آج کل ملک بھر کے مدارس میں ”ختم بخاری“کے تقاریب کا
سلسلہ جاری ہے ۔یہ پرنور محفلیں دراصل ہماری علمی تاریخ کی ایک تہذیبی
روایت کا حصہ ہے جو عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے ۔یہ حسین مجلسیں جہاں نوجوان
فضلائے کرام کے لے اعزاز کا باعث ہوتی ہیں وہاں ان کو یہ بھی فیصلے کی گھڑی
ہوتی ہے کہ اب عملی میدان میں کیا کرنا ہے ۔آج کی ان سطور میں اپنے نئے
فارغ التحصیل فضلائے کرام سے اس حوالے سے کچھ عرض کرنے کا ارادہ ہے۔
عصرِحاضر کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ نوجون فضلائے کرام اپنی ذمہ داریوں
کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کے لیے آج کے حالات کو سمجھیں۔ زمانے کے چیلنجز
کے ادراک کیساتھ یہ جاننابھی ضروری ہے کہ اس وقت تہذیبی،فکری،عملی ،علمی
اورتبلیغی میدان کے تقاضے کیا ہیں ؟موجودہ حالات کا ادراک اورفہم آج کی سب
سے بڑی ضرورت ہے اور پھر اس کے نتیجے میں علمی اور فکری سطح پر خود کو مسلح
کرنا آج کے دور کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔جس وقت یونانی فلسفہ کا عروج تھا اس
وقت امام غزالی نے میدان میں آکر پہلے اس کو پڑھا اور سمجھا اور پھر اس کا
رد کیا۔ آج کے فضلائے کرام کو پہلے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمارا واسطہ آج
کس کلچر،تہذیب اور کس قسم کے فکر و فلسفہ سے ہے اور اس کے مقابلے کے لیے
اسلامی فکر وفلسفہ اور تہذیب وکلچر کیا ہے ؟اور ہم قرآن وسنت کی روشنی میں
موجودہ دور کے فکر وفلسفہ کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں ؟“
آپ حضرات اللہ کے فضل وکرم سے درسِ نظامی پڑھ چکے اب آپ کو یہ سیکھنا ہے کہ
ان علوم کا ابلاغ کیسے ہو ؟ ان کے استعمال کے لیے کون سی زبان استعمال کی
جائے اور دنیا سے اپنا موقف منوانے کے لیے کن دلائل کی بنیا د پر بات کی
جائے؟
۔اس لیے آج یہ لازم ہے کہ ایک عالم کی نظرزمانے کے موجودہ حالات پر بھی ہو
اور اس کا رشتہ صفہ کی درسگاہ سے بھی جڑا ہو اہو۔اسے قرآن وسنت اور دینی
علوم پر بھی دستر س حاصل ہو اور اس کا ہاتھ قوم کی نبض اور زمانے کی رفتار
پر بھی ہو۔جس عالم کا رشتہ اپنے اصل اور ماضی سے کمزور ہو وہ بھی نامکمل ہے
اور جو موجودہ حالات سے واقف نہ ہو وہ بھی ادھورا ہے۔ اسی لیے بعض حضرات نے
ایسے مفتی حضرات کو فتویٰ دینے سے منع کیا ہے جو اپنے زمانے کے حالات کو نہ
جانتا ہو اور یہ مقولہ توبہت مشہور ہے” جو اپنے زمانے کے حالات کو نہ جانتا
ہو وہ جاہل ہے “اس لیے موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھنا ،موجود ہ دور کے
چینلنجز سے آگاہی حاصل کر کے ان سے نمٹنے کی تیاری اور اہتمام کرنا آج کے
دور کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
اس لئے نوجوان علماءکو پختہ علمی اسعداد کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں سے
بھی آگاہی رکھنا ازحد ضرری ہے ۔ |