تو اے مالا ئے یثرب ! آپ میری چارہ سازی کر

کہنہ مشق نہیں ہوں اور نہ ہی اس کا دعویدار ہوں ۔ مسائل ، ام المسائل اور مثبت افکار کے ابلاغ کیلئے لکھنے کے عمل دشوار سے دو چار ہوں اس عمل مشقت سے وابستہ ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے ۔وقت اور زر کا زیاں اور اس طرح کے دیگر نقصانات بھی اٹھائے سچ کی تبلیغ اور اظہار حق کے لئے سنگین مقدمات کے کوہ گراں کا سامنا بھی ہے ۔ ایک ایسا معاشرہ کہ جہاں بد عنوانیوں کی غلاظت رائج ہے۔ تھانوں میں متقی کو انتہائی گنہگار اور قاتلوں کو مقتول و مظلوم قرار دینے کا رواج عام ہے۔ یہی خصوصیات تو ہمیں ( اس معاشرے کو) باقی دنیا سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہی امتیاز تو ہمارے لئے طرۂ امتیاز ہے۔ آج اہل پاکستان جس بات پر فخر کرتے ہیں وہ یہی متذکرہ بالا خوبیاں ہیں ایماندار ی دیانتدار ی ، حق گوئی وراست گوئی اور بد عنوانی سے پاک معاشرہ ہی ہمارے ضمیر کی نا پسند یدہ شئے ہے بد عنوانی جیسی ضروری اور ’’ اجزائے ایمان ‘‘ چیزوں کو ترک کرنا ہمیں قطعاً نا منظور ہے ۔ جہاں یہ برائیاں ہمارے ملک کو ورثے میں ملی ہوں تو کیا انہیں ترک کرنے کا آسان ہو گا۔۔۔۔؟ جب میرے جیسا غیر جانبدار قلم کار جو بد عنوان لوگوں کی نظروں میں مطعون و ملعون ٹھہرتا ہے مصائب آلام کے سنگ بے آب کی سنگ باری کی زد میں نہیں آئے گا ۔ تو کیا میرے لئے پھول برسیں گے۔۔۔۔؟ یہ ایک خام خیالی ہے کہ ظلم کی چلچلاتی دھوپ کی بجائے امن کے سائے نصیب ہوں گے۔ ۔۔۔ جب کسی ظالم ، بے حمیت اور بے غیرت ( بے غیر ت سے مراد ایسے بد عنوان عناصر ہیں۔ جو اپنا ضمیر اور اپنی عزت حتیٰ کہ اپنے اصول حصول زر کے لئے بیچ دیتے ہیں ۔جن کی ترجیح محض انسانیت ( مخلوق خدا) کو تکالیف دینا ہے ) کے اعمال بد کے مضر اثرات پر تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے یا رائے دی جاتی ہے کہ اصلاح معاشرہ کا صالح عمل انجام دیا جائے تو جواب میں مشکلات کے لا متناہی سلسلہ نے ضرور گھیرا تنگ کرنا ہوتاہے۔ مصائب سے دلبر داشتہ ہو کر سچائی کے پیغام کو پھیلانے کے عمل سے دست بردا ر ہونا ایک طرح سے سچائی کے وجود سے انکار ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن ، نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

جب بھی کسی صاحب اختیا ر اور صاحب اقتدار ( طاقتور ) گروہ کو ’’ محض اس لئے کہ بد عنوانی سے پاک نظام میر ہو’’ تنقید کا ہدف بنایا جاتا ہے تو رد عمل میں خسارے کا سود ا ہی میسر ہوگا۔ یہ خسارہ دنیوی سطح پر تو نا خوشگوار ضرور ہے ۔ مگر آخرت میں نجات کا باعث ہوگا ۔ اس سے یہ مطلب بھی نہ لیا جائے کہ فلاح انسانیت جیسے نیک عزائم کو بہشت کے حصول کی ہوس پر قربان کر دوں بلکہ تا حد ِ نظر معاشرتی فلاح اور انسانیت کی بھلائی مطمع نظر ہو۔

تقریباً ہر کالم میں کرپشن ( بعد عنوانی ) کے خاتمے کیلئے رائے دیتا ہوں جو میرا اخلاقی فرض ہے ۔ مگر یہ رائے صدا بصحرا ہی ثابت ہوتی ہے ۔ کسی محکمہ میں واضح اور اعلانیہ بے ایمانی و بد عنوانی کے مظاہر ہ بارے جب بھی حکام یا اعلیٰ انتظامی افسروں کو مطلع کیا جاتا ہے تو مجال ہے کہ کار روائی عمل میں آئے ۔۔۔۔ بھلا کار روائی ہو بھی کیوں۔۔۔۔؟ جب مکمل نظام ہی گنہگار ہو تو کیا اصلاح نظام ممکن ہے۔۔۔؟

کہا جاتا ہے کہ ’’ سچ ‘‘ اور’’ بد عنوانی ‘‘ دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو بنا اور بگاڑ سکتی ہیں ۔ بظاہر تو ’’ سچ ‘‘ انسان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ جس سے محض دنیوی سطح پر عارضی خسارے کا سودا کرنا پڑتا ہے ۔مگر مستقل اجر اور نیک نامی مقدر ٹھہرتی ہے۔ نیک نامی کی شہرت ایک طرح سے کار خیر ہے۔ اس عمل کا نتیجہ رائیگاں نہیں جاتا ۔ مستقل امن ، سکون اور سلامتی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ فرد وس بر یں باعمل اہل ایمان کا مستقل ٹھکانہ ہے۔ اہل حق ( سچ کا پیغام پھیلانے والوں ) کا مسکن ہے۔ لیکن دنیا میں عارضی مصائب کا سامنا ضرور رہتا ہے جو بسا اوقات تلخ نتائج بھی بر آمد کرتا ہے۔ دوسری طرف اثرات بد کی حامل ’’ بد عنوانی ‘‘ معاشرے کو منفی اثرات سے دو چار کرتی ہے۔ اور کر رہی ہے۔ اس نظام کے لانے والوں کا نام لینے سے احتراز ہر گز نہیں۔۔۔لیکن ۔۔۔۔ کس کس کا نام لیا جائے ؟ اس نظام کا ہر ساستدان ، ڈاکٹر (طبیب ) اور ہر افسر جو مقدس بھی کہلاتا ہو غریب کے بنیادی حقوق کا قاتل ہے۔ یہ نظام ایک طرح سے سیورج کے نالے کی مانند ہے۔ نالے کے اس پار مسجد ہو۔ لیکن اس مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے نالہ پار کرنے سے قبل وضو کرنا پڑے ۔ جب حالت وضو میں گندہ نالہ پار کر کے اسی وضو کے ساتھ اس پار موجود مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہو تو کیا اس حالت میں نماز ہوگی۔۔۔؟ جواب سب کو معلوم ہے۔۔۔؟ جہاں اس قسم کا غلیظ نظام رائج ہو وہاں انصاف اور عدل کا قحط ایک معاشرتی المیہ ہے۔ بقول اقبال ؒ
دور ِ حاضر مستِ چنگ و بے سرور ، بے ثبات و بے یقین و بے حضور

جتنا یہ معاشرہ پڑھے لکھوں کے ہاتھوں لٹا ، اتنا ان پڑھوں ( غیر تعلیم یافتہ لوگوں ) نے اسے پامال نہیں کیا۔ یہاں تعلیم یافتہ ( ہنر مند ) افراد مثلاً ڈاکٹرز ، صنعتکاروں اور بے ایمان سیاستدانوں اور افسروں نے دن دہاڑے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان حالات میں بھی کچھ پاگل دانشور نظام بچانے کی بات کر رہے ہیں ۔۔۔کس زمانے کے لوگ ہیں یہ جو اصلاح کی بجائے بگاڑ پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔۔ شاید ان کا ایمان زناری ہے ۔
تو اے مولائے یثرب ؐ ! آپ میری چار ہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی ، مرا ایماں ہے زناری
 

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 47025 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.