"نادرا بی بی" کی کارستانیاں

صوبہ پنجاب میں ایک اندازے کے مطابق اس وقت ڈیڑھ کروڑ پختو ن صوبے کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں اور باقاعدہ صوبہ پنجاب کے مقامی شہری ہیں۔ جب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو شناختی کارڈ کے حصول کے سلسلے میں نادرا کی جانب سے رکاٗوٹوں کے معاملات ، مظاہرے ، دھرنے اور احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ سامنے آیا تو دوسری جانب پختون قوم کی سالوں سال سے اس بے چینی کو توثیق مل گئی ہے کہ نادرا کا عملہ متعصب، لسانیت اور جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقدار کو قومی شناختی کارڈ سے محروم رکھنے کی مکمل کوشش کرتا رہاہے۔جس کی وجہ سے پوری پختون قوم برادری میں شدید بے چینی پائی جاتی رہی ہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں کوئی نہیں رہاہے ۔نادرا قومی شناختی اُس کے حقداروں کو بغیر کسی تکلیف اور رشوت کے بغیر جاری نہیں کرتا ۔ضلع چکوال میں گیارہ ہزار پٹھان تقریبا 40سالوں سے آباد رہائش پذیر ہیں لیکن بد قستمی کہیں یا عصبیت کا رویہ ، کہ تمام قانونی دستاویزات پوری ہونے کے باوجود انھیں قومی شناختی کارڈ جاری نہیں کیا گیا ، جس کی وجہ سے ان بچوں کے" ب فارم "نہیں بن سکے اور ان لاکھوں پختون بچوں کو اسکولوں میں بھی داخلے سے محروم کردیا گیا ، جبکہ حکومتی اداروں کو اگر رشوت دی جائے تو 20ہزار روپے میں پاسپورٹ تک فوری بن جاتا ہے اور غریب پختون کئی سالوں تک نادرا اور پاسپورٹ آفس کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔

نادرا بی بی کا یہ معتصبانہ رویہ صرف ملک کے ایک صوبے میں نہیں ہے بلکہ پنجاب ، سندھ بالخصوص کراچی میں تو نادرا بی بی نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے،کبھی پختو ن کی شرعی داڑھی طالبان ہونے کے شکوک کے زمرے میں آجاتی ہے تو کبھی سرپر رکھے شملہ کو وجہ اعتراض بنا دیا جاتا ہے۔پاکستان کے قیام کیلئے صرف ایک طبقے نے ہی قربانی نہیں دی بلکہ پختون قوم نے بھی قیام پاکستان کے وقت بے پناہ قربانیاں دیکر تاریخ رقم کی ۔ سکندراعظم نے افغانستان کی فتح کے بعد کہا تھا کہ" پوری دینا کو فتح کرنے والا ایک سکندر اعظم ہے ، جبکہ افغانستان کے ہر گھر میں سکندر اعظم موجود ہے" ۔ یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے ک پٹھان ایک غیرت مند قوم ہے ، پہلے روس جیسی عالمی طاقت کو ناکوں چنے چبوائے اب امریکہ بھی ذلیل و خوار بن کر خطے سے رسوا ہوکر نکل رہا ہے ، بد قسمتی سے پاکستان میں پختونوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتا ہے ، اگر پختون اتنے ہی بُرے لگتے ہیں تو افغانستان اور انگریز حکومت کے درمیان ڈیورنڈ لائن پر سو سال مکمل ہونے کے معائدے کے بعد وعدے پر عمل در آمد کرتے ہوئے ، افغانستان کے وہ تمام علاقے جو غدار وطن امیر عبد الرحمن نے ڈیورنڈ لائن معائدے کے تحت انگریز حکومت کو دے دئیے تھے ، واپس افغانستان کو واپس کردیں، لیکن اب ایسا کوئی کرنا بھی چاہیے تو پاکستانی غیرت مند پختون اپنی جان پر کھیل جائیں گے اور پاکستان کی تقسیم کی ہر ساز ش کوناکام بنا دیں گے ۔

نادرا آفس میں خصوصی طور پر پختون قوم کے ساتھ انتہائی معتصبانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔لوگوں کو لمبی لمبی قطاریں لگانے پڑتی ہیں اور عملہ رشوت لیکر صرف ان ایجنٹ کے کام کرتے ہیں جو انھیں بھاری رشوت دیتے ہیں۔پشاور تک میں نادرا کا عملہ مختلف حیلوں بہانوں سے عوام کو کبھی حیات آباد ، کبھی پشاور اور کبھی اسلام آباد بھیج دیتا ہے۔پیدائشی سر ٹیفیکٹ ہونے کے باجود لوگوں سے اسٹام پیپر پر حلف نامے لکھوائے جاتے ہیں ، ان سے ان کے باپ کا ہی نہیں بلکہ دادا ، اور بیشتر نادرا کا عملہ پر دادا کا بھی شناختی کارڈ مانگتا ہے ، اگر رشوت دے دی جائے تو پھر وہ کسی کے باپ کی نہیں سنتا ، صرفـ" بابا ئے قوم" کی سنتا ہے۔ہری پور میں افغان مہاجریں کو اڑھائی لاکھ روپے رشوت کے عوض قومی شناختی اور پاسپورٹ بنانے کا اسکینڈل بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ریا اور وہ بھی منظر عام پر آچکا ہے ، بس مشکلات ان کیلئے ہیں جن کے پاس پیسہ اور سفارش نہیں ہے۔

پختون قوم کے ساتھ ہونے والی بے انصاف میں سب زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ پختون اپنے رواج کے مطابق زبانی نکاح پڑھائے کرتے ہیں، لیکن پختون قوم کی تضیحک کایہ عمل اتنا شرمناک ہے کہ بوڑھی ضیعف خواتین کو دوبارہ نکاح نامے کیلئے رجسٹرڈ نکاح خواں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔زبانی پختون رواج کی شادیوں کا مذاق اُڑانا تو نادرا کا ایک فیشن بن گیا ہے ۔نادرا کے سیکورٹی گارڈز بلا تخصیص مر و عورت کے ساتھ انتہائی بد تمیزی سے پیش آتا ہے ، اب چاہیے آپ ارجنٹ کارڈ کے ہزار روپے سرکاری طور پر کیوں ہی نہ جمع کرانا چاہتے ہوں ، لیکن اس کے لئے بھی گھنٹوں میں قطار می لگنا لازمی ہے۔کراچی میں تسلیم شدہ پچاس لاکھ سے زائد مقامی پختون آباد ہیں اور یہ وہ لاکھوں پختون سندھ کے مقامی پختون ہیں جن کا مرنا جینا ، رہنا سہنا سب کچھ کراچی و سندھ سے وابستہ ہے ،، یہ تعداد افغانیوں اورروزگار کیلئے آنے والے پختونوں سے ہٹ کر ہے لیکن نادرا کی جانب سے انھیں بھی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول کیلئے خیبر پختونخوا جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ، یا پھر ان سے1969ء سے قبل کے مکان کے کاغذات، راشن کارڈ اور بجلی کے بل سمیت ان کے پورے خاندان کے اصل شناختی کارڈ طلب کئے جاتے ہیں۔کرائیے کے مکان میں رہنے والے ہوں یا کچی آبادی کے رہائشی ، ان کے لئے تو شناختی کارڈ کا حصول جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔

پختون قوم سخت محنتی ہے اور بیرون ملک جا کر قیمتی کیثر زر مبادلہ پاکستان ارسال کرکے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیتی ہے ، لیکن جب سے9/11کا واقعہ ہوا ہے ، کسی پختون کے نام کے ساتھ لفظ"خان"کا جڑا ہوا اور یا پھر اس کے چہرے پر داڑھی کا ہونا ، سوہان روح بن جاتا ہے ، جبکہ کراچی جیسے شہر میں نادرا کے کئی دفاتر میں باقاعدہ نوٹس بورڈ پر لکھا جاتا رہا کہ فاٹا اور پاٹا کے عوام زحمت نہ کریں ، ایسا لگتا کہ جیسے پختون پاکستان کا حصہ ہی نہیں ہیں۔مقامی پختونوں کو محض اس لئے پریشان کیا جاتا کیونکہ ان کے آباء خیبر پختونخوا میں ہیں ، لیکن کراچی کی ترقی کیلئے جس طرح مہاجروں نے لکھنے پڑھنے کا کام سنبھالا ، اسی طرح مشقت اور ٹرانسپورٹ کی تما م ذمے داری پختونوں کے سر پر آگئی اور پختون قوم نے اپنی محنت سے ایک چھوٹی مائی کلاچی کو بین الاقوامی شہر میں تبدیل کردیا ۔ اب اگر علاقے ریگولرائز نہیں ہوئے تو یہ ان رشوت خور محکموں کے عملوں کا کام تھا جن کی ذمے داری تھی ، ورنہ کراچی کے تمام انڈسٹریل ایریا کی تما م پختون آبادیاں قیام پاکستان سے وہاں آباد لیکن آج تک انھیں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا اور کبھی بھی مربوط پلاننگ نہیں کی گئی بلکہ لسانیت اور قوم پرستی کی سیاست کرکے کراچی کو لہو لہو کرڈالا۔آج پختونوں کی تیسری نسل کراچی میں آباد ہے ، اور ایسے بھی ہیں جنھوں نے آج تک خیبر پختونخوا یا افغانستان نہیں دیکھا ، لیکن اس کے باوجود ان کا مینڈ یٹ کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا۔

سعودی عرب میں پاکستانی وزارت داخلہ ،میں کی نا اہلی کی وجہ سے25لاکھ کے قریب اوور سیز پاکستانیوں کو پاسپورٹ کی تجدید یا بنانے کی صورت میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ، جبکہ MRP(مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ ) بنانے کی سہولت صرف جدہ اور ریاض میں ہے سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک نے مدینہ منورہ میں نادرا کا ذیلی ونگ کھولنے کا اعلان کیا اور احکامات جاری کئے تھے لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اپنا وعدہ وفا نہ کرسکے ، سعودی عرب کا رقبہ پاکستان سے تین گنا بڑا ہے اور MRPکی سہولت صرف ریاض اور جدہ تک ہے ۔ جس سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی تکلیف کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

کمال کی بات یہ ہے کہ نادرا کو اپنے سسٹم پر اندھا اعتماد ہے ، نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی 21نے مارچ2013ء کو خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں تیس ہزار سے زائد افغان مہاجرین کے شناختی کارڈ بلاک کردئیے-

نارا کے ذرائع کے مطابق خیبر پختوخوا کے25اضلاع میں بیس ہزار اور قبائلی علاقہ جات میں پانچ ہزار شناختی کارڈز کو بلاک کیا گیا ، ذرائع کے مطابق نادرا نے غیر ملکیوں کے ملٹی بائیو میڑک لسٹ تیار کی ہے جس میں 25لاکھ سے زائد غیر ملکی افراد کا ریکارڈ موجود ہے جس میں ان کی تصویر اور فنگر پرنٹس بھی شامل ہیں ، اس کے باوجود خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں افغان مہاجرین نے جعل سازی کے ذریعے اثاثے جات اور گاڑیاں بھی خریدی ہیں۔پاکستان میں قانوں کی عملداری کی مثال کا اندازہ 30برس سے زائد زیر التوا اس مقدمے سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 30برس گذرنے کے باجود ہزاروں خواتین کے قومی شناختی کارڈ چوری کرنے کا فیصلہ نہیں سنایا جاسکا تھا۔مقدمہ30برس سے زیر سماعت ، موکلان جوانی میں عدالتوں میں آتے تھے اب بڑھاپے کی گود میں اتر چکے ہیں ، تفتیشی افسر بھی اس دنیا سے کوچ کرگیا ، ایک ملزم سکندر فالج کا شکار ہوکرہسپتال میں زیر علاج ہے ۔طویل عرصہ گذرنے کے باوجود استغاثہ موکلان کے خلاف کوئی شوائد پیش نہ کرسکا ، جبکہ ایف آئی اے کا دعوی تھا کہ اس نے ملزم غلام حیدر کے گھر پر چھاپہ مار کر ہزاروں کارڈ اور پاس پورٹ بر آمد کئے ، لیکن ایسے گرفتار کرنے کے بجائے انچارج اور جس کی نگرانی اور تحویل میں قوی شناختی کارڈ تھے ایسے ملزم بنایا گیا اور نہ ہی استغاثہ کا گواہ بنایا گیا ۔ اس مثال کے بعد ہمیں اپنے نظام کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 745095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.