مسئلہ ِ شام ۔۔۔۔ کب حل ہوگا؟؟

شام میں پچھلے تین سالوں سے جاری خانہ جنگی پر امت ِ مسلمہ کے ہر دردمند آدمی کو تشویش ہے ۔ مارچ 2011 ء سے شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک قریبا ََ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد آدمی ہلاک ہو چکے ہیں ۔یہاں کی حالت ِ زار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت یہاں اوسطاََ ایک ہفتے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں ۔ ایک اور اندازے کے مطابق قریبا ََ 5000 افراد روزانہ کی بنیاد پر یہاں سے ہجر ت کر رہے ہیں ۔ 2012 ء میں شام کی آبادی 2 کروڑ 25 لاکھ 30 ہزار 746 نفوس پر مشتمل تھی ۔ جب کہ اس وقت یہاں کی آبادی قریباََ 2 کروڑ 87 ہزار ہے ۔

شام کے حالیہ بحران اور خانہ جنگی کی وجوہات کیا ہیں ؟ اس سوال کا جواب حسن عبد اللہ النوری کی درج ذیل باتوں سے بہ آسانی اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ حسن عبد اللہ النوری شام کے 3 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے امید وار ہیں ۔

" حالیہ دنوں میں ملک بد ترین خانہ جنگی کا شکار ہے اور اس میں زیادہ قصور حکومت کا ہے ، کیوں کہ شروع میں شامی عوام حکومت کی معاشی پالیسیوں خاص طور پر مہنگائی اور روز مرہ کی اشیا کی عدم دست یابی کے مسائل کی وجہ سے حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے اور مظاہرے کیے ، جسے حکومت نے انتہائی بے دردی سے روکنے کی کوشش کی ، جس کے نتیجے میں عوامی غیض و غضب کا لاوا ابل پڑا ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایک ایسا ملک، جہاں 40 سال سے ایمر جنسی نافذ ہو اور حکومت کی اجازت کے بغیر پانچ افراد کہیں اکٹھے نہ ہوسکتے ہوں اور اس پر مستزاد یہ کہ مہنگائی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہوتو حکومت کے خلاف عوام کا یہ رد ِ عمل فطری تھا ، جسے انتہائی بے ڈھنگے انداز سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی اور آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔

" ان کا مزید کہنا ہے کہ ملک میں احساس ِ محرومی کی ایک بڑی وجہ دولت کا ارتکاز بھی ہے ، جو صرف 100 خاندانوں تک محدود ہے اور ان میں غالب اکثریت حکم ران طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ کہ حکم ران علوی فرقہ ملک میں ایک چھوٹی مذہبی اقلیت ہے ، جو مک کے تمام وسائل پر قابض ہے ۔ یہ بات بھی وہاں کی اکثریت کو اشتعال میں لانے کا ایک بڑا سبب ہے ۔"(روز نامہ " جہان پاکستان "، 23 مئی 2014ء )

عرب ممالک ، بہ شمول امریکا اور اقوام متحدہ کی مخالفت کے باوجود بشار الاسد اپنی پوزیشن پر قائم ہیں ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا ، اقوام متحدہ اور عرب ممالک بشار الاسد کی پالیسیوں کے زبردست مخالف ہیں ۔ یہ سب حتی الامکان اس کوشش میں سر گرم ِ عمل ہیں کہ کسی نہ کسی صورت میں بشار الاسد اپنے عہدے سے دست بردار ہو جائیں ، تاکہ شام کی خانہ جنگی رک جائے ، لیکن ان سب کی کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں ، کیوں کہ بشارالاسد کو ایران ، حزب اللہ کے ساتھ ساتھ روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں بھی سپورٹ فراہم کر رہی ہیں ۔ ایران کا اس ضمن میں موقف ہے کہ بشا ر کی حکومت اسرئیل کے لیے ایک بند کی حیثیت رکھتی ہے ، اس لیے یہ ضروری ہے کہ بشار کو سپورٹ کیا جائے ۔ پھر روس اور چین ان پانچ ممالک میں شام ہیں ، جنھیں ویٹو کا حق حاصل ہے ۔ بشار کے خلاف اور شام کے عوام کے حق میں جو بھی قرار داد اقوام ِ متحدہ میں پیش کی جاتی ہے ، روس اور چین ان کو ویٹو کر دیتے ہیں ۔ روس اور چین کی اسی سپورٹ کی وجہ سے بشار تین سال سے جاری خانہ جنگی کے با وجود اپنی مسند پر براجمان ہیں ۔

شام کا حالیہ بحران اس وقت امت ِ مسلمہ کے بڑے مسائل میں سے ایک بن چکا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ مسلم دنیا کا ہے ۔ اس لیے اسے مسلمان ہی حل کر سکتے ہیں ۔ عالمی افق پر سعودی عرب( بہ شمول اس کے حامی ) اور ایران( بہ شمول اس کے حامی ) کی باہمی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ شام کے مسئلے کے پائدار حل کے لیے سعودی عرب اور ایران کا یک جا ہونا پڑے گا اور ایک ہی میز پر بیٹھ کر امت کے اس نئے ، مگر مہلک نا سور کے جڑ سے خاتمے کے لیے پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی ۔ یہی اس مسئلے کا واحد حل ہے ۔ بصورت ِ دیگر شام اسی طرح عالمی طاقتوں کے بھینٹ چڑھتا رہے گا۔

شام کے عوام میں فرقہ واریت کے نام پر مزید قتل ہونے کی ہمت نہیں ہے ۔ شام کے مضطرب لوگ پوری پوری امت ِ مسلمہ سے سوال کر رہے ہیں کہ آخر کب ہمیں امن و سکون میسر آئے گا ؟ آخر کب فرقہ واریت کے نام پر قتل ہونے کا سلسلہ تھمے گا ؟ آخر کب مسلم دنیا کی بڑی طاقتیں ہمارے مسئلے کے حل کے لیے بہ صد خلوص ، اپنے مفادت کو بالائے طاق رکھ کر ، کوشاں ہو ں گی ؟
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159157 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More