ایک مکالمہ

عام آدمی: پانی کی قلت ہے ۔ کیا کروں ۔ کہاں سے لاؤں۔
سیاست دان: مٹی کے بنے ہو۔ پانی سے ڈرو۔ اگر پانی لگ گیا تو خراب ہو جاؤ گے۔ کیچڑ بن جاؤ گے۔

عام آدمی: کیا کہہ رہے ہو ۔ بجلی بھی نہیں ہے۔ سخت گرمی ہے۔ کیسے وقت گزاروں ۔
سیاست دان : بجلی میں سخت کرنٹ ہوتا ہے انسانی جسم اسے برداشت نہیں کر سکتا ۔ اگر کرنٹ لگ گیا تو مر جاؤ گے۔

عام آدمی : اُف کیا مصیبت ہے گیس بھی نہیں ہے کہ کھانا پکا یا جا سکے۔
سیاست دان : شکر کرو کہ گیس نہیں ہے۔ گیس انسانی جسم کے لئے مُضر ہے۔ مٹی کے ساتھ گیس مل جائے تو زہریلے مادے بنتے ہیں ۔ اس لئے گیس کو بند ہی رہنا چاہئیے ۔

عام آدمی : کہیں آنا جانا ہو تو سخت مشکل ہے۔ پٹرول بھی نہیں ہے۔ سواری ملنی مشکل ہے ۔ خرچہ بہت ہے ۔ کیا کروں ۔ کس مشکل میں ہوں۔

سیاست دان: پٹرول کتنا خطرناک ہے شاید تمھیں خبر نہیں ۔ یہ سانس کو آلودہ کر دیتا ہے جس سے پھیپھڑ ے ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہر وقت آگ لگنے کا خطرہ رہتا ہے ۔ اب کم از کم تم محفوظ تو ہو۔

عام آدمی: مہنگائی بہت زیادہ ہے ۔ کوئی چیز ڈھنگ سے لی ہی نہیں جاسکتی۔ کبھی کبھی بھوکا سونا پڑتا ہے۔
سیاست دان : یہ مہنگائی نہیں ہے ۔ بہت زیادہ پیسے اور خواہشات نے لوگوں میں لالچ پیدا کر دیا ہے۔ وہ ضرورت سے زیادہ خریدنے لگے ہیں ۔ انسان کی اوقات ہی کیا ہے ۔ تھوڑا سا کھانا ، دو جوڑے، چھت اور سونے کی جگہ ۔ اور کیا چاہئیے۔

عام آدمی: لیکن آپ کے پاس تو سب کچھ ہے۔ اس لئے آپ ایسے کہہ رہے ہیں۔
سیاست دان: میں تم لوگوں کے بارے میں بہت فکر مند رہتا ہوں ۔ یہ سب کچھ ہمارے پاس آپ کی خدمت کے لئے ہی توہے۔

عام آدمی: میرے بچنے کی کوئی اُمید نہیں ہے ۔ جب زندگی کو چلانے کے لئے ضروریات ہی پوری نہ ہوں تو کیا ہوگا۔
سیاست دان : آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اپنا کام اچھی نیت سے کرتے جاؤ ۔باقی معاملات اُس ذات پر چھوڑ دو جو با اختیار ہے۔

Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 43632 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.