پاکستان اور افغانستان کے تعلقات حکومتی سطح پر تو کبھی
شاید مثالی خوشگوار نہ رہے ہوں لیکن بہرحال یہاں کے عوام کچھ ایسے رشتوں
میں بندھے ہوئے ہیں جنہیں کوئی ختم نہیں کر سکتا جن میں سب سے بڑا رشتہ
مذہب کاہے۔ افغانستان کے مسلمانوں پرجب بھی مشکل وقت آیا پاکستانیوں نے آگے
بڑھ کر ان کی مدد کی اور اس کے بدلے میں خود مشکل ترین حالات کا سامنا کیا۔
افغانستان میں چاہے روسی مداخلت تھی یا امریکی اس کا خمیازہ پاکستانیوں کو
بھگتنا پڑا۔ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی تاریخ اور حال دونوں
افغانستان سے جا کر ملتے ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں موجود دہشت
گردی کے اڈے طاقت افغانستان سے ہی پاتے ہیں۔ طالبان لیڈر جب پناہ کی ضرورت
محسوس کرتے ہیں وہ افغانستان میں پناہ لے لیتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال
ملا فضل اللہ ہے جو افغانستان میں محفوظ بیٹھ کر اپنے کارندوں کے ذریعے
پاکستان کے شہروں بازاروں اور گلی کوچوں میں حملے کرواتا ہے اور اس کا
ترجمان بڑے فخر سے ان ظالمانہ کاروائیوں اور قتل عام کی ذمہ داری قبول کر
لیتا ہے۔ اس دہشت گردی نے پاکستان کی ترقی ، صنعت ، حرفت ، تجارت، دفاع اور
یہاں تک کہ تعلیم کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
روز روز کے دھماکوں نے عوام کو ذہنی پریشانیوں اور مسائل سے دو چار کردیا
ہے لیکن اس کے باوجود بھی عالمی طاقتیں ، بھارت اور افغانستان ،پاکستان کو
دہشت گرد ی کا گڑھ کہتے ہیں جبکہ اسی ملک نے خواستہ یا نخواستہ عالمی امن
کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہیں، سب سے زیادہ زندگیاں گنوائی ہیں اور
سب سے زیادہ منفی پروپیگنڈہ بھی برداشت کیا ہے۔ خود پاکستان کے معاملات میں
ہر موقع پر ہر ایک نے مداخلت کو اپنا فرض سمجھا ہے حتیٰ کہ افغانستان جن کی
مدد کی پاداش میں پاکستان کو سزا بھگتنا پڑتی ہے وہ بھی بڑے دھڑلے سے یہ
الزام لگادیتا ہے حالانکہ پاکستان جانتا ہے کہ افغانستان میں امن خود اس کے
امن کے لیے ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کی پاکستان چاہتاہے کہ افغانستان میں
امن قائم ہو کیوں کہ اس کی مثبت اثرات پاکستان کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک
سے زیادہ اہم ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نہ صرف امن معاہدوں کے بارے میں
سنجیدہ ہے بلکہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں میں ہاتھ بٹانا چاہتی ہے،
کیوں کہ اس بات کا احساس ہر پاکستانی کو ہے کہ اگر افغانستان میں روزگار کے
ذرائع فراہم ہونگے اور وہاں کے لوگ باقی کی ترقی یافتہ دنیا سے آگاہ ہونگے
تو وہاں خانہ جنگیاں خود بخود فرو ہوں گی اور پاکستان کی سرحد پر اور
سرحدوں کے اندر دہشت گرد کاروائیوں کے لیے افرادی قوت میسر نہ آسکے گی
لہٰذا دنیا کا یہ سوچنا کہ پاکستان افغانستان کے امن کے بارے میں سنجیدہ
نہیں حقائق سے صرف نظرہے۔
یہ بات بھی درست ہے اور حکومت کے لیے قابل غور بھی کہ پاکستان کے تعاون سے
تعمیر ہونے والے منصوبے اس وقت فنڈز نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں جنہیں ہر
حال میں مکمل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کے بارے میں غیر ذمہ داری کا جو تاثر
فروغ پا رہا ہے وہ ختم ہو اور عالمی سطح پر ساکھ بھی بہتر ہو۔ یہ تمام
منصوبے نصف سے زیادہ مکمل ہو چکے ہیں بلکہ رحمان بابا ہوسٹل کا کام تو 97%
مکمل ہو چکا ہے لیکن اگست 2013 سے یہ تمام کام بند پڑے ہیں۔ ایسا نہیں ہے
کہ پاکستان ان منصوبوں کے بارے میں دلچسپی نہیں لے رہا بلکہ وہ اس تعطل
آگاہ ہے اور اسی لیے اپریل 2014 میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ان کی جلد تکمیل
کے لیے کہہ چکے ہیں اور فنڈز کی فراہمی کا بھی وعدہ کیا ہے۔
افغانستان نہ صرف ہمارا پڑوسی ہے بلکہ برادر اسلامی ملک بھی ہے اور یہ بھی
حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کا امن افغانستان کی صورتحال سے متاثر ہوتا ہے۔
ہمارے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے درمیان صدیوں پرانے روابط موجود ہیں
کہ جس میں خاندانوں میں باہم رشتے ہیں، پہاڑوں کے اس طرف اور اُس طرف کے
لوگ مختلف دروں سے ہوتے ہوئے سینکڑوں سالوں سے تجارتی روابط میں بھی وابستہ
ہیں اس لیے یہ کہنا کہ پاکستان افغانستان میں خون خرابہ کراتا ہے یا اس کے
بارے میں سوچتا ہے کسی بھی طرح درست نہیں اور یہ صرف افغانستان پر ہی موقو
ف نہیں بلکہ کسی بھی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پاکستان
کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے اگر چہ خود ہم دوسروں کی سازشوں کا مسلسل شکار
ہیں جن میں بھارت سر فہرست ہے اور افغانستان بھی اگر ایسا کرتا ہے تو اس
میں بھارت نواز طبقہ ملوث ہے ورنہ ایک عام افغانی کے لیے پاکستان بھارت سے
زیادہ اہم ہے کیونکہ نہ بھارت اس کا ہم مذہب ہے اور نہ ان کی سرحدیں آپس
میں جڑی ہوئی ہیں نہ ہی کبھی اس نے افغانیوں کا درد محسوس کیا ہے لیکن
افغانستان میں اس کی مداخلت ضرور موجود ہے اور حالات اورتجزیہ نگار کہتے
ہیں کہ یہ موجود گی بھی پاکستان کے اندر پہنچنے کا ایک راستہ ہے۔ افغان
حکومت کو بھی پاکستان کو اپنے حالات کا مورر الزام ٹھرانے سے پہلے یہ سوچ
لینا چاہیے کہ جس ملک کے خلاف وہ پروپیگنڈا کر رہا ہے اور اس کے خلاف اپنی
سرزمین کے استعمال کی اجازت دے رہا ہے وہ وہی ملک اور لوگ ہیں جنہوں نے
بارہا اپنی سر زمین افغانوں کو بیرونی حملوں اور بموں سے بچانے کے لیے
فراہم کی۔
پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں ، پڑوسی ہیں، ثقافتی ،
روایتی حتیٰ کہ ذاتی رشتوں اور ناتوں میں بندھے ہوئے ہیں لہٰذا انہیں ایک
دوسرے کی خودمختاری، سلامتی، امن، ترقی اور خوشحالی کا نہ صرف خیال رکھنا
چاہیے بلکہ اس سب کچھ کا ضامن بھی ہونا چا ہیے ۔ |