انسانیت بھی کوئی چیز ہے!

اﷲ رب العزت جملہ مخلوقات اور انسانیت کے خالق ہیں۔ کثیر الاتعداد مخلوقات جو کئی عالَموں پر مشتمل ہیں وہ سب کے رب (خدا ) ہیں، اور جس کا اعلان کلام اﷲ (قرآنِ مجید) کی سب سے پہلی سورت کی پہلی آیت میں فرما دیا گیا ہے: ’’ تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جو رب العالمین ہیں۔‘‘ وہ عالَمین، ملکوت سماوی میں ہوں یا ملکوت ارضی میں ہوں، وہ اس زندگی میں ہوں یا آنے والی زندگی میں، وہ انس و جن ہوں ، حیوانات و نباتات ہوں یا پھر حشرات و جمادات، سب میں مکرم و معظم انسان ہے، جس کا اعلان اس طرح ہوا۔ ’’ ہم نے بنی آدم کو مکرم و معظم بنا دیا۔ ‘‘آج ساری دنیا معترف ہے کہ رہبرِ انسانیت پیغمبرِ اسلام حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ ہی وہ واحد رہبر ہیں جن کی تعلیمات کا تاریخ انسانی پر سب سے زیادہ گہرا اثر مرتب ہوا۔آپ ﷺ سے پہلے پیغمبروں نے عام طور سے معاشرے کے مذہبی اور اخلاقی پہلوؤں ہی کو متاثر کیا اسی طرح سے آپ پہلے یا آپ کے بعد آنے والے مفکرین کرام صرف ایک ہی نقطہ نظر کو بڑھا چڑھا کر پیش کر سکے۔ لیکن پیغمبرِ اسلام ﷺ نے مذہبی و روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کے علاوہ سیاسی اور معاشی شعبوں کو بھی ایک نظام کے تابع کر دیا اور اس نظام کے ایسے اصول مرتب کر دیئے جواب تک قائم و دائم ہیں۔

آیئے اب آتے ہیں اس فانی دنیا کی طرف! فانی دنیا کی طرف آتے ہیں سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے۔ قحط الرجال ہے، یا اخلاقی اقدار کے امین خال خال رہ گئے ہیں ۔ کیا زمانہ آگیا ہے جو سچے، کھرے اور بے غرض ہیں ان کی کوئی سننے کو تیار نہیں، بات ماننے پر آمادہ نہیں لوگ تو بس لچھے دار باتیں کرنا اور سننا پسند کرنے لگے ہیں۔ بیشتر صاف ستھری کھری بات کرنے والوں سے ناراض، ناراض رہتے ہیں جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں، ہر چیز پر مادیت اس قدر غالب ہے کہ لوگوں کا، چیزوں کا اور ماحول کا اصل حسن چھپ گیا ہے بات کرو تو سب تسلیم بھی کرتے ہیں، کوئی مانے نہ مانے دل تو ضرور گواہی دیتا ہے۔ کسی لالچ، اجر یا ثواب اور صلہ کی خواہش کئے بغیر انسانیت کی خدمت ہی زندگی کی علامت ہے کہنے والے یہی کہتے ہیں آدمیت سے انسانیت کے درمیان معمولی سا فرق ہے جس نے یہ راز جان لیا سمجھ لیجئے نسخۂ کیمیا اس کے ہاتھ لگ گیا ۔ حالیؔ نے کیا خوب کہا تھا کہ:
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

مگر کیا کیجئے کہ آدمیت سے انسانیت کے درمیان معمولی سا فرق بھی اب ہمیں کوئی فرق نہیں لگتا، احساس اور مروت کا گلہ گھونٹ کر شاید ہم نے تنزلی کو ہی ترقی کا متبادل سمجھ لیا ہے اسی لئے تیزی سے تنزلی کا یہ سفر جاری ہے لیکن کسی کو مطلقِ احساس نہیں اسے اجتماعی بے حسی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اجتماعی خود کشی سے بھی۔ حکومتی نمائندے، اہلِ فکر و دانش بالخصوص علماء کرام اساتذہ کرام معاشرے میں بہتری کے لئے کچھ اسباب پر غور ضرور کریں۔اس سلسلے میں سب سے پہلے لوگوں میں حلال حرام کی تمیز اجاگر کی جائے، ہر سطح پر ظلم کے خلاف مربوط اور مؤثر تحریک چلائی جائے، نفرتوں اور تعصب کے خاتمہ کے لئے محبت، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کچھ کیا جائے تو بہتوں کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہاں پر پھر اوپر کی سطر کو دہرانا ہوگا کہ کہ کریں کیا شاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا انتہائی مشکل مرحلہ ہو چکا ہے۔

اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ دل محبت سے خالی ہو گئے ہیں مسلمان ہونے کے باوجود ہم مروت، احساس، اخوّت، بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی چاہت سے عاری ہوتے جا رہے ہیں اور دل ہے کہ خواہشات کے قبرستان بن گئے ، کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ کسی لالچ، اجر یا ثواب اور صلہ کی خواہش کئے بغیر انسانیت کی خدمت کی جائے اور انسانیت کے لئے زندگی کی علامت بن جائیں۔ دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، جسم فروشی ، رہزنی، چوری ڈکیتی، نشانہ وار قتل اور دیگر مسائل کا بڑا سبب دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہو سکتی ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیا ں تلخ بنا دی ہیں۔عام آدمی جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ، یہی لوگ عام لوگوں کی تقدیر کے مالک بنے ہوئے ہیں ، اصلاحِ احوال کے لئے کوئی طریقہ ہے نا سلیقہ۔یہ سسٹم ہے ایسے ہی چلتا رہا تو اخلاقی اقدار، اخلاقیات اور یگانگت کا جنازہ روز سرِ بازار اُٹھتا رہے گا اور ہمارے اِرد گِرد وحشت، بے شرمی اور بے حیائی ناچتی رہے گی اور ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں کر پائیں گے۔ یاد رکھیں اگر قدرت ہمیں مہلت پہ مہلت دے رہی ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیئے جناب! بُرا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں حکمرانوں سے فقط ایک سوال ہے ۔ کیا فیصلہ کیا آپ نیـ؟ ورنہ ہمارے بارے میں تو لوگوں کی رائے مسلمہ ہے۔
اس جھوٹی نگری میں ہم نے یہی ہمیشہ دیکھا ہے
سچی بات بتانے والے کچھ کچھ پاگل ہوتے ہیں

آپ سب میڈیا کے ذریعے دیکھ ہی رہے ہونگے اور یقینا اخبارات بھی پڑھ رہے ہونگے کہ ہررات کس طرح ظلم کی اَن گنت کہانیاں جنم لیتی ہیں، ہر سورج مظلوموں کے لئے نیا امتحان لے کر طلوع ہوتا ہے کبھی مظلوم خود سوزی کرتے ہیں تو کبھی ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھ جا تے ہیں لیکن بااثر ملزمان کا کچھ نہیں بگڑتا ، مطلب سمجھ نہیں آتی ہر قسم کی سماجی قباحتوں اور رسم و رواجوں اور برائیوں میں جکڑا یہ معاشرہ کب سدھرے گا؟ ہمارے حکمران ہیں کہ روز نیا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور ان کے حواری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے تھکتے نہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں شرمندگی بھی محسوس نہیں ہوتی اور اس پر طُرّہ یہ کہ عوام کی حالت جوں کی توں ہی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔
دورِ حاضر میں جس بڑے پیمانے پر انسانیت کی پامالی ہو رہی ہے، جس طرح انسان انسانیت کے خلاف کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بہت سے انسان انسانیت سے نا آشنا ہیں۔ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو انہیں اپنی حقیقت سے آشنائی حاصل کرنی چاہیئے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک دن یہی خوبصورت دنیا جہنم بن جائے گی۔ دنیا کے چپے چپے کے انسانوں کو ان کی کھوئی ہوئی انسانیت کے لئے شعورؔ کا بہترین پیغام ہے جس پر عمل کرکے یہ معلوم ہو جائے گا کہ ہاں! انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔
خشک صحراؤں میں چھڑکاؤ ضروری ہے شعورؔ
خون بہتا رہے ، پانی کی حفاظت کرنا
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 337860 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.