آن لائن اور اوپن تعلیم
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی
اسلام آباد میں دوبرس قبل ہمارا لیکچر تھا، لیکچر سے فراغت پر سوال وجواب
کا سلسلہ بھی ہوا ، اس کے بعد ہم نے ادارے کے متعلق وہاں کے ذمہ داروں سے
اپنی معلومات کے لئے کچھ استفسارات کئے، تفصیلات سن کر بہت خوشی ہوئی ،تعداد
کے بارے میں ہم نے معلوم کیا، بتایاگیا کہ اس وقت جامعہ سے منسلک طلبہ دس
لاکھ کے لگ بھگ ہیں ،وہاں سے ہم ورچل یونیورسٹی کے آفس بلوایریا گئے ، پتہ
چلا بی اے کے امتحانات ہورہے ہیں ،70ہزار طلبہ امتحان میں شریک ہیں ،اولیول
اور اے لیول والوں کے پاس جاناہوا، 26لاکھ طلبہ زیر تعلیم تھے ،ہمارے یہاں
اگلے دنوں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت سالانہ امتحانات ہورہے
ہیں،ملحقہ مدارس وجامعات کی تعداد 18 ہزار کے قریب ہے ، ان میں تعلیم کے
زیور سے آراستہ وپیراستہ ہونے والے طلبہ کی کل تعدادتقریبا 20 لاکھ ہے ،
امتحان میں شرکت کرنے والوں کی تعداد امسال 2لاکھ 60 ہزار کے آس پاس ہے ۔
اب آپ خودہی اندازہ لگائیے کہ ہماری تعداد مذکورہ بالا اداروں میں سے کسی
کے مقابلے میں کتنی ہے ،دیگر سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز ان کے علاوہ ہیں
،ہمارے دینی مدارس وجامعات کے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے ،انفراسٹرکچر اور
بلڈنگز کے لحاظ سے تو شاید ہمارا کوئی مقابلہ نہ کرسکے ، لیکن طلبہ کی
تعداد ،ان کی صلاحیت ،اپٹوڈیٹنگ اور فیسلٹیز کے اعتبار سے ہم سب کو سوچنا
ہوگا، نئے پیکجز اور جدید ترین سہولیات کو اپنا کر ہماری کارکردگی میں کئی
گنااضافہ ممکن ہے ۔
چنانچہ ہمارے دینی اداروں کے منتظمین اگر اپنے یہاں تھنک ٹینکنگ،شورائیت
اور کنسلٹنسی کو صحیح معنوں میں بروئے کار لائیں ، اور تعلیمی رجحان پر
توجہ دیں ،توسستے میں ہمارا کام اور نیٹ ورک بہت وسیع اور مفید ترہوسکتاہے
۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ایک ہی ادارہ ہے ،جہاں لاکھوں بلکہ ہمارے
ہزاروں اداروں کے نصف کے برابر کام ہورہاہے ،توپھرہم کہاں کھڑے ہیں ،نیز یہ
کہ صرف علامہ اقبال اوپن ہی کو کیوں مدنظر رکھاجائے ،اب تو OIC ،عرب لیگ
اور جی سی سی نے بھی اسطرح کی جامعات کی بنیا دیں رکھ دی ہیں، مشرق ومغرب
اورشمال وجنوب میں دنیابھر کے ممالک نے اپنی یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں
میں آن لائن اور اوپن نظام تعلیم کو برسوں سے متعارف کرایاہے۔
تسلیم ہے کہ ہم ان کی طرح ترقی یافتہ نہیں لیکن ’’مالا یُدرک کلُّہ ،لایُترک
کلُّہ‘‘ ،کہ پورا ہاتھ نہیں آرہا ، تو جتنا ممکن ہے وہ توہم حاصل کریں ،یہ
ہمارا نصب العین ہو۔آج ہمارے ملک میں 3Gاور 4Gٹیکنالوجی بھی آگئی ہے ،جس
کوآن لائن تعلیم وتربیت کے لئے بھی آسانی سے استعمال کیاجاسکتاہے ،کیا اچھا
ہوگاکہ ہمارے علمائے کرام اس طرف فوری توجہ دیں اور نئی نسل کو انٹرنیٹ خاص
کرموبائل نیٹ کے خرافات وواہیات سے بچانے کیلئے ان کے سامنے ان کے ہاتھوں
میں اسلام کی اعلی اقدار،قرآن وحدیث کی معتدل ، ہمہ جہت صاف صاف تعلیمات ،تاریخ
،جغرافیا،اور جدید تقاضوں کے مطابق عصری علوم وفنون تھمادیں ، ہرچیز کو
منفی نقطۂ نظر اور فتنہ وفساد کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ، اس میں مثبت
اور نافع پہلوؤں کو تلاش کیاجائے ،یوں پوری انسانیت کو امن ، سلامتی ،
خوشحالی، اور پیار ومحبت کے احسانات تلے لاکر مرہونِ منت کیاجاسکتاہے ،
جامعہ طیبہ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ،نیز جامعۃ الازھر ،جامعہ ام
القری ، جامعۃ الامام اور امریکہ ویورپ کی سینکڑوں یونیورسٹیاں آج آن لائن
ہیں ، داخلہ امتحانات اور تعلیم سب ایک کلک پر ہیں ۔
ہمارے یہاں بدامنی بھی ہے ،فقر وغربت بھی ،آمد ورفت کے اخراجات ،دار
الاقاموں ، ہوسٹلز ،علاج معالجہ ،تعمیرات،قیام وطعام کے مصارف اتنے خطیر
ہوتے ہیں کہ مدارس انتظامیہ سال بھر اس کیلئے پریشان ہوتی ہیں ،چندے ،
تبرعات ، صدقات وخیرات اور فنڈ جمع کرتے ہیں، ایسے میں ان کی تمام تر
توانائیاں اس میں کھپ جاتی ہیں ،طلبہ کی تعلیم وتربیت ،ان پر نظر، توجہ اور
کماحقہ نگاہ میں کمی رہ جاتی ہے، لیکن اگریہ مدارس اپنے نظام تعلیم کونیٹ
اور ڈاک سسٹم سے مربوط کریں ،تو 90فیصد اخراجات کے بوجھ سے انہیں چھٹکارامل
جائے گا، یہ توہوا ان کا فائدہ ،طلبہ وطالبات کا فائدہ یہ ہوگا کہ انہیں
اپنے ہی گھرمیں ایک آسان،سہل،ایزی،پرامن اورسستے طریقے سے تعلیم کے مواقع
دستیاب ہوجائینگے۔
ایک بات ملحوظِ خاطر رہے،کہ ان معروضات وگزارشات کو مثبت انداز میں
لیاجائے،توبات بنیگی،لیکن اگر قیل وقال اور جیسے ہمارے یہاں کی ذہنیت ہے کہ
فوراََہمارے ذہن کے پردوں پر اعتراضات ہی اعتراضات، اشکالات ہی اشکالات
نمودار ہوجاتے ہیں،تو پھر ’’ملا آں باشد کہ چپ نہ شود‘‘۔ہاں،تلاش کے عمل کو
اپنایاجائے،ذرہ باہر نکل کر حالات کا ادراک کیاجائے،انفارمیشن کی محیر
العقول دنیا میں جاکر بنظرِخود معاینہ کیاجائے،اپنے نا رسا اور بے جا
توہمات وابہامات کاخودہی حل ڈھونڈا جائے،امت اور انسانیت کی خیر،فلاح
اوربہبود کو مقدم رکھاجائے،تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس طریقِ تعلیم سے دینی
علوم وفنون اور اسلامی تعلیمات کے فروغ اور نشر اشاعت کے حوالے سے ایک عظیم
انقلاب آجائیگا۔
آج کے زمانے میں جو اثر پذیری کسی ایک فعال اخبار،چینل یا میڈیا ہاؤس میں
ہے،وہ چھوٹے چھوٹے اور محدود سینکڑوں ہزاروں اداروں کی تاثیر سے کہیں بڑھکر
ہے،مگر یہ حقائق اہلِ حقائق ہی سمجھیں گے،ہمارے پاس اس حوالے سے جو بھی اﷲ
تعالی کا عطا کردہ تجربہ ہے ،اس کے بتانے میں ہم ہرگز بخل نہیں
کرینگے،البتہ میدان اور فیلڈ میں ماہرین کی کوئی کمی نہیں،ہر طرف ایکسپرٹ
موجود ہیں،کورس کی ترتیب ماہرینِ تعلیم کا کام ہے،ڈیزائننگ اور ویب پیجنگ
کے لئے ٹیکنیکل حضرات کی خدمات لی جاسکتی ہیں،دو اڑھائی ماہ کی ان تعطیلات
میں دینی تعلیم کے رفقائے کار انفرادی اور اجتماعی طورپر آن لائن اور اوپن
نظامِ تعلیم کو سمجھنے ،تنفیذ،تشہیر اورترتیب کے لئے اگر پلاننگ کریں، تو
کوئی وجہ نہیں کہ اگلے ہی سال سے عملی طورپر سبقت کرنے والے اس کے روحِ
رواں ہوں گے،پھر قدرے سست احباب بھی ان کی دیکھا دیکھی میں اس نظام پر
آجائینگے،اقبال مرحوم نے کیا ہی خوب کہا ہے:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کے موجوں میں اضطراب نہیں |
|