موسمیاتی تبدیلیاں، متبادل توانائی کی طرف راغب ہونے کی ضرورت

 دنیا بھر میں 40 فیصد اموات ہوا ‘ پانی اور مٹی کی آلودگی کے باعث رونما ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ناقص غذائیت نہ صرف 60 لاکھ بچوں کی اموات کی ذمہ دار ہے بلکہ یہ دوسری بیماریوں کا بھی سبب بنتی ہے خاص کر اس سے نظام تنفس کی کارکردگی بھی متا ثر ہوتی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 1.2 ملین لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں اس کے علاوہ 80 فیصد پانی میں پائی جانے والی زہریلی کثافتیں 1.2 ملین سے لیکر 7 ملین لوگوں کی اموات کا باعث بنتی ہیں جبکہ ہوائی آلودگی کے باعث تین ملین اموات واقع ہوتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے متبادل توانائی کی طرف راغب ہونے کی ضرورت ہے۔یہ رپورٹ جرمنی کے شہر برلن میں اقوام متحدہ کی انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی جانب سے تیار کی گئی ہے جس کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور اور اس کے اثرات پر ایک شفاف سائنسی رپورٹ مرتب کرے۔یہ رپورٹ سائنس دانوں اور سرکاری اہلکاروں کے بیچ ایک ہفتہ سے جاری گفتگو کے نتیجے میں جاری ہوئی ہے، جس میں اس بات کی توثیق ہوئی کہ متبادل توانائی کی جانب رخ کرنا اب دنیا کے لیے ناگزیرہے۔کوئلے اور تیل کے استعمال کو کم کرنے کے لیے قدرتی گیس کا کردار خاصا اہم ہے۔ لیکن بحث اب اس بات پر ہے کہ اس توانائی کو مالی معاونت کون فراہم کرے گا۔اس رپورٹ میں دنیا کی ایک ایسی صورت حال بیان کی گئی ہے جہاں کاربن کا اخراج تیزی سے بڑھ رہا ہے۔آئی پی سی سی کے صدر نے برلن میں رپورٹ کی رونمائی پر ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’کاربن کے اخراج میں کمی لانے کی کوششوں کا آغاز اب جلد ہو جانا چاہیے اور اس پر دنیا کے تمام ممالک کو شامل ہونا ہو گا۔1750 سے لے کر اب تک جتنی کاربن فضا میں پھیلائی گئی ہے اس میں سے آدھی پچھلے 40 برسوں میں پھیلائی گئی۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2000 سے کوئلے کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس سے دنیا بھر میں کاربن کے پھیلاؤ کو روکنے کے رجحان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق خطرہ یہ بھی ہے کہ 2100 تک زمین کی سطح کے درجہ حرارت میں 3.7 اور 4.8 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔یاد رہے کہ دو ڈگری سے زیادہ کا فرق خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے بعد موسمیاتی تبدیلی کے اثر واضح طور پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔تاہم رپورٹ میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال تبدیل کی جا سکتی ہے ،اس بات پر کوئی شک نہیں کہ توانائی کی صنعت میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانا ضروری ہے۔امریکہ میں کی گئی ایک تازہ تحقیق کے مطابق چین اور دیگر ایشیائی ممالک میں فضائی آلودگی کا شمالی نصف کرہ ارض میں موسمیاتی تبدیلیوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فضائی آلودگی بحرالکاہل میں طوفانوں کی تندی کو تقویت دیتی ہے جس سے دنیا کے دیگر حصوں میں موسمیاتی نظام متاثر ہوتا ہے اور یہ اثرات موسمِ سرما زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔یہ تحقیق پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے سربراہ یوان وانگ نے کہا کہ ’اس کے اثرات ڈرامائی ہیں۔ فضائی آلودگی سے بادل مزید گہرے اور اونچے ہو جاتے ہیں جو زیادہ بارشیں برساتے ہیں۔‘

ایشیا کے بعض حصوں میں خطرناک حد تک کی آلودگی پائی جاتی ہے۔چین کے دارالحکومت بیجنگ میں آلودگی اکثر خطرناک حد تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ بھارتی دارالحکومت دہلی میں بھی آلودگی اکثر عالمی ادارہ صحت کی طرف سے تجویز کردہ حد سے تجاویز کر جاتی ہے۔اپنے ملک عزیز میں آلودگی کے ڈیرے لگے ہوئے ہیں مگر مجال ہے کسی تحقیق کی ضرورت بھی محسوس کی گئی ہو……دنیا کوئلے کا استعمال ترک کر رہی ہے اور ہم نے ابھی تک اس کا درست استعمال کیا ہی نہیں…… آلودگی نہ صرف ان علاقوں میں رہنے والوں کے لیے مضرِ صحت ہے بلکہ اس بات کے بھی شواہد سامنے آئے ہیں کہ اس کے دیگر اثرات بھی ہیں۔امریکہ اور چین سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے ایشیا میں پائی جانے والی آلودگی کے موسمیاتی نظام پر اثرات جانچنے کے لیے کمپیوٹر ماڈل استعمال کیے۔محققین کا کہنا ہے کہ آلودگی کے چھوٹے ذرات ہوا کے دوش پر بحرالکاہل کی طرف چلے گئے جہاں ان ذرات کا پانی کے قطروں کے ساتھ تعامل ہوا جس کی وجہ سے بادل مزید گھنے ہوگئے جو طوفانوں میں تیزی کا باعث بنے۔اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے ریڈنگ یونیورسٹی میں موسمیاتی طبیعات کے پروفیسر ایلی ہائی ووڈ نے کہا کہ ’ہمیں تیزی سے اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ فضائی آلودگی کا مقامی خطوں اور دنیا کے دیگر حصوں پر اثر پڑتا ہے اور یہ تحقیق اس کی بہترین مثال ہے۔مرکری یعنی پارہ کے استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت ہونے والی بات چیت میں بعض اصولوں پر اتفاق ہوگیا ہے۔اس سلسلے میں جنیوا میں ہونے والی بات چیت میں ایک سو چالیس ممالک نے اس پر رضامندی ظاہر کی۔ان ممالک کے مندوبین نے ایسے زہریلی دھات کے استعمال پر کنٹرول کے لیے اقدامات کی منظوری دی ہے جس سے ماحول میں پارہ کا اخراج کم ہوسکے۔اس کنونشن کے تحت پارہ کی سپلائی، تجارت اور صنعت کے لیے استعمال میں اس پر نگرانی رکھی جائے گی۔حال ہی میں اقوام متحدہ نے اس سے متعلق ایک ڈیٹا جاری کیا تھا جس کے مطابق کئی ایک ترقی پذیر ممالک میں پارہ کا اخراج بڑھ گیا ہے۔جن اصولوں پر اتفاق ہوا ہے انہیں منامتا کنونشن کے نام سے جانا جائے گا۔ منامتا جاپان کے ایک شہر کا نام ہے جہاں پارہ کے زہریلے مادوں کا ایک بھیانک واقعہ پیش آیا تھا۔اس معاہدے پر اس برس کے اواخر تک رکن ممالک کو دستخط کرنا ہوگا جس کے لیے ایک سفارتی کانفرنس بلائی جائے گی۔پارہ فضائی آلودگی کا ایک اہم سبب ہے اور یہ انسانی صحت کے لیے اس قدر مضر ثابت ہوسکتا ہے کہ جس سے انسان کا عصابی نظام ہی درہم برہم ہوجاتا ہے۔ماحول میں پارہ کا اخراج کئی طرح کے صنعتی عمل سے ہوتا ہے۔ کانکنی دھات اور سیمنٹ کو بنانے اور خام ایندھن کے جلنے سے پارہ فضا میں تحلیل ہوتا ہے۔ایک بار فضا میں تحلیل ہونے کے بعد پارہ جلدی زائل بھی نہیں ہوتا اور ہوا، پانی اور مٹی کے ذریعے پھیلتا رہتا ہے۔صحت سے متعلق عالمی ادارہ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ انسانی صحت کے لیے پارہ بہت نقصان دہ ہے۔ ’ یہ مادر رحم یا پیدائش کے بعد بچوں کی افزائش کو روک سکتا ہے۔‘سانس کے ذریعے پارہ کا اندر جانا مہلک ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے عصابی نظام خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو حاملہ خواتین آلودہ فضا میں رہتی ہیں ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچے دوسرے بچوں کی نسبت کم وزن ہوتے ہیں انہیں مستقبل میں صحت سے متعلق مسائل کا سامنا رہتا ہے جیسا کہ انہیں ذیابیطس اور دل کی بیماری ہونے کا خطرہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔اس تحقیقی ٹیم کے رکن اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو کے پروفیسر ٹریسی وڈروف کا کہنا ہے ’اہم بات یہ ہے کہ اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی کا عام طور پر اثر دنیا کے ہر انسان پر پڑتا ہے۔لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے پروفیسر ٹونی فلیچر کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کی دریافت واضح ہے۔ حالانکہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی کا ہر بچے پر برابر اثر نہیں ہوتا ہے اس لیے والدین کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ادھر برطانیہ میں ماحولیات سے متعلق محکمے کا کہنا ہے کہ اگرچہ برطانیہ میں فضائی آلودگی کم ہے لیکن ابھی برطانیہ کے شہروں میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ فضائی آلودگی سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکے۔امریکی سائنسدانوں نے ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جس سے گلی، محلے سے لے کر آپ کے گھر تک میں آلودگی کی آسانی سے پیمائش ہو سکے گی۔محققین کا کہنا ہے کہ اس سافٹ ویئر کی مدد سے اس علاقے کی تلاش آسان ہو جائے گی جہاں سے سب سے زیادہ کاربن گیس کا اخراج ہو رہا ہوگا۔ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس نظام کو ہیسٹیا‘ کا نام دیا ہے.محققین کو یقین ہے کہ اس نظام کے ذریعے سب سے زیادہ متاثر علاقے کو ڈھونڈ پانا بہت آسان ہوگا۔محققین نے اس تحقیق کے لیے کئی طرح کا ڈیٹا استعمال کیا۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آلودگی ناپنے کے لیے کوئی ایسا نظام بنایا گیا ہے جس سے کسی بھی جگہ سے خارج ہو رہی کاربن گیس کی پیمائش کی جا سکے گی۔ سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شہری علاقوں میں ’ گرین والز‘ یا سبزہ والی دیواروں سے آلودگی میں تیس فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ایسی گلیوں میں درخت اور سبزہ اگانے سے آلودگی میں کمی کی جاسکتی ہے جن میں آلودگی کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔شہروں اور قصبوں میں درخت اگانے سے واضح ہوا ہے کہ نائٹروجن ڈائی اوکسائیڈ اور انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بعض دوسرے مادے ختم ہوتے ہیں۔یہ معلومات ماحولیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شمارے کے لیے برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر روب میکنزی اور لینکسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر ٹام پیوہ نے مل کر لکھی ہیں۔پروفیسر روب میکینزی کے مطابق ’اب تک ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے کئی قسم کے طریقے آزمائے جاتے تھے جیسا کہ پرانی گاڑیاں ختم کی جائیں یا کنجیسشن چارج لگایا جائے لیکن ان میں سے کچھ کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلے‘۔ہماری گلیوں کی حدود اس وقت بلند و بالا عمارتوں کی وجہ سے وادیوں کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ اور ان کی حدود میں داخل ہونے والی آلودہ ہوا ان میں پھنس کر مشکل سے خارج ہوتی ہے۔’گرین والز‘ کا فائدہ یہ ہے کہ یہ گلی کی حدود میں آنے والی اور رہنے والی ہوا کو صاف کرتی ہیں۔ زیادہ دیواروں پر سبزہ اگانے سے ہم اپنے آلودگی کے مقامی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔’گرین والز‘ بیلوں پر مشتمل پودے ہوتے ہیں جو کہ دیواروں پر چڑھتی ہیں اور یہ ہوا کو صاف کرنے والے فلٹر کا کام کرتی ہیں۔لندن کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے شعبہ ماحولیات کی سربراہ نکولہ چیتھم نے کہا کہ ان کے محکمہ نے لندن میں دوسری گرین وال بنائی ہے تاکہ ٹریفک کے بھاری دباؤ کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔اسی طرح ڈاکٹر پیوہ نے کہا کہ ان پودوں کی بہت دیکھ بھال کرنی پڑے گی اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ کہاں اور کیسے یہ سبزہ لگایا جائے۔جاپان اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا صنعتی اور گیسوں کے اخراج سے آلودگی پھیلانے والے سر فہرست ملکوں میں پانچویں نمبر پر آنے والا ملک ہے۔گزشتہ دوسال کے دوران ماحول میں موجود ان گیسوں کی سطح میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جو گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ورلڈ میٹریولوجیکل آرگنائزیشن یعنی ڈبلیو ایم او کے مطابق فضا میں سی او ٹو (CO2) کی سطح میں گذشتہ ایک دہائی کی عمومی شرح کے مقابلے گذشتہ برس بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ان دیگر گیسوں کی وجہ سے ہمارا موسمیاتی نظام 1990 کے بعد سے ایک تہائی تک تبدیل ہوا ہے۔ڈبلیو ایم او کی سالانہ رپورٹ میں صرف فضائی آلودگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں زمین پر موجود تابکاری کے اثرات شامل نہیں۔کاربن ڈائی آکسائیڈ سب سے اہم گیس ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انسانوں کی سرگرمیوں کے باعث خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا نصف حصہ فضا میں باقی رہتا ہے جبکہ باقی پودے، درخت، زمین اور سمندر جذب کر لیتے ہیں۔1750 سے اب تک سی او ٹو کی عمومی شرح میں ایک سو اکتالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔فضا میں میتھین گیس کی سطح میں بھی اضافہ ہوا ہے جو 2012 میں ایک ہزار آٹھ سو انیس پی پی بی رہی۔ڈبلیو ایم او کی رپورٹ کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ میتھین میں اضافے کی وجہ کیا ہے۔ آیا یہ انسانوں کی سرگرمیوں جیسے کے مویشی پالنا، کوڑا کرکٹ جلانا ہے یا قدرتی عناصر جیسے دلدلی علاقے وغیرہ۔ان کا خیال ہے کہ گیس کا زیادہ اخراج منطقہ حارہ اور شمالی وسطی قرہ سے ہوا ہے۔فضا میں نائیٹرس آکسائیڈ کے اخراج میں بھی اضافہ ہوا ہے2012 میں یہ سطح 325.1 پی پی بی ریکارڈ کیا گیا جو صنعتی دور کے پہلے کے مقابلے120 فیصد زیادہ ہے۔نائیٹرس آکسائیڈ گیس کے مجتمع ہونے کی سطح اگرچہ سی او ٹو کے مقابلہ میں بہت کم ہے لیکن یہ دو سو اٹھانوے گنا زیادہ حدت پیدا کرتی ہے۔ اور یہ اوزون لیئر کی تباہی میں بھی کردار اد کر رہی ہے۔محکمہ موسمیات کے ڈاکٹرمحمد حنیف کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں جاری ہیں،حالیہ بارشوں کی وجہ قطب شمالی سے آنے والی وہ ٹھنڈی ہوائیں ہیں جنھیں اپریل میں واپس قطب شمالی لوٹ جانا تھا تاہم وہ اب بھی ایشیا اور مشرقِ وسطی کے علاقوں میں گھوم رہی ہیں، پاکستان کے شمالی علاقوں اور کشمیر کے بعض پہاڑی علاقوں میں 16 برس کے بعد برف باری ہوئی ہے۔’آنے والے چند مہنیوں میں ایل نینیو بھی بنے گا، جس کی وجہ سے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے بعض ممالک میں بارشیں متاثر ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ بارشوں کے علاوہ زیادہ درجہ حرارت بھی سیلاب کے خطرے میں اضافہ کرتا ہے مئی کے آخری اور جون کے پہلے دو ہفتوں میں درجہ حرارت میں اضافے کے سبب شمالی پہاڑوں پر گلیشیئر پگھلنے سے دریاؤں میں پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہوگا،ایل نینیو بحرالکاہل کے پانیوں کے درجہ حرارت میں اضافے کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے بحرالکاہل کے ساحلی علاقے اور جنوبی امریکہ کے ساحلی علاقے متاثر ہوتے ہیں، تاہم اس کے اثرات پوری دنیا کے موسموں پر پڑتے ہیں۔ ایل نینیو کے باعث بارشیں معمول سے کم ہو جاتی ہیں۔حالیہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ گیسوں کے اخراج میں شاید کچھ کمی آئے لیکن ان کے مجتمع ہونے کا عمل جاری ہے اور یہ ماحول پر اپنا اثر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں سال تک تو ضرورچھوڑیں گی۔ دنیا بھر میں 40 فیصد اموات ہوا ‘ پانی اور مٹی کی آلودگی کے باعث رونما ہوتی ہیں کیا اب بھی ہم یوں ہی سوئے رہیں گے۔

 

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 70766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.