پردیس، کس قیمت پر؟

بہت عرصہ سے وطن عزیز کے حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ ہر آنے والا دن پہلے سے بڑھ کر خرابی حالات اور خرابی تقدیر کی ”نوید“ سناتا ہے اور پاکستان سے محبت رکھنے والے لوگ، جو بلاشبہ اکثریت میں ہیں، کڑھنے اور غمزدہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتے۔ انہی حالات کی وجہ سے اکثریت کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں تاکہ ان کے گھر والوں کی گزر بسر اچھے طریقہ سے ہوجائے۔ بیرون ملک جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انہیں پاکستان میں محنت کا پورا معاوضہ اور صلہ ملنے کا امکان نظر نہیں آرہا ہوتا اور رشوت ستانی، اقربا پروری جیسے سنگین مسائل کا اکثر و بیشتر سامنا رہتا ہے۔ یہاں کے معروضی حالات کے مطابق جس کا کوئی عزیز رشتے دار کسی ”اچھے“ اور ”منفعت بخش“ عہدہ پر موجود ہوتا ہے وہ یا تو رشوت لیکر کسی کو بھرتی کرلیتا ہے یا قرابت داری اور رشتے داری کی وجہ سے جس سے نہ صرف میرٹ کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں بلکہ حق دار اور اہل لوگوں کے دلوں میں مایوسی کی گہری چادر بھی پھیل جاتی ہے اور وہ بیرون ملک جا کر محنت مزدوری کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ بیرون ملک جانے کے لئے انہیں کیسے کیسے طرح کے حالات سے گزرنا پڑتا ہے، کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور اپنا آپ کس طرح گروی رکھنا پڑتا ہے یہ ایک الگ کہانی ہے اور بہت ہی رنجیدہ کرنے والی۔ بہت سے لوگ دو نمبر لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں باہر کے ملکوں کی ایسی کہانیاں سناتے ہیں کہ جیسے وہاں پہنچتے ہی ”دھن“ ان پر پانی کی طرح برسنا شروع کردے گا یا جیسے پیڑوں پر ڈالر اور پاﺅنڈ اگے ہوئے ہیں اور بس انہیں اتارنا ہے

جب مجبوری کے مارے، بے کس اور بے بس لوگ یہاں سے جارہے ہوتے ہیں تو وہ دل گرفتہ ہونے کے ساتھ انتہائی خوش، مسرور اور مطمئین بھی ہوتے ہیں کہ اب مشکلات اور کٹھنائیوں کے دن بس تھوڑے ہی ہیں اور باہر جاتے ہی وہ اپنے اہل و عیال کے لئے وہ کچھ کر پائیں گے جس کے وہ صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ کوئی شخص بوڑھے والدین کے لئے جانا چاہتا ہے تو کوئی اولاد کے لئے، کسی کو چھوٹے بہن بھائیوں کی فکر ہوتی ہے تو کسی کو اپنے مستقبل کی! لیکن ان میں سے اکثر یہ نہیں سوچتے کہ وہ پردیس جانے کی کیا قیمت چکانے جا رہے ہیں۔ جب وہ اپنے پیچھے ہنستا بستا گھر چھوڑ کر روپے پیسے کے لئے باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو حسین مستقبل کے سپنے ان کی آنکھوں کی چمک سے صاف ظاہر ہورہے ہوتے ہیں۔ پردیس میں جا کر انہیں کن کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے، کیسے کیسے پل صراط عبور کرنا پڑتے ہیں، کیسے کیسے کام کرنا پڑتے ہیں، یہ بھی ایک الگ بحث ہے لیکن ان کی غیر موجودگی میں جب بہن کی ڈولی اٹھتی ہے اور وہ ڈھیر سارا روپیہ تو بھیج سکتے ہیں لیکن اپنے ہاتھوں سے اپنی جان سے پیاری بہن کو وداع نہیں کرسکتے تو ان کے دل پر کیا بیتتی ہے وہ کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، اسی طرح جب بھائی سہرا باندھے بارات لیکر جارہا ہوتا ہے تو وہ اس کی خوشیوں میں بھی شریک نہیں ہوسکتے کیونکہ پردیس میں انکی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، بے شک وہ وہاں ایک اچھی زندگی گزار رہے ہوں، چاہے کتنی اچھی نوکری کررہے ہوں لیکن وہ بہن بھائیوں کی خوشیوں میں شریک نہیں ہوپاتے کیونکہ ان میں اکثریت ایسے تارکین وطن کی ہوتی ہے جو یا تو پردیس میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر ہوتے ہیں یا انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ ایسے مواقع پر اپنے پیاروں کے پاس نہیں پہنچ پاتے۔ اگر وہ وہاں غیر قانونی مقیم ہوں تو وطن واپسی کی صورت میں دوبارہ باہر نہیں جاسکتے اور اگر انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہو اور وہ منظور بھی ہوچکی ہو تو بھی ایک خاص مدت تک وہ اپنے ملک نہیں آپاتے۔

خوشیوں میں عدم شرکت تو پھر بھی قابل برداشت ہوتی ہے لیکن جب پردیسی کے دور میں، وطن سے دوری کے دوران ان کا کوئی قریبی عزیز خصوصاً ماں، باپ یا بہن بھائیوں میں سے کوئی سفر آخرت پر روانہ ہوتا ہے تو تارکین وطن کے دل و دماغ کی حالت تو سراسر ناقابل بیان ہوتی ہے۔ اس وقت انہیں سوچنا پڑتا ہے کہ انہوں نے سارا مال و زر حاصل کرنے کے لئے کیا قیمت چکائی ہے۔ جب ان کا کوئی اپنا اور اپنا بھی وہ جس کے لئے وہ جان بھی لٹانے سے دریغ نہ کریں، اس دنیا سے رخصت ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی بھی ان پردیسیوں سے ملنے کی حسرت ایک کسک بن جاتی ہے۔ میرے والد بزرگوار بھی جب اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو برادرم جواد فیضی ملک میں نہیں تھے۔ میں نے اپنے والد صاحب کی بھائی کو ملنے کی تڑپ دیکھی ہے، میں نے ان کی آنکھوں میں مایوسی کے گہرے سائے دیکھے ہیں۔ میں ایسے وقت میں ”پردیسیوں “ کے دل کی حالت تو شائد بالکل درست طور پر محسوس نہ کرسکوں لیکن میں اپنے والد صاحب کی تڑپ اور کسک سے واقف ہوں۔ جب بھی ان کی بھائی سے بات ہوتی تو وہ یہی کہتے کہ واپس آجاﺅ، اس کے دوستوں سے ملتے کہ شائد انہیں کچھ قرار آجائے بلکہ ان سے بھی یہی کہتے کہ اگر بھائی سے بات ہو تو اسے کہو کہ اب بس کرے، واپس آجائے۔ گھر میں بھی اکثر اس کو یاد کر کے اداس رہتے، اس کے فراق میں شعر کہتے اور اپنے دل کا حال بیان کرتے، اس کے معصوم بچوں کو یاد کر کے اکثر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے والدہ اور بہنیں بھی زارو قطار رونا شروع کردیتیں! جب والد صاحب نے دل کا بائی پاس کروانا تھا تو انہوں نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اس ڈاکٹر کو ترجیح دی جس کا نام بھی ”جواد“ تھا۔ حالانکہ ان کی باقی پوری اولاد ان کی نظروں کے سامنے تھی لیکن انہیں انتظار تھا تو بھائی کا اور اسی انتظار میں، اسی تڑپ میں اور اسی بے چینی میں وہ یہاں سے رخصت ہوگئے۔ جب بھائی کو ان کی دنیائے فانی سے رخصتی کی اطلاع دی گئی، انہیں بتایا گیا کہ وہ ہستی اب اس دنیا میں نہیں رہی جن سے اس کو سب سے زیادہ پیار تھا تو شائد ایک لمحہ کے لئے اس کے ذہن میں آیا ہو کہ میں نے پردیس میں آنے کی کیا قیمت ادا کی ہے! آج میرے والد صاحب کو اس دنیا سے رخصت ہوئے چھ برس بیت گئے ہیں لیکن بیٹے کے لئے باپ کی دیوانگی کو ابھی بھی محسوس کرسکتا ہوں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کو رازق سمجھتے ہیں، رزاق سمجھتے ہیں، رب سمجھتے ہیں تو جان لینا چاہئے کہ جس کی قسمت میں اس ذات باری تعالیٰ نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے کم نہیں ہوسکتا بے شک پوری دنیا اپنا سارا زور لگا لے، تو پھر کیوں ہم اپنے ماں باپ کی آخری عمر میں ان سے جدا ہوجاتے ہیں؟ کیوں ان کو تڑپاتے ہیں؟ کیوں ہم ہر چیز کو روپے پیسے کے ترازو میں تولتے ہیں، خدارا پردیس میں بسنے والو اس بات پر بھی غور کرو! کیا فائدہ ایسی دولت کا جو جان سے زیادہ پیاروں کی جان کی قیمت پر ملے....؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222618 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.