دنیا بھر کے مسلمان مصائب و آلام کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں ،کہیں جائدادواملاک تباہ ہورہی ہے تو کہیں مال و اولاد غرضیکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کہیں بھی اطمینان کی دولت حاصل نہیں ہورہی ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمیں یہ یا دہی نہ رہا کہ ہمارا مقصد زیست کیا ہے اورہم یہ فراموش کرچکے ہیں کہ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ؟ آج بھی اگر ہم بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا شروع کردیں توپرور دگار ہم کوہماراکھویا ہوا وقار دوبارہ عطا فرمادے گا اور پھر سے ہم اطمینان و سکون کی زندگی گزار نے لگیں گے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مرتبہ دولت کدہ پر تشریف لائے تو میں نے چہرۂ انور پر ایک خاص اثر دیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی اہم معاملہ پیش آیا ہے۔ حضور رحمۃٌ للعالمین سید المرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سے گفتگو نہ فرمائی اور وضو فرما کر مسجد میں تشریف لے گئے، میں حجرے کی دیوار سے سننے کے لئے کھڑی ہو گئی کہ کیاارشاد فرماتے ہیں ؟آقا ئے دو جہاں محبوب خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے اور حمد وثنا کے بعد ارشاد فرمایا: اے لوگو!رب ذو الجلال کا ارشاد ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو مباداوہ وقت آجائے کہ تم دعا مانگو اور قبول نہ ہو تم سوال کرو اور سوال پورا نہ کیا جائے، تم اپنے دشمنوں کے خلاف مدد چاہو اور تمہاری مدد نہ کی جائے، حضور شفیع المذنبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ کلمات مبارکہ ارشاد فر مانے کے بعد منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ (برکات شریعت)

آج ہم جن مصیبتوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں وہ ہم سب پر عیاں ہے ہم رورو کر دعائیں کر رہے ہیں لیکن ہماری دعا باب اجابت سے ٹکراتی نہیں۔ ہم نصرت الٰہی کا سوال کرتے ہیں لیکن اﷲ عزوجل کی طرف سے مدد نہیں ہوتی ،آخر ایسا کیوں ؟اس حدیث شریف میں تاجدار کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بیان فرمادی ہے کہ ہم حق باتوں کا حکم اوربری باتوں سے روکنے کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے ہیں تو اﷲ عزوجل ہماری دعا قبول نہیں فرماتا۔کاش! قوم مسلم کا ہر فرد اس ذمہ داری کو نبھانے لگ جائے تو مولیٰ کی رحمت کو پیار آجائے گا، اﷲ عزوجل ہم سب کی دعا ئیں قبول بھی فرمائے گا اور غیب سے ہماری مدد بھی فرمائے گا۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 718038 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More