ایک کالم انسانیت کے لیے بھی

ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں زیر علاج کمسن کے بیڈ پر جا کر ہم نے سلام کیا تو ممتا کی ماری ماں جواب دینے کے بجائے ہمیں ایسے دیکھنے لگی گویا سوال کر رہی ہو کہ بد قسمتی نے اس کے دس سالہ بیٹے کو چور بنا دیا تو اس میں اس کا کیا قصور؟یہ تحصیل عارفوالا کے گاﺅں چک نمبر 67ای بی کی رہائشی روبینہ تھی جس کو گھریلو ناچاقی پر شوہر نے طلاق دی تو وہ پورے خاندان کے لیے ”شودر“ بن گئی۔ سسرال سے نکلی تو آخری امید والدین اور بھائیوں کے گھر تھے لیکن جیون ساتھی کے ساتھ چھوڑتے ہی عزیز رشتہ داروں نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ تین بچوں دس سالہ زاہد، ڈیڑھ سالہ عامر اقبال اور تین سالہ مہوش کو ددھیال اور ننھیال کی شفقت سے محروم ہوتا دیکھ کر بھی اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے جگر کے گوشوں کا پیٹ پالنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کردیا کہ زندگی کی ڈور قائم رہے لیکن قدرت کو شاید ابھی اس کا اور امتحان درکار تھا کہ اچانک سب سے چھوٹے بیٹے عامر کی کلکاریاں جو کہ روبینہ کی بچی کھچی خوشیوں کا واحد ذریعہ تھیں سسکیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ ڈیڑھ سالہ عامر بیمار کیا ہوا غریب اور لاچار ماں پر مصیبتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہی شروع ہوگیا اور اس کی لاچارگی کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب ڈاکٹروں نے اسے عامر کے عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کی منحوس خبر سنائی۔ روبینہ تو ماں تھی اعصاب پر گرنے والی اس بجلی کو بھی اولاد کے لیے جھیل گئی اور جو کچھ پلے تھا اٹھا کر تحصیل ہسپتال کے بچہ وارڈ میں جا پہنچی لیکن ماں کے خاموش آنسو عامر کے بڑے بھائی اور روبینہ کے بیٹے دس سالہ زاہد کو ایک ایسی ٹیس میں مبتلا کر گئے جس کہ تکلیف کا اندازہ شاید کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔

روبینہ اپنے بستر مرگ پر پڑے ڈیڑھ سالہ بچے کی زندگی بچانے کے لیے اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن کوشش میں مصروف تھی لیکن دس سالہ زاہد کا ذہن کہیں اور ہی الجھا ہوا تھا، اور پھر جب معمول کے مطابق ڈاکٹر بچہ وارڈ کا وزٹ کرنے آیا تو زاہد آنکھ بچا کر وہاںسے کھسک گیا۔ ایک طرف تو بھائی کی بیماری کا دکھ اس ننھی جان کو کھائے جارہا تھا تو دوسری جانب ضروری ادویات کے لیے بھی پیسے نہ ہونے پر ماں کے آنسوﺅں کی لڑی اس کے ذہن پر کچوکے لگا رہی تھی اس نے ایک آدھ راہگیر سے بھیک مانگنے کی بھی کوشش کی لیکن بے رحم معاشرے کی طرف سے دھتکار کے سوا کچھ نہ ملا، اور جب اسے کچھ نہ سوجھا تو ایک گلی میں پھرتے بکرے ہی کو چوری کرنے کی ٹھان لی لیکن بدقسمتی سے اہل محلہ نے اسے ”رنگے ہاتھوں“ پکڑ کر تھانہ سٹی پولیس کے حوالے کر دیا۔ بات ”تفتیش“ تک پہنچی تو بدقسمت زاہد نے وہ کڑوا سچ بول دیا جو زہر قاتل بن کر اندر ہی اندر سے اسے کھائے جارہا تھا۔ معاملہ عارف والا کے سٹی ناظم ظہیر اسلم گجر دیگر معززین کے ہمراہ ”ملزم“ کو لیکر ہسپتال پہنچ گئے لیکن وہاں جاکر جب حالات نے زاہد کے بیان کی تصدیق کی تو موقع پر موجود ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔ زاہد کے مطابق جب اس سے ماں کی بے بسی اور بھائی کی تکلیف نہ دیکھی گئی تو اس کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھانی لیکن پہلی ہی ”واردات“ اس کو سلاخوں کے پیچھے لے گئی۔

واقعہ میڈیا کے ہاتھ بھی لگا لیکن مقابلے بازی اور کمرشل ازم کے ہاتھوں مجبور اشاعتی اداروں کا ادارتی عملہ اسے واجبی سی جگہ دیکر اپنے فرض سے سبکدوش ہوگیا اور کسی نے بھی وقت کی بے رحم موجوں کے تھپیڑے سہتی ماں اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتے معصوم بچوں کی مشکلات سے پردہ اٹھانا گوارا نہ کیا۔ یہ جمعرات کی شام تھی کہ آفس سے برادرم سجاد جہانیہ نے معاشرتی نا انصافی کے شکار اس غریب خاندان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایات کچھ اس انداز سے دی تھیں کہ دن بھر کے معمولات کی وجہ سے تھکاوٹ کے باوجود بے اختیار ہاتھ ٹیلی فون کے ڈائلنگ پیڈ پر چلا گیا۔ عارفوالا میں اپنے دوست علی عمران جعفری کو معاملہ بتایا اور یوں فوری طور پر ہسپتال جانے کا پروگرام طے ہوگیا۔ ذہن میں تو یہی تھا کہ لفظوں سے کھیلتے کھیلتے ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ کسی بھی خبر کی طرح یہ کہانی بھی ہم پر کچھ زیادہ اثر نہیں کرے گی لیکن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ڈیڑھ سالہ عامر اقبال، دودھ کے لیے بلکتی تین سالہ مہوش، پولیس کے خوف سے سہمے دس سالہ زاہد اور اپنے مقدر پر نوحہ کناں ان کی ماں روبینہ کی حالت زار دیکھ کر ہم دونوں بھی دہل گئے اور پھر جب روبینہ نے ہمارے استفسار پر اپنی مجبوریوںسے پردہ اٹھانا شروع کیا تو لاکھ کوشش کے باوجود ہمارے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا۔

خبر کی اشاعت کے بعد سیاسی و سماجی رہنما بھی آئے، امداد کے وعدے بھی کئے، تسلی و تشفی اور ہمدردی بھی جتائی گئی، فوٹو سیشن بھی ہوئے اور سرکاری خرچے پر علاج کی یقین دہانی بھی کرائی گئی لیکن چھ روز گزرنے کے باوجود عملی اقدام ہوسکا نہ علاج اور فوری مطلوبہ ادویات کا بندوبست۔ ان پانچ چھ دنوں میں ہاتھ سے کام بھی جا چکا ہے اور کام کر کے کمایا دام بھی۔ میرا بیٹا چور نہیں،اس نے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔!روبینہ اپنی ببتا بیان کرتی ایک ساعت کے لیے رکی تو ماحول پر چھائی اداسی بھی اس کی غربت کا مذاق اڑاتی محسوس ہوئی۔ ان پانچ دنوں میں میں نے کیا نہیں کیا، کس کی منتیں نہیں کیں اور کس کے در پر جا کر نہیں بیٹھی۔ بے بس ماں ناقابل بیان سسکیوں میں بول رہی تھیں اور ہم دونوں ہونکوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کر رہے تھے کہ اسے تسلی بھی دیں تو کس طرح؟ صاحب جی! میرے دل کا ٹکڑا دل کی بیماری کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس کا بھی مریض ہے لیکن میرے پاس تو ایک گولی کے پیسے نہیں مہنگا علاج کہاں سے کرواﺅں؟ روبینہ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے یہ سوال کیا تو ہمارا رہا سہا صبر بھی جواب دے گیا۔ علی عمران اور ناچیز نے اپنی بساط کے مطابق اس کی مدد تو کی لیکن محض اتنی کہ شاید آٹے میں نمک کے برابر۔

ہم نے ایم ایس ڈاکٹر اشفاق کے کمرے میں ان سے ملاقات کے دوران مدعا بیان کیا تو انہوں نے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی تو کروادی لیکن ساتھ ہی ساتھ عامر کے علاج کے لیے مطلوبہ سہولتوں کے فقدان کا بھی بتایا، بعد ازاں رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر فرخ جاوید کی جانب سے بھی تعاون کی یقین دہانی سامنے آئی تو کچھ ڈھارس بندھی لیکن اس کے باوجود تا دم تحریر ذہن بچہ وارڈ کے ایک بیڈ پر پڑے عامر اقبال اور اس کی ماں اور بہن بھائی کی حالت پر ہی اٹکا ہوا ہے، ہماری درخواست پر کرائی گئی یقین دہانیاں واقعی حقیقت کا روپ بھی دھار سکتی ہیں اور عامر صحت یاب ہوکر (اللہ کرے) پھر سے مامتا کی خوشیوں کا گہوارہ بھی بن سکتا ہے لیکن یہ کسک کچوکے لگا رہی ہے کہ اگر اپنوں ہی کی ستم ظریفی کے سبب در بدر بھٹکتے بچوں اور ان کا پیٹ پالنے کے لیے گھر گھر کی ٹھوکریں کھاتی ماں کو کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ اگر بھوک سے بلکتی تین سالہ مہوش، ابتدا عمری میں ہی حد سے زیادہ حساس زاہد یا پھر دل میں سوراخ کے مریض عامر کو پھر کسی مصیبت نے آن گھیرا تو کون دوبارہ مدد کو آئے گا ؟ان سطور کے ذریعے مخیر حضرات اور ارباب اختیار سے بچوں کی خوشیوں کے لیے ترستی ماں کے لیے مدد کی استدعا کہ ساتھ صرف اتنی اپیل ہے کہ اگر کسی سے ہوسکے تو روبینہ اور اس کے بچوں کو مسائل کے گرداب سے نکالنے میں ہماری مدد کرے۔ اجر خدا تعالیٰ خود دے گا۔

نوٹ:تعاون کے لیے اکاﺅنٹ نمبر73831831000558، ایم سی بی، ڈیوس روڈ برانچ، ڈیوس روڈ لاہور۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.