دارالعلوم دیوبندامت مسلمہ کا ترجمان اور اہم شاہکار ہے۔
جس نے ہمیشہ ہر مشکل حالات میں امت مسلمہ کو اﷲ رب العزت اور حضور اکرمﷺ کے
ارشادات اور اسلامی تعلیمات کیمطابق دلیرانہ رہنمائی کی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کی بنیاد جس رحمت بھرے ہاتھوں نے رکھی ان کی روحانی عظمت
کا خود یہ شاہکار واضح نشان ہے ۔ انکے خلوص نے بارگاہ بے نیازمیں جو رنگ
قبول پایا۔ اسی کے نتیجے میں آج یہ اسلامی یونیورسٹی نہ صرف پاک و ھند میں
مشہور ہیں بلکہ اس کے فیض کے چشمے تمام دنیائے اسلام میں بہہ نکلے ہیں۔یوں
تو آپ کو مصر میں جامعہ ازہر جیسا علمی مرکز دیکھنے میں آسکتا ہے جس کو
اسلامی سلطنت کی سرپرستی ہمیشہ سے حاصل رہی لیکن روحانیت اور اور علمیت کا
بہترین امتزاج جو آپ کو سرزمین دیوبند کے اس دارالعلوم میں ملے گا وہ دنیا
کے کسی علمی ادارے میں ڈھونڈنے سے بھی آپ نہ پاسکیں گے۔
دارالعلوم دیوبند کی بنیاد جس رحمت بھرے ہاتھوں نے ڈالی جس کو قدرت نے رنگ
قبول بخش کر بقائے دوام کا تاج اس کے سر پر رکھااور جس طرح یہ سدا بہار
پھول عہد فرنگ میں کھلا تھا اسی طرح عہد برہمن میں بھی تروتازہ اور شاداب
ہے۔ وہ رحمت بھرے ہاتھ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے تھے ۔
جنہوں نے اسکی بنیاد ڈالی ۔ شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی
اور دیگر اولیائے کرام کی دعاؤوں کا نتیجہ تھا اور قطب الارشاد امام ربانی
مولانا رشید احمد گنگوہی کی سر پرستی کا پھل تھا۔جو حضرت نانوتوی کے بعد
عمل میں آئی ۔ نیز حضرت مولانا شاہ رفیع الدین جیسے ولی کامل مہتمم اور
حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی جیسے متقی اولین شیخ الحدیث اور شیخ الہند
حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی اور حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی
تھانوی جیسے بزرگوں کی برکتوں کا ثمرہ ہے۔ یوں تو دارالعلوم دیوبند نے
ہزاروں علماء کرام پیدا کئے لیکن اگر وہ صرف ایک ہی امام العصر علامہ محمد
انور شاہ کشمیری جیسا عظیم الشان عالم پیدا کرکے مستقبل کیلئے بند ہوجاتا
تو پھر بھی لاکھوں ستاروں سے زیادہ منور شمس علامہ انورشاہ کافی تھا۔ لیکن
آگے دیکھئے کہ دارالعلوم نے مفتی اعظم ہند مولانا مفتی عزیزالر حمان عثمانی
جیست فقیہہ النفس ، حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی جیسے مجدد اعظم
، شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی جیسے مفسر ومتکلم، مولانا حبیب
الرحمان عثمانی جیسے ادیب و مفکر، مولانا حسی احمد مدنی جیسے عالم ومحدث ،
مفتی کفایت اﷲ جیسے ثانی شامی ، مولانا سید میاں اصغر حسین جیسے ولی کامل،
مولانا عبیداﷲ سندھی جیسے دیدہور مبصر، مولانا اعزاز علی جیسے ادیب، مولانا
ظفر عثمانی جیسے فقیہیہ ومحدث، مولانا محمد ابراہیم بلیاوی جیسے فلسفی،
مولانا رسول خان جیے منطقی، مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع جیسے
فقہیہ و مفسر، مولانا مناظر احسن گیلانی جیسے مؤرخ، مولانا مفتی محمد حسن
امرتسری جیسے مخدوم وعارف، مولانا عبدالحق اکوڑوی، مولانا سلیم اﷲ خان ،
مولانا محمد عبداﷲ درخواستی، مولانا مفتی محمود، جیسے محدثین و مفکرین اور
علامہ شمس الحق افغانی جیسے فاضل و متکلم پیدا کئے۔
کوئی بتائے کہ آسمان دارالعلوم دیوبند کے علاوہ کو ئی اور آسمان ہے جس پر
ان جیسے آفتاب و ماہتاب چمکتے ہوں اور سر زمین دارالعلوم دیوبند سے بڑھ کر
اور کوئی سر زمین ایسی ہے جہاں ایسے سدابہار پھول کھلے ہوں۔بلاشبہ آج
دنیائے اسلام میں ان ہی حضرات کے دھوم ہیں اور ان ہی کا چرچا ہے ان میں ہر
شخص ایک انجمن کی حیثیت رکھتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند نے مسلمانوں کو کیا دیا اور کیوں مقبول ہوئی؟ اسکا جواب
صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو علم ، عمل ،اخلاص، ادب اور سیاست سے مالامال کیا
اور ہرہر پہلو اور کروٹ پر ان کیلئے رہنمائی کا سامان فراہم کیا ۔ اب اہل
انصاف خود فیصلہ فرمائیں کہ جس دارالعلوم نے ہرہر قدم پرمسلمانوں کی
رہنمائی کی اور ان کو علم وعمل،اخلاص، ادب اور سیاست سے آراستہ کیا۔ اس سے
بڑھ کر دارالعلوم دیوبند کا اور شاہکار کیا ہوسکتا ہے؟
حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ شریعت کے تین جزء ہیں علم ، عمل اور
اخلاص ۔۔۔ جب تک یہ تین اجزاء موجود نہ ہوں شریعت کا وجود نہیں ہوتا اور جب
ان تینوں کے وجود سے شریعت وجود میں آگئی تو اﷲ رب العزت کی رضاء حاصل
ہوگئی جو تمام دنیوی و دینی بختیوں سے بھی زیادہ اور اﷲ رب العزت کی
خوشنودی سب سے زیادہ نعمت ہیں ۔
حضرت مجدد الف ثانی دارالعلوم دیوبند کے بارے مزید فرماتے ہیں کہ دارالعلوم
دیوبند نے علم ، عمل اور اخلاص سے مزین علماء پیدا کئے جو دنیا و مافیہا سے
بڑھ کر ہے۔
دارالعلوم دیوبند نے علم کیوں دیا؟ اسکے متعلق عرض یہ ہے کہ اس گہوارہ علم
سے بہترین اہل علم و ہنر پیدا ہوئے اور علم کے زیور سے آراستہ ہو کر دنیائے
اسلام کو کونے کونے میں پہنچے اور جہاں جہاں پہنچے وہاں انہوں نے اپنے علم
کے چراغ سے ہزاروں چراغ روشن کئے اور لاکھوں ارباب علم پیدا کئے اور یوں
سلسلہ بڑھتا گیا آج دارالعلوم کی ہزاروں شاخ جیسے جامعہ مظاہرالعلوم
سہارنپور، مدرسہ قاسمیہ مراد آباد، امروہی ، میرٹھ ، رڑکی، مظفر نگر، دہلی
، کلکتہ، ممبئی، اور سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ، مدینہ منورہ کے علاوہ
افغانستان ، برما، انڈونیشیاء، فلپائن،ڈابھیل، اور پاکستان میں دارالعلوم
حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامعہ دارالعلوم کراچی، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعتہ
العلوم الاسلامیہ کراچی، جامعتہ بنوریہ العالمیہ کراچی، جامعیۃ الاسلامیہ
علامہ عبدالغنی ٹاؤن چمن، جامعہ مدنیہ لاہور، جامعہ اشرف المدارس کراچی،
جامعہ احسن العلوم کوئٹہ، جامعہ رشیدیہ ساہیوال اور مدرسہ بحرالعلوم
نزدگھوڑا ہسپتال چمن وغیرہ۔
غرض یہ کہ جہاں جہاں فضلاء دیوبند اور انکے شاگردپہنچے وہاں وہاں انہوں نے
مدارس دینیہ قائم کر ڈالے۔ اس طرح انہوں نے علوم وفنون کے ہر جگہ دریاء
بہائے ۔ پھر جامع مسجدوں میں خطابت کے زریعہ علم وتبلیغ کے چشمے جاری کئے۔
پنڈالوں اور جلسوں میں اپنے وعظوں سے لوگوں میں علوم دینیہ پھیلائے۔ سرکاری
سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ہر جگہ آپ الحمدلﷲ دارالعلوم کے فاضل
پائیں گے۔ جو اپنی اپنی جگہ علم وتبلیغ کے چشمے جاری کئے۔اور علم کے شمعیں
روشن کئے رہے اور کئے ہوئے ہیں ۔اور جہاں مغربی اثرات نے مسلمان طلباء کے
دلوں پر اپنے سکے جمائے ہوئے ہیں وہاں یہ حضرات علمائے دیوبند دینی دفاع
میں مصروف عمل ہیں ۔ مدارس عربیہ قائم کرنے کے علاوہ دارالعلوم کے فضلاء نے
تصنیفات و تالیفات کا بھی ایک زبردست ذخیرہ پیدا کیا ہے ۔ علم شریعت ،
روحانیت وطریقت اور زبان وسیاست میں بہت سی کتابیں لکھیں اور اسی طرح
دنیائے اسلام کی زبردست خدمات انجام دیں۔ اور علوم دینیہ پھیلانے میں بڑی
کوشش کی ۔ اس سلسلہ میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی آب
حیات تقریر دلپذیر، قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی فتاوٰی
رشیدیہ، الکوکب الدری ، زبدۃ المناسک، سبیل الرشاد، تصفیۃ القلوب اور امداد
السلوک وغیرہ۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی کا ترجمہ قرآن
کریم اردو زبان کا عظیم شاہکار ہے۔
امام العصر علامہ محمد انوارشاہ کشمیری کی لا جواب کتاب،، فیض الباری،، شرح
البخاری شرح ترمذی ، عقیدۃ الاسلام ، مشکلات القرآن،اکفار الملحدین، اور
خاتم النبیین وغیرہ۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیفات
تقریبا ڈیڑھ ہزار ہیں۔ ان میں تفسیربیان القرآن، قرآن کریم کا نہایت سادہ
بامحاورہ ترجمہ اور فوائد تفسیریہ، بہشتی زیور، بوادرالنودر، اصلاح الرسوم،
الافاضات الیومیہ وغیرہ۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کی ،،فتح
المھلم،، شرح مسلم دنیائے اسلام اور حنیفیت کا بہترین عربی شاہکار ہیں ۔
قرآن کریم کے بے نظیر پر مغز اور ادیبانہ مقبول عوام و خواص تفسیر عثمانی،
العقل النقل، اعجاز القرآن، الشہاب، الروح فی القرآن اور فضل الباری شرح
البخاری اردو کے عظیم شاہکار ہیں۔
مجاہد الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی نقش حیات، سوانح قاسمی، سوانح
ابوذر غفاری، اسلامی معاشیات، النبی الخاتم، اور امام ابو حنیفہ کی سیاسی
زندگی زیادہ مقبول ہیں۔ مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع دیوبندی کی
فتاوٰی دارالعلوم دیوبند ، احکام القرآن ، ختم نبوت، حیلۃ النا جزۃ، جواہر
الفقہ اور تفسیر معارف القرآن آٹھ جلدوں میں شہرہ آفاق تالیفات ہیں ان کے
علاوہ سینکڑوں علمی شاہکار ہیں ۔بہر حال اشاعت علوم و فنون میں علمائے
دیوبند کی قابل قدر خدمات ہیں۔ دارالعلوم نے دنیائے اسلام کو علم کے علاوہ
عمل دیا اور اہم مقصودبالذات چیز جو دارالعلوم دیوبند نے دنیا کو بخشی وہ
عمل ہے یعنی دارالعلوم اور اسکے سرپرست ، اسکے مدرسین اور اسکے فضلاء دنیاء
کے گوشے گوشے میں علم کیساتھ اپنا عمل لے کر پہنچے اور انہوں نے لوگوں کو
اسلام کی دعوت کیساتھ عمل کی دعوت دی اور بہت سے علماء کرام نے رشدوہدایت
کے مسند پر بیٹھ کر ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کو اسلام کے احکام نماز،
روزہ ، حج اور زکوٰۃپر عمل کرنے کا جزبہ بخشااور ان کو روحانیت کے اعلیٰ
مقام پر پہنچایا اس سلسلے میں مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا محمد قاسم
نانوتوی، مولانا رفیع الدین، مولانا محمد اشرف علی تھانوی،مولانا عزیز
الرحمان عثمانی ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا خیر محمد جالندھری ،
مولانا محمد ظفر عثمانی، مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا مفتی محمد شفیع
وہ مقدس ہستیاں ہیں ۔ جنہوں نے ظاہری علوم کیساتھ باطنی اور روحانی علوم کے
مدارس کھول رکھے تھے۔ اور جنہوں نے لاکھوں بندگاں خدا کو عمل کی راہ پر
گامزن کیا اور روحانیت کا درس دے کر صحیح معنی میں ان کو بندہ عمل بنادیا۔
گنگوہی ، تھانوی اور رائپوری خانقاہیں ان فرشتہ نما انسانوں کی یادگاریں
ہیں ۔ جن کے قدموں میں فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں ۔ علمائے دیوبند میں آپ
عمل اور ان کے زریعے عوام وخواص میں عمل کی قوت کا ایک جزبہ خاص محسوس کریں
گے۔ جو دوسری جگہ مشکل سے آپ کو ملے گاان بزرگوں نے جو کچھ کیا وہ نبوت کا
منشاء یعنی تزکیہ نفوساور تطہیر قلب تھا۔ ایک تیسری چیز علم وعمل کے علاوہ
جو دارا لعلوم اور اسکے اکابر نے دنیائے اسلام کو بخشی وہ احسان ، اخلاص
اور تقوٰی تھاچنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سے لیکر اب تک
دارالعلوم میں ہر چھوٹے اور بڑے کا یہ جزبہ رہا ہے کہ تبلیغ دین کو انہوں
نے خالص اﷲ رب العزت کیلئے اپنا مطمع نظر بنائے رکھا۔ ان کے ہر دینی عمل
میں خلوص وﷲیت رہی ہے ۔ انہوں نے کبھی نمائش ونمود کیلئے دین کی خدمات
انجام نہیں دیں۔ وہ کم علم اور دنیادار پیروں اور مولویوں کی طرح جبہ و
دستار سے مزین ہو کر عوام کو محصور کرنے سے مجتنب اور متنفر رہے ہیں ۔
انکساری وتواضع ، عاجزی و فروتنی ان کی امتیازی شان رہی ہے ۔ انہوں نے اپنے
آپ کو کبھی مسعود خلائق نہیں بنایا کبھی عوام سے سجدے نہیں کرائے نہ دست
بوسی اور قدم بوسی کی عوام سے امید رکھی۔ نہ محراب ومنبر پر خفیف الحرکات
ان کا شیوہ رہا۔ تقریر میں اشعار بھی پڑھے تو تحت الفظ۔ یہی اخلاق کا ثمرہ
تھا کہ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی نے وصیت میں فرمایا
کہ دارالعلوم کیلئے غرباء عوام کی اعانت پر نظر رکھی جائے اور توکل کو پورے
عمل طور پر عمل میں لایا جائے ۔ چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ دارالعلوم کے
خزانے میں ایک پیسہ بھی نہ ہوتا لیکن فوراہی قدرت کوئی انتظام کردیتے تھے
اسکے مالی کام میں کبھی رخنہ نہیں پڑا۔ 1947 ء میں جب ھندوستان دو حصوں میں
بٹ گئے ڈر تھا کہ اس نازک دور میں دارالعلوم دیوبند کو مالی نقصان نہ پہنچ
جائے لیکن بحمداﷲ اب پہلے سے زیادہ آمدنی ہے مگر سب کام توکل پر چل رہا ہے
۔ یہ اخلاص کا ہی نتیجہ تھا اور ہے کہ اکابر دیوبند نے ہزاروں روپیہ ماہوار
تنخواہوں کو ٹھکرا کر چالیس، پچاس اور ساٹھ روپیہ ماہوار تنخواہوں پر
دارالعلوم میں اپنے زندگیاں ختم کردیں ۔ راقم الحروف مولانا محمد صدیق مدنی
اپنے اکابر علماء دیوبند کو سلام پیش کرتے ہیں اور اﷲ رب العزت سے دعا کرتے
ہیں کہ ان کے یہ قربانیاں قبول فرمائیں ۔ طلبہ کو پرائیویٹ پڑھانے پر کوئی
معاوضہ لینا سخت عیب سمجھا جاتا ہے بہر حال دارالعلوم نے اپنے فرزندوں میں
اﷲ رب العزت کیلئے کام کرنے کا جزبہ بخشا اور خلق اﷲ کی خدمات انجام دیں ۔
وہ اپنی نظروں پر مالک الملک ذوالجلال الاکرام کے سوا کسی کو جگہ نہ دیتے
تھے اور جیسا علامہ رشید رضا ء نے کہا کہ دارالعلوم کے علماء بہت زیادہ خود
دار ہیں نس اسی کا نام خلوص وتقوٰی ہے یہی حقیقت تھی کہ دیوبند کے اکابر
اور وہاں کے تعلیم یافتہ فضلاء کرام کبھی بھی حکومت فرنگ کے سامنے نہیں
جھکے 1914ء کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب جمعیت الانصار اور ریشمی رومال
تحریک کے باعث لندن کے پالیمنٹ میں دارلعلوم دیوبند کو بند کرنے کا فیصلہ
کیا گیا لیکن دارالعلوم نے اس کو چیلنج کیا اور باالآخر اس کو فتح نصیب
ہوئی اور الحمدلﷲ فرنگی سامراج کا راج کل پاک وہند سے چلا گیا مگر
دارالعلوم دیوبند اپنے جگہ آج بھی اسی آب وتاب اور شان وشوکت سے قائم ہیں
اور آئندہ بھی قائم رہے گا ۔ دارالعلوم کے اکابر میں خلوص کی بجائے حرص
وطمع ہوتی تو وہ حکومت فرنگ کی گرانٹ قبول کر لیتے لیکن انہوں نے سلطنت
برطانیہ سے امداد خواہش تو کجا اور خود حکومت کو امداد دینے کی خواہش اور
درخواست کی تھی اور ابھی تک برہمنی راج میں بھی وہ اپنے وقار کو بلند کئے
ہوئے ہیں۔
دارلعلوم دیوبند نے اپنے اخلاص کی خاطر اپنے من ،تن،دہن اور آنکھ کو غیروں
کے سامنے کبھی نہیں جھکایا ۔ بس اسی اخلاص اور تقوٰی پر دارلعلوم دیوبند
کاربند ہے۔
دارلعلوم دیوبند کی بنیاد اخلاص وتقوٰی پر رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ
مقبول ہوا اور یہی اخلاص وراثت میں وہاں کے فضلا ء کو ملا اور یہ حقیقت ہے
کہ اکابر علماء دیوبند کی جماعت میں سے علم وعمل کے اکثر شہسوار اس دنیا
فانی سے رخصت ہوچکے ہیں صرف چند اکابر کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء
فرمائے ۔۔ آمین ثم آمین
|