بیان حدیث اور سیرت نگاری کا جو قدیم اسلوب سید
مودودی(رح) سے پہلے رائج تھا اس سلوب کے اندروعظ ونصیحت کا عمومی رنگ تھا۔
اس میں عقیدت کی خوشبو تو موجود تھی مگر عملی تحریک کا فقدان تھا۔ جبکہ
دنیا کے حالات اس تیزی سے بدل رہے تھے کہ اس قدیم اسلوب کا تبدیل ہونا
لازمی ہو گیا تھا۔ اور اب اس میدان میں متکلمانہ اندازِ بیان اور محققانہ
تنقید کا لانا ضروری تھا۔ مذہب سے دوری نے مستشرقین کے حوصلے اس حد تک بڑھا
دیے تھے کہ وہ ذاتِ نبوی پر نہایت رکیک حملے کرنے لگے تھے۔ جدیدیت اور
مغربیت سے مغلوب مسلمانوں کے اذہان اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ وہ ان حملوں
کو پسپا نہ کرنے کی بجائے معذرت خواہانہ انداز اپنانے پر مجبور ہونے لگے
تھے۔ جس کے نتیجے میں ایک گروہ منکرین ِ حدیث کا پیدا ہو گیا۔ اس سنگین
صورتِ حال میں مدافعت ِ حدیث کا اہم کام سید مودودی(رح)نے سرانجام
دیا۔فتنۂ انکارِ حدیث کی تاریخ اگرچہ خاصی پرانی ہے لیکن برصغیر میں اس کے
آغاز کی وجہ دراصل مغربیت اور جدیدیت سے متاثر ہونا تھی۔ پہلے پہل سر سید
احمد خان نے حدیث کے بارے میں معذرت خواہانہ انداز اپنایا۔ اس کے بعد غلام
احمد پرویز اور ان کے مقلدین نے کھلم کھلا احکامِ دین کے ضمن میں قرآن پاک
کے ساتھ سنت کی حجیت سے منکر ہو گئے۔
اس کے بعد منکرین ِ حدیث کی جانب سے حدیث کے مختلف موضوعات کے ضمن میں ایسی
ایسی موشگافیاں کی جانے لگیں جن کارد فنونِ حدیث پر مکمل عبور رکھنے والا
کوئی صاحب علم ہی کر سکتا تھا۔ سید مودودی(رح) نے جن منکرین حدیث کے گروہوں
کے خلاف قلم اٹھایا وہ درج ذیل ہیں۔
٭فتنۂ فرنگ ٭فتنۂ لادینیت ٭فتنۂ قادیانیت ٭ فتنۂ انکارِ حدیث ٭علمی
جمود اور تقلیدِ محض
ہم صرف ان میں سے دو کا مختصر جائزہ لیتے ہیں!
فتنۂ فرنگ اور سید مودودی(رح)
فتنۂ فرنگ نے مسلمانوں کو دین سے دور کر کے اس حال پر پہنچا دیا تھا کہ
احادیث کی قبولیت میں وہ طرح طرح کے بہانے تراشنے لگے تھے اور احادیث کی
مختلف تاویلیں کی جانے لگی تھی۔ دوسری طرف سیرت رسول اکرم (ص)کے ضمن میں
مستشرقین طرح طرح کی موشگافیاں کرنے لگے تھے ۔ان حالات میں سید مودودی(رح)
نے اپنی پوری توجہ نا صرف اشاعتِ دین کی طرف لگا دی بلکہ آپ نے اپنی زندگی
دین اسلام کے دفاع کے لیے وقف کرنے کا تہیہ کر رکھاتھا تو زیادہ بہتر ہو
گا۔
فتنۂ انکارِ حدیث اور سید مودودی(رح)
یہ سید مودودی(رح) کے زمانے کا ایک نہایت گھمبیر مسئلہ ہے اور آج تک
موجودہے ۔ غلام احمد پرویز اور ان کے حواریوں نے حدیث اور اس کی تشریعی
حیثیت کا انکار کیا۔
سید صاحب نے اس فتنے کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا۔ آپ کی تصنیف ’’سنت کی
آئینی حیثیت ‘‘ اس فتنے کے دفاع کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی
بھی منکرِ حدیث کے ذہن میں اٹھنے والے کسی بھی شک و شبہ کا ازالہ کرنے کے
لیے سید مودودی(رح) کی یہ تصنیف کافی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ آپ نے بیان حدیث
کے ضمن میں ضعف انسانی یا بشری کمزوریوں کو یکسر تسلیم کرتے ہوئے کبھی اس
خیال کی تائید نہیں کی کہ ہر شخص کو ہر کتاب میں جو روایت قال رسول اللہ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہوا ،اس کو آنکھیں بند کر کے رسول اللہ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مان لیا جائے۔
تخریج حدیث میں سید مودودی(رح) کا مسلک
سید مودودی(رح) نے اپنے ضخیم تحریری سرمائے میں جو جو احادیث نقل کی ہیں ان
کو یکجا کر کے ایک کتاب ’’تفہیم الاحادیث‘‘ کے نام سے مرتب شکل میں موجود
ہے۔
اس عظیم الشان کتاب کے مطالعے سے سید مودودی(رح) کے مسلک تخریج احادیث سے
آگاہی ہوتی ہے۔ جس کے مطابق آپ کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ آپ اپنی تحریروں
میں صرف صحیح احادیث ہی بطورِ حجت پیش کریں لیکن ہم یہ دعوٰی تو نہیں کر
سکتے کہ آپ نے ہمیشہ وہی احادیث بطورِ حجت پیش کیں جو صحیح کے درجہ پر
پہنچتی ہوں البتہ یہ ضرور دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے تمام لٹریچر میں
کہیں کوئی ایک بھی موضوع یا ضعیف حدیث جگہ نہ پا سکی ۔
سید مودودی(رح) کے حدیث پر کیے گئے کام کی درج ذیل نمایاں خصوصیات ہیں:
٭یہ ایک بلند پایہ علمی شاہکار ہے۔
٭یہ حدیث کے حوالے سے اسلامی معاشرے میں موجود مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔
٭یہ حدیث نبوی (ص)کے زندہ اور متحرک انقلابی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔
٭یہ متکلمانہ اسلوب رکھتا ہے اور اس میں حدیث نبوی (ص)پر کیے گئے کسی بھی
حملے کا خاطر خواہ جو اب دینے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔
گویا عصری مسائل کے حل کے لیے حدیث کے مضامین کے عقلی‘ کلامی ‘ فطری اور
انقلابی پہلوئوں کو اجاگر کرنے والے سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ الرحمۃ کی
شخصیت ایسی عبقری شخصیت ہے جس نے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا رُخ بدل
ڈالا ۔ لہٰذا حدیث پر آپ کے کام پر تحقیق اور اس سے استفادہ عصری مسائل کے
حل کے لیے مفید ہے۔ |