سلیم صاحب کے سسر محمد عمر نے‘ ابتدا میں سائیکل پر‘ پھیری کا کام شروع کیا۔
صبح سویرے نکل جاتا‘ شام کو‘ گھر لوٹ کر آتا۔ چھان ٹکروں کا بورا‘ ساتھ میں
ہوتا۔ صبح سویرے‘ مال ڈنگر والے آتے‘ اور سارا کا سارا مال لے جاتے۔ بڑے
محنتی‘ اور بھلے آدمی تھے۔ ادھار دینا‘ ان کے اصول میں نہ تھا۔ تول کے بڑے
کھرے‘ اور ایک نمبری تھے۔ لینے کے بانٹ‘ ذرا بڑے تھے۔ ہاں دینے کے بانٹ‘
تھوڑا چھوٹے تھے۔ جوان آدمی تھے‘ وزن کے تھوڑا کم یا زیادہ ہونے سے‘ کیا
فرق پڑتا ہے۔ زندگی‘ تگنی کا ناچ نچاتی ہے‘ ایسے میں‘ معمولی ریلف بھی‘
غنیمت ہوتا ہے۔ گھر کا خرچہ چلانا‘ آسان کام نہیں‘ اوپر سے‘ غمی خوشی میں‘
ضرور شرکت کرتے تھے۔ کرایہ خرچ کرکے جاتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ہر دو
صورتوں میں‘ ان کا پورا ٹبر‘ آدھی دیگ تو چٹ کر جاتا ہو گا۔ سادا مہمان
نوازی‘ انہیں بڑا بور کرتی تھی۔ ہاں اپنے ہاں‘ دعوت شیراز کے قائل تھے۔ ان
کے اس انداز کو‘ دوہرا معیار نہیں کہا جا سکتا۔ اسے رواں زندگی کا‘ اصولی
طریقہ کہنا‘ زیادہ مناسب ہو گا۔ حیثیت سے بڑھ کر خرچہ‘ زندگی کو آسودگی سے
دور کر دیتا ہے۔ ہر کسی سے کہتے‘ چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے سے‘ خرابی جنم
نہیں لیتی۔ جب کہیں سادہ سی تقریب ہوتی‘ تو فرماتے یار خوشی روز روز تو نہں
آتی‘ اسے ڈھنگ سے اور جی کھول کر منانا چاہیے۔۔
انہیں محنت اور عصری مزاج سے‘ میل کھاتے رویے اور طور کے سبب‘ بڑی برکت
نصیب ہوئی۔ یہ برکت‘ انہیں ان کی ترقی کرنے کی نیت‘ کی وجہ سے‘ میسر آئی۔
گلی گلی پھرنے سے‘ انہیں خلاصی مل گئی۔ انہوں نے گاؤں ہی میں‘ پرچون کی
دکان کر لی۔ گاؤں کے لوگوں کے پاس‘ پیسے کم ہی ہوتے ہیں۔ سودا سلف خریدنے
کے لیے‘ اجناس لے آتے‘ اس طرح لینے دینے کے بانٹ متحرک رہے۔ چھان بورے کے
گاہک‘ بھی ہاتھ سے نہ جانے دیے۔ ان کی بیگم‘ جو کاروباری امور میں‘ ان کی
بھی استاد تھی۔ منہ متھے لگتی تھی۔ یہ ہفتے میں ایک بار‘ اسے دکان پر بیٹھا
کر پھیری پر نکل جاتے۔ ان کی بیگم‘ ان کی عدم موجودگی میں‘ دوہری کمائی
کرتی۔ شام کو‘ جب محمد عمر واپس تشریف لاتے‘ تو دکان کی وٹک‘ ان کی ہتھیلی
پر رکھ دیتی۔ اس کی ذاتی وٹک پر‘ محمد عمر کا کوئی حق نہ تھا‘ اس لیے گرہ
خود میں رکھتی۔
وقت پر لگا کر‘ اڑتا رہا‘ یہ ترقی کے زینے‘ طے کرتے گئے۔ گاؤں میں دو مسالک
کی مساجد تھیں۔ ایک مسلک کے‘ مولوی صاحب کسی غلط کام میں‘ رنگے ہاتھوں پکڑے
گیے۔ گاؤں میں داڑھی اور لوگوں نے بھی رکھی ہوئی تھی‘ لیکن محمد عمر کی
داڑھی‘ شرع کے مطابق تھی‘ دوسرا چودھری عثمان‘ ان کے استحقاق کا قائل تھا۔
محمد عمر کی بیوی زرینہ نے‘ چودھری کو پوری طرح‘ گرفت میں کر رکھا تھا۔ آخر
محمد عمر کی تقرری‘ باطور امام مسجد ہو گئی۔ وہ سکے ان پڑھ تھے۔ زرینہ‘
قرآن مجید پڑھی ہوئی تھی۔ اس نے دو چار سورتیں‘ انہیں رٹا دیں۔ اسی طرح
آذان اور اس کا پورا طریقہ‘ ان کے ہم زلف نے‘ سیکھا دیا۔ اب ان کے نام کے
ساتھ‘ مولوی کا سابقہ بھی پیوست ہو گیا تھا۔
رفتہ میں پھیری کے دوران‘ مسلے مسائل سنتے رہتے تھے۔ انہیں بات کرنے‘ اور
بات بنانے کا ڈھنگ بھی آتا تھا۔ زرینہ نے بھی‘ سنی سنائی کے حوالہ سے‘ بڑا
تعاون کیا۔ نماز جمعہ اور جمعہ کا خطاب بھی فرمانے لگے۔ جمعہ کے خطبہ کے
لیے‘ ان کے ہم زلف نے بڑا تعاون کیا۔ دو تین سال میں‘ لہراں بہراں ہو گئیں۔
مخلتف نوعیت کے کھانے‘ دانے اور چھوٹے سہی‘ نوٹ بھی آنے لگے۔ چودھری نے
مسجد کے مولوی کے لیے‘ ایک کلہ زمین بھی مختص کر دی۔ اب وہ مولوی محمد عمر
سے‘ علامہ محمد عمر پکھوی ہو گیے تھے۔ وہ گاؤں میں‘ ایک مذہبی مسلک کے‘
لیڈر تھے۔ جمعہ اور عیدین کے موقع پر‘ پورے مذہبی گٹ اپ کے سآتھ‘ وارد
ہوتے۔ ان کے خلاف بات کرنے کی‘ کسی میں جرآت نہ تھی‘ گویا ان کے خلاف کوئی
بات منہ سے نکالنا‘ مذہب دشمنی کے مترادف تھا۔
ان کا بڑا لڑکا‘ محمد صدیق میٹرک پاس کرکے‘ گاؤں واپس لوٹ آیا۔ علامہ صاحب
کی خواہش تھی‘ کہ دوسرے مسلک کی مسجد کی امامت‘ کسی ناکسی طرح‘ اسے مل
جائے‘ لیکن یہ کام‘ اتنا آسان نہ تھا۔ اس مسجد کا مولوی‘ مضبوط پیروں والا
تھا۔ اس کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا گیا۔ مختلف حوالوں سے‘ اس کی ہوا
خراب کر دی گئی۔ آدمی کتنا ہی محتاط کیوں نہ ہو‘ اس سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔
گاؤں کے ایک ناپسندیدہ مسلک کی‘ کتاب کا حوالہ‘ اپنے خطاب میں کوڈ کر
بیٹھے۔ انہوں نے یہ حوالہ‘ باطور ثبوت کوڈ کیا تھا۔ بس پھر کیا تھا‘ علامہ
صاحب نے‘ قیامت کھڑی کر دی۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا‘ جن کانوں نے یہ
حوالہ سنا ہے‘ توبہ کریں‘ ورنہ عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔ اس مسلک سے متعلق
لوگوں نے‘ اسے مذہبی گستاخی کے مترادف سمجھ لیا۔ مولوی صاحب کی‘ بھاگتے
بنی۔ دو دن تو بلا امام مسجد گزر گیے۔ ایک دن محمد صدیق‘ جو سازش کے پہلے
روز ہی سے‘ ان کی مسجد میں‘ ان کے طریقہ کے مطابق‘ نماز ادا کر رہا تھا‘
رانا جعفر کے اشارے پر‘ امامت کے مصلے پر‘ کھڑا ہو گیا کسی نے‘ چوں تک نہ
کی۔ پھر یہ مصلہ محمد صدیق کا ٹھہرا۔
دوہرے گپھے گھر آنے لگے۔ علامہ صاحب نے‘ اپنی بڑی لڑکی کے‘ ہاتھ پیلے کرنے
کا فیصلہ کیا۔ آخر مناسب رشتہ مل ہی گیا۔ غلام نبی کی اپنی دکان تھی۔ ٹھیک
ٹھاک کھاتی پیتی آسامی تھا۔ اس کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تھی۔ اس سے دو ننھے
منے‘ پیارے پیارے بچے تھے۔ شادی پر گاؤں والوں نے‘ دل کھول کر‘ تعاون کیا۔
ان کے تعاون کا ہی یہ ثمرہ تھا‘ کہ علامہ صاحب کو‘ صرف نکاح کرنے کی تکلیف
اٹھانا پڑی۔ رخصتی کے وقت‘ انہوں نے دلہا میاں کو‘ جیون ساتھی کے خود ساختہ
حقوق سے آگاہ کیا۔ دلہن یعنی اپنی بیٹی کو‘ ایک دن پہلے ہی‘ والدین کے حقوق
سے‘ آگاہ کر دیا تھا۔ ساتھ میں‘ زندگی کے اس اصول سے بھی شناسا کر دیا‘ کہ
لسا پڑنے والے سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔ کوئی ایک کرے تم سو کرو‘ کوئی ایک
سنائے تم ایک سو ایک سناؤ۔ دوہاجو ہے‘ گھٹنوں تلے رکھو‘ ورنہ تمہارے ہمارے
پلے کچھ نہیں پڑ سکے گا۔
شادی کے پہلے ہفتے‘ فریقین کے مابین‘ پیار اور باہمی تعاون کی‘ یقین دہانی
ہوتی رہی۔ وہ ایک مثالی جوڑی دکھ رہے تھے۔ غلام نبی نے‘ اسے ایک وفا شعار
بیوی سمجھتے ہوئے‘ گھر کی سوئی سلائی تک‘ اس کے سپرد کر دی۔ دن بھر کی ساری
کمائی‘ اس کے حوالے کرنے لگا۔ دو تین ماہ بعد ہی‘ گھر میں ہےنا نے ڈیرے جما
لیے۔ صالحہ نے والدین کے حقوق کو‘ بڑی دیانت داری اور جان فشانی سے‘ نبھانے
کا آغاز کر دیا تھا۔ غلام نبی نے‘ سب جانتے ہوئے‘ برداشت سے کام لیا۔ پھر
اس نے‘ محسوس کیا‘ کہ بچے‘ دن بہ دن‘ غیر آسودہ ہو رہے ہیں۔ ایک دن اس نے‘
دبے لفظوں میں‘ اس معاملے کا ذکر چھیڑا‘ بس پھر کیا تھا‘ صالحہ کی سریلی
آواز‘ پورے علاقے نے سنی۔ غلام نبی کان لپیٹ کر‘ نکل گیا‘ اور کیا کرتا۔
اسے واپسی اس ردعمل کا‘ گمان تک نہ تھا۔ باہر وہ بڑا ڈسٹرب رہا۔ شام کو گھر
لوٹا‘ تو صالحہ نے‘ معاملہ الف سے‘ شروع کر دیا۔ صالحہ کا یہ جارحانہ روپ
دیکھ کر‘ غلام نبی حیران رہ گیا۔
سرد جنگ ایک دن بھی نہ چھڑی‘ آغاز ہی‘ گرم جنگ سے ہوا۔ ہر روز کبھی پانی پت
اور کبھی بکسر کی لڑائی چلتی۔ ایک بار وہ بیمار پڑا‘ صالحہ نے‘ ذرا برابر
پرواہ نہ کی۔ غلام نبی نے‘ اس کا یہ رویہ بھی برداشت کیا۔ لڑکا بیمار پڑا‘
صالحہ نے اس سے‘ رائی بھر تعاون نہ کیا۔ غیروں کی طرح‘ جھوٹ موٹھ کا پوچھ
ہی لیتی‘ مگر کہاں۔ غلام نبی بچے کو‘ اکیلا ہی‘ ہسپتالوں میں لیے پھرا۔ آخر
بچہ‘ الله کو پیارا ہو گیا۔ خالی ہاتھ واپس آ گیا۔ بچی رل خل گئی تھی۔
صالحہ نے‘ تسلی تشفی دینے‘ اور ڈھارس بندھانے کی بجائے‘ اپنا ڈنگ تیز کر
دیا۔ غلام نبی کی براشت جواب دے گئی۔ معاملہ علامہ صاحب کے علم میں تھا۔
اصل رولا یہ تھا‘ کہ بچی نانکوں کے پاس بھیج دی جائے۔ غلام نبی اس کے لیے
تیار نہ تھا۔ بیٹے سے‘ پہلے ہی‘ وہ ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ علامہ صاحب نے‘
بیٹی کو سمجھانے کی بجائے غلام نبی کی خوب لہ پہا کی۔ علامہ صاحب کے ہاتھ
میں‘ دوسری شادی کی خواہش مند‘ صاحب حیثیت اسامی موجود تھی۔ معاملہ الجھتا
گیا‘ آخر طلاق ہو گئی۔
عدت ختم ہونے کے‘ اگلے ہی دن‘ صالحہ کا نکاح‘ سلیم صاحب سے کر دیا گیا۔
سلیم صاحب‘ صاحب حیثیت اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ پڑھے لکھے بھی تھے۔
علامہ صاحب نے‘ انہیں بھی‘ نصیحتوں سے سرفراز فرمایا۔ عجیب بات تھی‘ حقوق
العباد میں‘ انہیں زوجہ کے حقوق ہی‘ سر فہرست نظر آتے تھے‘
وہ بھی خود ساختہ۔
الله جانے‘ شخص کے ذاتی حقوق کو‘ کیوں گول کر دیا جاتا ہے۔ ذاتی حقوق‘ پہلی
ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘ اپنے حقوق ادا کرے گا‘ وہی الله اور اس کی پوری
کائنات کی مخلوق کے‘ حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘ اپنی ذات سے انصاف نہیں
کرتا‘ لالچ اور خوف کے زیر اثر‘ ضمیر کی نہیں کہتا‘ یا کہہ سکتا‘ رزق حلال‘
اپنے وجود کو مہیا نہیں کرتا‘ دوسروں کو کیسے کر سکے گا۔ الله کا بےنیاز
اور ہر حاجت سے بالا ہونا‘ مسلم ہے۔ اس کی خوشی‘ اسی میں ہے‘ کہ شخص‘ اس کی
مخلوق کے حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا معاملہ ذات سے‘ الله کی
طرف پھرتا ہے۔
سلیم صاحب نے‘ اولاد کے لیے‘ عقد ثانی کیا تھا الله نے انہیں‘ چاند سا بیٹا
عطا کیا۔ گویا جائیداد کا وارث پیدا ہو گیا تھا۔ صالحہ کا ڈنگ‘ پہلے سے
زیادہ تیز ہو گیا۔ علامہ صاحب‘ عمر رسیدہ سلیم کی‘ موت کی راہ دیکھنے لگے۔
دن رات یک طرفہ‘ بلاوجہ‘ جنگ چلتی۔ شادی کے وقت بھی‘ سلیم صاحب کی عمر
زیادہ تھی‘ لیکن صالحہ اور علامہ صاحب کو‘ آج یہ کجی زیادہ ہی نظر آنے لگی
تھی۔ سلیم صاحب بچے کے لیے‘ سب برداشت کر رہے تھے‘ اور کرتے بھی کیا‘ کوئی
رستہ باقی نہ رہا تھا۔ علامہ صاحب کے لیے سلیم صاحب کی موت‘ کوئی معنی نہ
رکھتی تھی‘ کیوں کہ اسامی تلاشنا‘ اور گھیرنا‘ ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل
تھا۔ |