میڈیا اور اس کی آزادی
(Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali, )
کسی بھی انسانی معاشرہ میں خبر
کی کلیدی حیثیت ہے جہاں صرف دو انسان بھی رہتے ہوں وہاں ان کے باہمی رابطہ
اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ خبر ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ پھر ایک گھر
سے لے کر گلوبل ویلی تک اربوں انسان اگرچہ ان کا تعلق کسی میڈیا ہاؤس سے نہ
ہو ہر لمحہ ،ہر قدم پر خبر لینے اور خبر دینے میں مصروف ہیں۔ خبر خواہ خوشی
کی ہو یا غم کی اس میں صداقت اور سچائی کو پیش نظر رکھا جانا اس کا کمال ہے۔
خبر پر فی الفور تھوڑے یا زیادہ اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ خبر جس کے ساتھ
ہر رنگ ،ہر نسل، ہر دین ، ہر مذہب کے لوگ منسلک ہیں، اسلام میں اس کے آداب
شرائط، تقاضوں اور نتائج کے بارے میں مستقل تعلیمات موجود ہیں۔ اتنے کسی
بھی معاشرے اور مذہب میں خبر کے ضوابط بیان نہیں کئے گئے جتنے اسلام میں
ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں خبر کا لفظ اس لئے بھی بڑا محترم ہے کہ اصطلاحی
طور پر فرمانِ رسولﷺ پر بھی خبر کا اطلاق ہوتا ہے اور حدیث اور خبر مترادف
الفاظ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ویسے بھی صحیفہ اور صحا فت(Journalism )
کے لفظی قرب سے صحافت اور خبر رسانی کے تقدس کو پہچانا جا سکتا ہے ۔ تاریخ
ِاسلام اور تشریحِ احکام میں خبر کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے ہم جس وقت
ماضی کے علماء کا تعارف پڑھتے ہیں تو ان میں بعض کے تعارف میں محدث، مفسر،
فقیہہ، صرفی،نحوی کے ساتھ اخباری کا تذکرہ آتا ہے۔ خبر جب کسی معاشرے کی
ریڑھ کی ہڈی ہے تو مراحلِ خبر میں چند چیزوں کو پیشِ نظر رکھنا نہایت لازم
ہے اول خبر دینے والے کا معیار،دوم خبر کے حصول کے ذرائع کی حیثیت، سوم جس
شخص یا قوم یا واقعہ کے بارے میں خبر دی جارہی ہے اس کی اہمیت ،چہارم جس
فرد یا طبقہ یا قوم کو خبر کا اِبلاغ کیا جا رہا ہے ان کے جذبات و احساسات
کالحاظ ، پنجم خبر کے ذرائع اِبلاغ کا دائرہ کار، ششم خبر کے نشر کرنے
کامناسب وقت ،ہفتم خبر دینے کا موزوں انداز۔ ان تمام امور کی تفتیش و تحقیق
سے خبر کے صحت مند اثرات مرتب ہوئے۔ اور کسی ایک امرمیں کوتاہی سے لمحوں
میں صدیوں کا نقصان ہو سکتا ہے مثال کے طور پر اگر باقی تمام امور میں چھان
بین کر لی جائے صرف خبر کے شائع اور نشر کرنے کے وقت کاانتخاب صحیح نہ کیا
جائے تو انسانی آبادی میں اس کے بڑے مہلک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں قرآن مجید
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ
کہیں کسی قوم کو بے خبری کی بنیاد پر تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کیے پر
پچھتاتے رہ جاؤ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 6 )
یہ صحیح نہیں ہے کہ ہر خبر سنسی خیزSensational) انداز میں مرچ مصالحہ لگا
کر نشر کی جائے اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ بہت بڑا پیغام یا اعلان باڈی
لینگویج(Body Language ) اور ہیئت کذائی کی تیاری کے بغیر دے دی جائے۔ عہد
جاہلیت کا حوالہ دیتے ہوئے حدیث شریف میں نہایت اہم اورخطرناک خبر سنانے
والے کے لیے ’’نذیرِ عُرْیان ،،کے الفاظ کا ذکر کیا گیا ہے۔نذیر عریان جب
کسی قوم کو خبر دینے جاتا تھا تو خبر کوزیادہ مؤثر بنانے کے لیے خبر دینے
سے پہلے اپنے کپڑے اتار دیتا تھا ۔تو لوگ اسے اس حالت میں دیکھ کر سمجھ
جاتے تھے کہ کوئی نہایت ایمر جینسی کس معاملہ ہے ۔اب اگرچہ کپڑے اتارنا تو
جائز نہیں ہے لیکن اہم خبر کے لیے کچھ نہ کچھ اہتمام کرنا ضروری ہے۔
عصر حاضر میں خبر کی ولادت، پرورش اور پرواز پرمشتمل جہاں کو میڈیا سے
تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس وقت خود مختار جاندار اور غیرجانبدار میڈیا کے بارے
میں بات ہو رہی ہے۔ آج ذرائع ابلاغ میں ترقی کی بنیاد پر خبررسانی کیلئے
کئی میڈیا ہاؤس بن گئے ہیں اور چینلوں کی بھرمار ہے پرنٹ میڈیا کیساتھ
الیکٹرانک میڈیا بھی آگیا ہے پھر اس کیلئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا
ریگولیٹری اتھارٹی (pemra) بھی قائم کی گئی ہے کسی ایک مقام کی خبر کسی ایک
شخص کے سامنے لفظوں کے روپ میں پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ بات مکمل طور پر
واقع کے مطابق ہو، بیان کرنے میں کوئی کمی یا اضافہ نہ ہو۔
یہ ضروری ہے کہ خبردہندہ امانت دار اور جرأت مند ہو، اسے خبر پر مرتب ہونے
والے مثبت اور منفی اثرات کا ادراک ہو اور خبرمناسب وقت پر پہنچائی جائے
اور اگر قلم اور زبان کے ساتھ کیمرہ بھی مل چکا ہو اور لفظوں کی منظر کشی
کے ساتھ ویڈیوز بھی ہوں اور خبر پوری قوم اور پوری دنیا کیلئے شائع، نشر
اور آن ایئر کی جا رہی ہو تو خود جان لیں کہ اخباراور ٹی وی کے ایڈیٹر،نیوز
ایڈیٹر، پروڈیوسر اور نیوز ڈائریکٹر براڈ کاسٹر کیلئے کتنی احتیاط کی ضرورت
ہے۔ یہ عمل تنے ہوئے رسّے پر سے گزر نے کا ہی نہیں بلکہ کبھی تو تلوار کی
تیز دھار پر چلنے کا ہے کہا جاتا ہے کہ نیزوں کے زخم مندمل(Heal )ہو جاتے
ہیں مگر زبان کے زخم صحیح نہیں ہوتے کیمرے کا منہ تو کبھی آگ اگلنے میں توپ
کے دھانے سے زیادہ کام کر جاتا ہے اور ٹی وی سکرین کی چمک کبھی آسمانی
بجلیوں سے زیادہ تباہی کا باعث بن جاتی ہیں بلا وجہ نہیں کہا جاتاکہ فلاں
خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کچھ خبریں تو اپنی حیثیت میں ہوتی ہی ایسی
ہیں لیکن اگر مذکورہ قواعد و ضوابط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اخباری رپورٹر
اور ٹی وی کا نیوز کاسٹر اور اینکر کا کردار ایسے ہی ہوگا جیسے بچے کے ہاتھ
میں ماچس ہو اور وہ دیا سلائی سے آگ لگانے کے عمل میں مصروف ہو اس وقت
پاکستان میں 80سے زیادہ ٹی وی چینل اور 160سے زیادہ ریڈیو اسٹیشن، بے شمار
اخبارات و جرائد اور میڈیا کا جہاں آباد کیئے ہوئے ہیں۔اور کم و بیش تین
لاکھ لوگ شعبہ صحافت سے منسلک ورکنگ جرنلسٹ(Working Journalist ) ہیں۔سوال
یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ہیں کہ جنہیں اس بات کا ادراک اور احساس ہو کہ وہ
کتنے بڑے منصب پر فائز ہیں اور کیا کیا ذمہ داریاں ان پر عائد ہورہی ہیں۔
کتنے ہیں وہ جو اپنے ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر ملی نظریات کے محافظ ہیں
یقینا آج کی صحافت کل کی تاریخ کا مسودہ ہے صحافت ریاست کا چوتھا ستون قرار
پایا ہے صحافت محض پیشہ نہیں ایک علم اور سائنس ہے ، صحافت امانت اور دیانت
کا دوسرا نام ہے، صحافت ایک آئینہ (Mirror )ہے جو معاشرے کا عکاس بھی ہوتا
ہے اور معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کو واضح بھی کرتا ہے لیکن اگر آئینہ بے
جان ہونے کے باوجود بھی غیر جانبدار رہے اور صحافی ذی روح اور اشرف
المخلوقات ہونے کے باوجود بھی زرد صحافت کا دھندا کرے تو پھر وہ خود ہی
اپنے آپ کو اپنے مقام سے گرانے والا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ میں
بے باک صحافت نے ظلم کی کئی راتوں کوایوان سحر میں تبدیل کرنے اور طوفانوں
کا منہ موڑنے میں جاندار کردار ادا کیا۔ کتنے وہ جرأت شعار لوگ ہیں جنہیں
قید و بند کی صعوبتیں اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹا سکیں یہ انہی اربابِ
صحافت کا کردارِ برحق ہے ۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
لیکن وہ کردار بھی کم نہیں جہاں خود غرضی اور مفاد پرستی نے صحافت کو
داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔صحافتی کرپشن اور میڈیانی اجارہ
داریوں نے کتنے اندھیروں کو سویروں کے مقابلے میں سپورٹ کیا؟کتنے گلشن
اجاڑنے کیلئے خزاؤں کا ساتھ دیا ؟ کتنے کنوؤں کو مینار بنا کر پیش کیا
۔اورکتنے ہیرو تھے جنہیں زیرو اور کتنے زیرو تھے جنہیں ہیرو بنا کے پیش کیا
پاکستان کے میڈیا کو یہ بات کبھی بھی نہیں بھولنی چاہیے وہ ایک اسلامی
مملکت کا نظر میڈیا ہے جس کی بنیاد دو قومی نظریے پر ہے ۔امن کی آشا کے عشق
میں ہندو نوازی اکھنڈ بھارت کی تڑپ اور نظریہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی
سوائے تباہی کے کچھ نہیں۔ میڈیا کی آزادی ایک انٹرنیشنل نعرہ ہے ۔اس سلسلہ
میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیرِ اہتمام تین مئی کو ورلڈ
پریس فریڈم ڈے (World Press Freedom Day )یعنی یومِ آزادی صحافت منایا جاتا
ہے ا سمیں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کی آزادی ہی عوامی ضمیر کی ترجمان بن سکتی
ہے ۔کیونکہ پریس کی آزادی کا مطلب عوام کے حق کا تحفظ ہے جو اسے آئین کے
تحت Right to know (جاننے کا حق )دینا ہے۔ میڈیا کی آزادی کا ہر حال میں
احترام ہونا چاہیے لیکن میڈیا کی آزادی کی کوئی حد بھی متعین ہونی چاہیے
ہمارے میڈیا کو آزادی کے لحاظ سے مغربی میڈیا کی تقلید نہیں کرنی چاہیے
کیونکہ ہمارا اور مغربی دنیا کا آزادی کی تعریف میں بھی اختلاف ہے ۔ان کی
آزادی کی تعریف کے زمرے میں مادر، پدر آزادی بھی شامل ہے وہ فریڈم آف
ایکسپریشن (Freedom Of Expression)کے نام پر انبیاء کرام علیہم السلام کی
توہین کو معاذ اﷲ اپنا آئین سمجھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہرگز ایسا نہیں ہے
ہمارے یہاں میڈیا کی آزادی کا مطلب یہ ہے جب مظلوم کی داد رسی کیلئے میڈیا
آواز بلند کرے تو ظالم کا پنجہ میڈیا کا گلا نہ دبا سکے۔ میڈیا جہاں بھی
اور جب بھی ملی اور قومی مفادات کے غاصبوں اور سوداگروں کو بے نقاب کر رہا
ہو تو کوئی سرکاری یا غیر سرکاری طاقت اس آواز کونہ دبا سکے لیکن میڈیا کی
آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میڈیا اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یا اپنی
جہالت کے اندھیرے میں حدود اﷲ کو پامال کرنا شروع کر دے، روحانی اور اخلاقی
اقدار کو روندنا شروع کر دے، اورمقدسات کی توہین و تضحیک کرے ایسی آزادی کا
مطلب بندر کے ہاتھ میں اُسترہ دینے کے سوا کچھ اور نہیں ہو گا ہمارے ملک کے
ٹی وی چینلوں پر کچھ ایسے اینکرز اور دانشور بھی بیٹھے ہیں جو سکرین پر آنے
سے پہلے امریکی حوض سے غرارے کر کے برطانوی میک اپ کے بعد بھارتی شیشے میں
چہرہ دیکھتے ہیں پھر کسی پسِ پردہ طاقت سے دادِ تحسین وصول کرنے کیلئے خود
ہی ملمّع کاری نہیں کرتے بلکہ مصروفِ گفتگو شخص کی بات کاٹ کے اپنا نقطہ
نظر اس کے منہ میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں ۔میڈیا کوریج کے قارون تحفظ
ناموس رسالت ﷺاور غازیوں ،نمازیوں کے اجتماعات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور
حیا سوزاور اخلاق باختہ پروگرامز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں آج انٹرٹینمنٹ
کے نام پر شرم و حیا کا جنازہ نکالاجا رہاہے عزت وعفت کے دامن تار تار کئے
جا رہے ہیں میرے گھر یا دفتر میں ٹی وی نہیں ہے لیکن لوگوں کی شکایات سن کر
یا بعض کرنٹ ایشوز پر اپنی رائے دینے کے لئے ٹی وی دیکھ کر صورتحال جاننے
کا اتفاق ہوتا ہے تو لگتا ہے ٹی وی مینجمنٹ کو ریٹنگ کے جنون نے انسان اور
مسلمان ہونابھلا دیاہے ویسے تو آج ہر طرف میڈیا وار اور یلغار کے چرچے
ھیں۔لیکن پچھلے دنوں جیو نیوز پر نام نہاد جوڑے کی شادی کی تقریب میں جو
توہینِ اہلِ بیت رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کاسنگین جرم کیا گیا اس نے قوم کو
مادر، پدر آزاد میڈیا کے بارے میں سوچنے پر مجبو ر کر دیا ہے اور یہ صرف
ایک بار ایک چینل پر نہیں ہوا بلکہ اس حمام میں اکثر چینلج ہی تھوڑے یا
زیادہ وقت کیلئے ضرور ننگے ہیں کہاں حضرت علی شیرِ خدا رضی اﷲ عنہ اور سیدۃ
النساء حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی مطہر اور معظم شخصیات
اور ان کی عظمتِ ولایت اور رفعتِ ہدایت کے زیرِ سایہ ہما پایہ شادی کی
نورانی تقریب اور کہاں یہ عریانی فحاشی اور ذلت و رسوائی کی سیاہی میں اٹی
بیٹھک جس پر سوائے قہرِخداوندی اور غضبِ الٰہی کے اور کچھ سوچا نہیں
جاسکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت میں جاندار کی تصویر بنانے کو کیوں
حرام قرار دیا گیا ہے آج پاکستان کے چینلز پر انڈین اور مغربی چینلز کی
نقالی یہود و ہنود کی دلّالی، لبرل اور نام نہاد روشن خیالی، لچر اور فحش
گانوں کے مقابلے، عریانی اور فحاشی کے اشتہارات اور مکالمے، نظریہ پاکستان
دشمن اور دین بیزار مذاکرے قومی سلامتی کے اداروں کی تضحیک کے مباحثے دیکھ
کر یہ کہنا بے جانہیں ہے کہ پاکستان کا میڈیا اپنے اکثر پروگرامز کے لحاظ
سے ایک بدبودار گندا نالہ بن چکا ہے جس کو اتنا صاف کرنے کی ضرورت ہے کہ
پانی شفاف ہوجائے پھر اس میں فرنگی جھیلوں کی نہیں حوضِ حجاز کی مچھلیاں
چھوڑی جائیں۔
حکومت الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے ’پیمراکو نئے خطوط پر
مذہبی انداز میں منظم کرے اور اس پر عمل درآمد کراکے الیکٹرانک اور پرنٹ
میڈیا میں جو عریانی فحاشی پھیلانے میں دوڑ لگی ہوئی ہے اس پر کنٹرول کرے
ورنہ میڈیا کی ایسی آزادی قوم کو بربادی کے گڑھے تک پہنچا دے گی ۔میری
وارثانِ منبرو محراب سے گزارش ہے طاقتورسے طاقتور میڈیا منبرو محراب کا
مقابلہ نہیں کر سکتا لہذا صدائے منبر و محراب سے میڈیا کو سدھارنے کا کردار
ادا کیا جائے ۔ |
|