تبلیغ کے لیے عالم کی ڈگری ہونا ضروری نہیں

مسائل اس لیے پیداہوئے ہیں کہ ہم نے تعلیم یافتہ کے بجائے محض ڈگری یافتہ کواہلِ علم سمجھ لیاہے

ڈگریاں اوراسنادبذاتِ خودعلم نہیں ہوتیں،علم کاٹائٹل یااظہاریہ ہوتی ہیں۔انسان کے پاس اگر لیاقت نہیں ہے توان ڈگریوں کی اہمیت محض ایک کاغذ کے خوب صورت ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔یہ ایک طرح سے Theoriticalچیزیں ہوتی ہیں اوراس کا عملی پہلوسے کوئی واسطہ نہیں ہوتایہی وجہ ہے آج کوئی بھی کمپنی کسی کو ملازمت دیتی ہے تو امیدوارسے سب سے پہلاسوال اس کے تجربے اور مشاہدے کاکرتی ہے۔اگرامیدوارکو تجربہ نہیں ہوتاتوپہلے مقررہ میعادتک اس کوتربیتی عمل سے گزاراجاتاہے اس کے بعد ہی اسے ملازمت کااہل قرار دیا جاتا ہے ۔ اس سے معلوم ہواکہ ڈگری یافتہ اور تعلیم یافتہ میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ عملی زندگی میں ڈگری کہیں کام نہیں آتی ۔ انسان ہمیشہ اپنے علم و فکراورتجربے و مشاہدے کی عینک لگاکرآگے بڑھتا ہے ۔ شخصیت سازی میں ڈگریاں جزوی کردارہی ادا کرتی ہیں۔اگرڈگری ہی کوکامیابی کاپیمانہ سمجھ لیاجائے اوراس کے مطابق فیصلے کیے جانے لگیں تومعاشرتی ادارے کوٹوٹ پھوٹ سے کوئی نہیں بچاسکتا۔

تعلیم اورڈگری میں فرق نہ کرنے کاہی شاخسانہ ہے کہ آج عوام الناس تک دین کاپیغام پہنچانے والے عام مبلغین اپنے ہی لوگوں کے درمیان ’’مشکوک‘‘قراردے دیے گئے ہیں۔ گاؤں گاؤں ،قریہ قریہ گھوم پھر کر نیز مساجدواجتماعات میں عام لوگوں کی اصلاح کرنے والے ان مبلغین کی باتیں سننے کے بجائے ان سے عالم ہونے کی سند دریافت کی جارہی ہے ۔دماغوں میں یہ غلط تصوربیٹھ گیا کہ کسی دارالعلوم کا فارغ التحصیل ہی تبلیغ کرنے کا مجاز ہے،اس کے بغیرکوئی آدمی تبلیغ نہیں کرسکتا۔اگربات صرف روک ٹوک پرختم ہوجاتی تب بھی صبر آجاتا لیکن یہاں توایسے ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ مبلغین کو مساجدسے باہرنکالا گیا،ان کے اجتماعات کا بائیکاٹ کیا گیا، ذلیل و رسوا کیا گیا ، مشقِ ستم تک بنایا گیااورآج بھی عوام الناس میں انہیں مشتبہ بنایا جارہا ہے۔ان کاجرم بس اتناہے کہ ان کے پاس عالم ہونے کی سند نہیں ہے اوروہ تبلیغ کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔اس صورت حال سے عوام الناس کشمکش میں ہیں کہ محلے کے امام صاحب یااپنے علاقے کے مولانا صاحب کاساتھ دیں جوان کی مخالفت پرآمادہ ہیں یا مبلغین کی حمایت کریں جوکم پڑھے لکھے عوام کودین سے قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس پورے تناظر کو سامنے رکھ کراس حقیقت کوقبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہو نا چاہیے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت ابھی تک تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ کے درمیان فرق کرنے کی اہل نہیں ہوسکی ہے ۔ یہاں ایک بہت بڑاسوال یہ ہے کہ آخریہ غلط فہمی پیدا کیسے ہوئی ؟

اعلیٰ حضرت امام احمدرضاقادری بریلوی قدس سرہ العزیزنے اپنے ملفوظات میں فرمایاہے کہ غیرعالم کووعظ کہناحرام ہے ۔اعلیٰ حضرت کے اس جملے کوبعض لوگ سمجھ ہی نہیں سکے اورعام مبلغین کے خلاف اسے سب سے مضبوط ہتھیارکے طورپراستعمال کرناشروع کر دیا۔ امام احمدرضا کا قول اپنی جگہ بالکل برحق ہے ،اس پرکوئی نکتہ بھی نہیں رکھ سکتا مگراس کی تشریح میں بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔وعظ کامعنی نصیحت کے ہیں اور یہا ں یہ لفظ عام اورلغوی معنی میں نہیں ہے۔ اگر اسے عام معنی میں لے لیا جائے تب توتبلیغ کابالکلیہ دروازہ ہی بند ہو جائے گااوریہ بالکل غیر معقول بات ہوگی جس کااعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے تصوربھی نہیں کیا جا سکتاکیوں کہ دین کی بنیادی باتیں نماز ، روزہ ،حج ،زکوٰۃ ، اصلاحی اُمور کے متعلق اسلامی احکامات مثلاً جھوٹ، چغلی ، غیبت ، بدکاری ، زنا کاری، بدعہدی،دجل وفریب ، ناانصافی اور پاکی و ناپاکی جیسے ہزارو ں مسائل کی تبلیغ تو ایک عام مبلغ اورایک مسلمان پربھی ضروری ہے اسی لیے علم دین کاحصول ہرمسلمان مردوعورت کے لیے فرض قراردیاگیاہے تاکہ وہ صحیح مسلمان بنے رہیں اوراپنے ماحول کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہیں۔ہاں یہ وعظ استدلالی اور استنباطی نہیں ہوگاکہ عام مبلغ اور عام مسلمان صحیح واصح،ناسخ و منسوخ اور راجح ومرجوح میں تمیز کرنے کااہل نہیں ہے۔امام احمد رضا کے اس قول میں اسی بات کی طرح اشارہ ہے کہ غیرعالم کوایساوعظ کہنا جائزنہیں ہے جواستدلالی اوراستنباطی ہو۔ اگروہ ایساکرتاہے تووہ حرام کام کامرتکب ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ ایک عام مبلغ کسی آیت اور حدیث کا مطلب کچھ کاکچھ بیان کردے ۔اس کے مقابل اہلِ علم بالغ نظر ہوتا ہے ،قرآن و سنت کے احکامات پراس کی گہری نظر ہوتی ہے ،وہ کسی بھی حکم کے پس منظراورپیش منظرسے بھی اچھی طرح آشنا ہوتاہے۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتاہے کہ کون سی بات کس وقت بیان کرنی چاہیے اوراس سے سامعین پرکیااثرپڑ سکتاہے جب کہ ایک عام مبلغ ان حکمتوں سے واقف نہیں ہوتا اس لیے اس کی دعوتی ذمے داری صرف یہ ہے کہ علماکی کتابوں میں اس نے جوکچھ پڑھا ہے اسے بیان کردے، چاہے تودیکھ کر بتائے یا بغیر دیکھے ۔لیکن بتائے وہی جو اس میں لکھا ہو ، اپنی طرف سے حذف و اضافہ ہرگزنہ کرے ۔آیت و حدیث سے کوئی حکم مستنبط کرنے کااسے کوئی حق نہیں ، یہ حق صرف علمااوراہلِ علم کے لیے محفوظ ہے۔بس یہی حدہے ایک عالم اورغیرعالم کے عملِ تبلیغ کی ۔ غیر عالم اس حدسے آگے نہیں جاسکتا۔یہی فرق ہے ایک عالم اورایک عام مبلغ میں لیکن نفسِ تبلیغ میں دونوں برابرہیں ۔حدیث مبارک کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ (صحیح البخاری:باب قول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ، جزء : ۲ ، ص:۷۹)کے تحت دونوں سے ان کی شخصیت،اہلیت اورذمے داریوں کے اعتبار سے قیامت کے دن بازپرس کی جائے گی۔

امام احمدرضاکے اس قول کابعض لوگوں نے بے حدغلط استعمال کیااوراسے دلیل کے طورپراستعمال کرکے بے چارے ان مبلغین کو احساسِ کمتری میں مبتلاکرنے کی کوشش کی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہلِ سنت کی اسلامی تحریکوں کے عام مبلغین مساجد اور اجتماعات وغیرہ میں جو دروس دیتے ہیں وہ کتابیں پڑھ کرہی دیتے ہیں یابراہِ راست کتابیں سنا دیتے ہیں اور اپنے طور پر عوامی انداز میں اس کامطلب بیان کر دیتے ہیں۔ ان عا م مبلغین میں کچھ کی علمی سطح تھوڑی بلندہوتی ہے تووہ چھوٹی موٹی تقریربھی کرنے لگتے ہیں مگریہ تقریریں استدلالی اور استنبا طی نوعیت کی نہیں ہوتیں۔ان مبلغین کی کوششوں کے بہت سارے فائدے ہوئے اورہورہے ہیں، انصاف پسند معاندبھی جن کا کبھی انکارنہیں کرسکے گا۔ان سب کے باوجودان بے چاروں سے عالم کی سندکامطالبہ کرنا عقل مندوں کاشیوہ کیسے ہوسکتا ہے ؟

شایدہم بھول چکے ہیں کہ ہم مسلمان،امتِ اجابت ہیں جب کہ غیرمسلم امتِ دعو ت۔تبلیغ ودعوت ہمارادینی منصب ہے اورہم اسے فراموش کیے بیٹھے ہیں۔جس کے ذہن ودماغ سے یہ تصورہی مٹ چکا ہو اس سے اس کے سوااورامیدبھی کیاکی جاسکتی ہے کہ وہ احیاے دین کے علم برداروں کے خلاف مخالفتوں کاطوفان کھڑاکردے اوراس کو سب سے بڑادینی کام سمجھ لے۔

خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پرحضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطاب میں فرمایاتھا :فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الغَائِبَ(صحیح البخاری:باب قول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم،جزء: ۹، ص:۵۰)یعنی جویہاں موجودہے وہ حاضرنہ ہونے والوں کومیراپیغام پہنچادے۔ اس موقع پر تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزارصحابۂ کرام شریک تھے ۔ا س واقعے میں آپ خودغورکیجیے ۔براہِ راست طورپرسبھی حاضرین کودین کی تبلیغ کرنے کاحکم دیاجارہاہے ۔کسی عام وخاص کی کوئی تخصیص نہیں ۔مجھے بتائیے کہ کیاان صحابۂ کرام میں سبھی عالم وفاضل تھے، کیا سبھی صحابۂ کرام کے ذہنوں میں دین کی باتیں راسخ ہوچکی تھیں اورکیاان میں مکہ ومدینہ کے مضافاتی علاقوں کے بدومسلمان نہیں تھے؟ ان میں نہ جانے کتنے ایسے تھے جو ابھی تازہ تازہ مسلمان ہوئے تھے مگراس کے باوجودحضورصلی اﷲ علیہ وسلم کاحکم سب کے لیے عام تھا۔اس موقع پر جب حضورصلی اﷲ علیہ وسلم اپنی زبان فیض ترجمان سے یہ مبارک الفاظ ارشاد فرمارہے ہوں گے توان کے ذہن میں یہ بات یقیناہوگی کہ اس وقت موجودسارے سامعین یکساں ذہن ومزاج کے نہیں ہیں،جس کا جتناظرف ہے اسی کے مطابق وہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچائے گا۔

ایک حدیث شریف ہے :بَلِّغُوْاعَنِّیْ وَلَوْاآےَۃ (صحیح البخاری:باب ماذکرعن بنی اسرائیل،جزء:۴،ص:۱۷۰) یعنی میری باتوں کی تبلیغ کرواگرچہ ایک آیت ہی کے برابرہو۔حدیث میں کسی کی تخصیص یاتقیےدنہیں ہے۔اس کی تعمیم بتا رہی ہے کہ اہلِ علم اور عام مسلمان یامبلغ سب کواپنے اپنے طورپردینی دعوت کی ذمے داریاں پوری کرنی ہیں۔

بات ڈگری والوں کی ہی چل نکلی ہے تویہ بھی سنتے چلیں کہ جو حضرات بڑی بڑی ڈگری رکھتے ہیں کیاوہ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور کیا انہیں صحیح معنوں میں دین کاادراک ہے؟۔راقم الحروف ایسے درجنوں ڈگری یافتاؤں کوجانتاہے جن کے مارکس قابلِ رشک ہیں،وہ ہمیشہ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے ہیں ،ان کادورتعلیمی ان کے جونیئریو ں کواحساس کمتری میں مبتلاکردیاکرتاتھا مگرآج ان کے ڈرائنگ روم ڈگریوں سے سجے ہوئے ہیں۔وہ اپنی عملی زندگی میں کامیاب نہیں ہیں ، کیو ں ؟ان کے اندرکی دنیاخارجی احوال سے مزاحم ہونے کی اہل ہی نہیں۔عملی زندگی نے انہیں بالکل ناکارہ ثابت کردیاہے ۔ان کی صلاحیتیں صرف کاغذی صلاحیتیں ثابت ہورہی ہیں ۔

دراصل دینی کام کرنے کی تحریک خدائی توفیق سے ملتی ہے، مارک شیٹ میں درج نمبروں سے نہیں ۔اس لیے عام مبلغین جوعوام الناس میں دین کی تبلیغ کے لیے کمربستہ ہیں ان سے عالم کی سند او ر ڈگری کا مطالبہ کرنے والوں سے میراسوال یہ ہے کہ آپ کوان مبلغین کے خلاف بولنے سے پہلے مساجدکے ان ائمہ کی اصلاح کرنی چاہیے جو بالکل غیر تربیت یافتہ ہیں اورجن کی صلاحیتیں امامت وخطابت جیسے عالی منصب سے فروں تر ہیں۔ ان کے سلسلے میں آپ کوحال تویہ ہے کہ آپ(عموماً) اندھے بہرے گونگے بن کر بغیر تحقیق وتفتیش امامت کے لیے ان کی تقرری کرلیتے ہیں حالاں کہ اپنے دین کاایک اہم اوربنیادی حصہ انہی کے ذریعے پوراکرتے ہیں۔ان میں سے کتنے امامت کے لیے صحیح حق دارہیں؟یقین کریں کہ آج ائمہ ٔ مساجد کی تربیت کی جس قدرشدید ضرورت ہے وہ اہلِ شعورسے مخفی نہیں۔ سنی تحریکیں جب عام مبلغ کوتبلیغ کے میدان میں اتارتی ہیں توسب سے پہلے تحریک کے بڑے ان کی تربیت کرتے ہیں ،ان کو تبلیغ کے گرسکھاتے ہیں اس کے بعدہی انہیں تبلیغ کرنے کی اجاز ت ہوتی ہے، اس کے برخلاف ائمہ کی تربیت بالکل نہیں ہوتی ۔آپ ان غیر تربیت یافتہ اماموں سے سرٹی فیکیٹ کیوں نہیں طلب کرتے، بس چہرے پرداڑھی ،بدن پراسلامی لباس اورسرپرٹوپی سے ہی آپ ان کی قابلیت کا اندازہ لگالیتے ہیں؟ کیاآپ کے پاس صلاحیت ناپنے کایہی پیمانہ ہے؟
حیرت ہے، جب آپ جلسے کرتے ہیں ،پیشہ ورمقررین اور خطبا کو دعوتِ خطابت دیتے ہیں ،ان میں سے کتنے ہیں جن سے تبلیغ کے تقاضے پورے ہوتے ہیں؟ ۔یہ توآپ کے پسندیدہ اورڈگری یافتہ ہوتے ہیں مگر عوام الناس کوان سے کتنا فائدہ حاصل ہوتاہے ؟ یاد رکھنا چاہیے کہ تبلیغ مروجہ تقریروخطابت کے ہم معنی نہیں ہے۔جب کہ ہم نے تبلیغ وتقریرکوایک سمجھ لیاہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک کوئی اسٹیج پر دھواں داراورولولہ انگیزتقریرنہ کرلے وہ عالم ہی نہیں ۔تبلیغ در اصل دین کاپیغام پہنچانے کانام ہے اور اس کی سب سے بہترین شکل یہی ہے جس کویہ عام مبلغین اپنائے ہوئے ہیں۔اب خودفیصلہ کریں کہ دھواں داراورشعلہ بارتقریروں کا اثرزیادہ ہوتاہے یاسنجیدہ اورتفہیمی اندازمیں اسلام کی باتیں بتانے والے ان عام مبلغین کا۔دراصل تبلیغ ایک Full Time Jobہے یہ کوئی جزوقتی کام نہیں کہ آدھاایک گھنٹہ تقریرکی اورفرصت،چاہے تقریرکے اثرات مرتب ہوں کہ نہ ہوں۔ہمیں پیشہ ورمقررین میں یہی دیکھنے کوملتاہے ۔یہ اسٹیج پر کچھ نظر آتے ہیں اوراسٹیج سے نیچے کچھ اور۔ان کی باتوں اورکاموں میں مناسبت نظرہی نہیں آتی ۔اس کے برخلاف آپ ایک عام مبلغ کو دیکھیں ،یہ تبلیغ کوکل وقتی کام سمجھتے ہیں ۔عوام سے برابررابطے میں رہتے ہیں کہ میری باتوں کانتیجہ نکلا یا نہیں۔خوشی وغم میں ہروقت ان کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ اس کی بھی پروا نہیں کرتے کہ میری تبلیغ میں کتنے لوگ شریک ہو رہے ہیں ،سامعین اگرایک یادو بھی ہوتب بھی وہ اسی جذبے اوراسی سرشاری کے ساتھ اپناکام جاری رکھتے ہیں۔جب کہ اکثرڈگری والوں کامطمح نظریہ ہوتاہے کہ میری تقریرجمی کہ نہیں ،پنڈال سامعین سے بھراہے یانہیں،اگرسامعین کم ہوں توپھرانہیں مزہ نہیں آتا، اگر مجبوری میں تقریرکرنابھی پڑے تووہ جذبہ نہیں ہوتاجوکھچاکچھ بھرے سامعین کے درمیان دیکھنے کوملتاہے ۔ آپ ان مبلغین کی تبلیغی جدوجہداورپیشہ ورمقررین کی تقریروں کے نتائج نکال کردیکھ لیں ،معلوم ہوجائے گاکہ کامیاب کون ہیں ،محض ڈگری والے ،ڈگری رکھنے کادعوی کرنے والے یابغیرڈگری کے پڑھے لکھے ۔

ان حالات کے تناظرمیں کہاجاسکتاہے کہ اب مذہبی معاشرے کومحض ڈگری یافتہ نہیں تعلیم یافتہ افرادکی ضرورت ہے ،ایسے تعلیم یافتہ جودینی امورپراچھی نگاہ رکھتے ہوں اورحسن وقبح میں تمیزکے اہل بھی ہوں۔ عالم ہونے کی ڈگری یا دارالعلوم سے فراغت کی سندبساطِ تبلیغ پر کامیابی کی ضمانت ہرگزنہیں ۔ خالی ڈگری کی عدم وقعت کی بناپرہی اب دانشورانہ حلقوں سے بھی یہ آوازیں آنے لگی ہیں کہ طلبہ کومحض ڈگری ہولڈرنہ بنایاجائے بلکہ انہیں عملی انسان بننے کے گرسکھائے جائیں بصورتِ دیگرانہیں ڈگری جاری نہ کی جائے ۔ کیوں کہ بغیر تربیت کے ڈگریاں کاغذکے چندٹکڑے ہوتے ہیں جو معاشرے میں کسی کوصحیح مقام دلاسکتے ہیں اور نہ دووقت کی روٹی کاانتظام کراسکتے ہیں ۔

آپ کوبہت سارے لوگ ایسے مل جائیں گے جنہوں نے باقاعدہ کسی دارالعلوم میں نہیں پڑھا،ان کے پاس کسی دارالعلوم کی سند بھی نہیں لیکن علمی اعتبارسے وہ آج کے بہت سارے علماکہلائے جانے والوں پر فائق ہیں اورعملی میدان میں بھی ان سے بہت آگے ،جس کایہ ڈگری والے محض تصورہی کرسکتے ہیں۔ہمیں شکراداکرناچاہیے ان مبلغین کا جو دین کی تبلیغ کے لیے عوام الناس تک خودہی پہنچ جاتے ہیں گویاکنواں خود پیاسے کے پاس آکرانہیں سیراب کرجاتاہے ۔

تبلیغِ دین کے لیے ڈگری کی شرط قرین انصاف بھی نہیں معلوم ہوتی کیوں کہ تبلیغ محض دعوتی کام نہیں،ایک بے کراں جذبے کانام ہے ،اسلامی روایت اوراس کے احیا کی تبلیغ کاجذبہ ۔اگرمسلمان کے دل میں اپنے دین کے لیے تھوڑاسابھی دردہے تووہ معاشرے کے مفاسد پربندباندھنے کے لیے ہروقت پابہ رکاب رہتاہے ۔گویامبلغ کے لیے ڈگری کی شرط لگانا ہماری فہمِ ناقص میں انسان کے فطر ی جذبے کو قتل کردینے کے متراد ف ہے۔ مبلغ کے پاس اگرعالم کی سندہے تب توسونے پرسہاگا۔اگر نہیں ہے تو دین کی تبلیغ کے لیے کسی ڈگری والے کاانتظارنہیں کیاجائے گا۔

تبلیغ ودعوت کافریضہ انجام دینے والے عام مبلغین سے سرٹی فیکیٹ طلب کرنے والوں کو یہ حدیث ضرورپڑھنی چاہیے:
نَضَّرَ اللَّہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثًا، فَحَفِظَہُ حَتَّی یُبَلِّغَہُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلَی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیہٍ(سنن ابوداؤد:باب فضل نشرالعلم،جزء:۳،ص:۳۲۲)
(ترجمہ:اﷲ تعالیٰ اس شخص کوسرسبزوشاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اوراسے یادکیاپھراسے (دوسروں تک)پہنچایا۔کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ یہ بات پہنچانے والا(داعی)جسے پہنچاتاہے (یعنی مدعو) وہ پہنچانے والے (داعی)سے زیادہ سمجھنے والاہوتاہے اور یہ بھی ہوتاہے کہ پہنچانے والا(داعی) سمجھنے کااہل ہی نہ ہو۔)

اس حدیث مبارک سے کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ (۱)نَضَّرَ اللَّہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثًا،اس پہلے ٹکڑے میں اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دین کی تبلیغ کرنے والوں کے لیے دعافرمائی ہے۔(۲) فَحَفِظَہُ حَتَّی یُبَلِّغَہُ،یہ دوسراجملہ بتارہاہے کہ پہلے دین کی بات اچھی طرح یادکرلے ،اسے سمجھ لے اس کے بعدہی اسے لوگوں تک پہنچائے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ مفہوم کچھ کاکچھ ہوجائے جواسلامی منشاکے خلاف ہو۔(۳)تیسراٹکڑافَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلَی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ واضح طوپریہ اعلان کررہاہے کہ ممکن ہے داعی کم علم ہولیکن مدعواس سے زیادہ جاننے والاہو۔اس سے ثابت ہواکہ ایک عام سامسلمان بھی دوسروں تک دین کاپیغام پہنچاسکتاہے۔(۴) وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیہٍ یہ ٹکڑااس بات کاامکان ظاہرکررہاہے کہ ہوسکتاہے کہ لوگوں تک دین کی دعوت عام کرنے والااہلِ علم نہ ہو، فَقِیہ نہ ہویعنی وہ دینی تعلیمات کی حکمتوں کی گہرائیوں سے بے خبرہو۔یہاں عام لوگوں کے اس عذرکی نفی ہے کہ وہ اہلِ علم نہیں تودین کی تعلیمات کیسے پہنچائیں بلکہ جوکچھ انہوں نے سمجھاہووہ معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنے اپنے طورپرکوشش کرتے رہیں۔(۵)دین کی باتیں سن کریاجان کر اپنے ہی تک محدودنہ رکھے بلکہ جہاں تک ممکن ہودوسروں تک اس کی ترسیل کرے ۔(۶)حدیث کامزاج بتارہاہے کہ عام مبلغ یاعام مسلمان نہ صرف یہ کہ دین کاپیغام پہنچانے کامجاز ہے بلکہ اس کے لیے اسے نَضَّرَ اللَّہُ امْرَأً کے ذریعے ترغیب وتشویق بھی دی گئی ہے۔

اب آپ بتائیے کہ کیااب بھی ایک عام مسلمان کی یہ ذمے داری نہیں کہ دین کاپیغام لوگوں تک پہنچاتارہے؟کیاساری ذمے داری علماہی کی ہے؟اگرایسانہیں ہے توپھرمبلغین کودعوت کاکام کرنے سے روکنے کاکیامطلب ہے؟کیاروٹ ٹوک کرنا حضورکی دعاسے محروم کرنے اورنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی عدم اطاعت پرمجبورکردینے کے مترادف نہیں؟ہمیں ان پہلوؤں پرضرورغورکرنا ہو گا ۔

حاصل یہ ہے کہ ہمیں تعلیم یافتہ اورڈگری یافتہ میں فرق کرنا ہوگا ۔ ہمیں یہ بھی طے کرناہوگاکہ ہم اپنے بچوں اورماتحتوں کوڈگری دلانے سے زیادہ انہیں تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کریں اوریقین کرلیں محض ڈگریوں کی بنیادپرقابلیت ولیاقت تسلیم کرلینادلیلِ کم نظری کے سوا کچھ نہیں۔
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 171468 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More