ٹیپو سلطان کی انگوٹھی
(Shahzad Hussain Bhatti, )
20 نومبر 1750ء کو والی میسور
حیدر علی کے گھر پیدا ہونے والے شیر میسور ٹیپو سلطان سے منسوب سونے کی
41.2 گرام انگوٹھی گزشتہ دنوں لندن کے مشہور نیلام گھرکر سٹینز میں دو لاکھ
چالیس ہزار ڈالرز میں فروخت ہو گئی ۔اس خبر کو پڑھنے کے بعد دل جیسے سلطنت
میسور میں اٹک کر رہ گیاہوکہ کتنا عظیم مسلمان حکمران تھاجس کے نام سے
انگریزوں کی روح کانپ جاتی تھی۔میسور کی چوتھی جنگ 1799 ء میں ہوئی انگریز
فوج میں مراہٹوں کو ملا کر 50 ہزار فوجی سپاہی تھے ۔جن میں صرف 4000 گورے
تھے باقی سب دیسی فوجی تھے۔ یعنی تناسب 13 دیسی سپاہیوں کے ساتھ ایک گورے
فوجی کاتھا۔جبکہ مد مقابل ٹیپو سلطان کی فوج 30ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی جس
میں چند فرانسیسی افسران شامل تھے جو ٹیپو سلطان کی فوج کی تربیت پر معمور
تھے ٹیپو سلطان نے خود پندرہ سال کی عمر میں اپنی تربیت انہی فرانسیسی فوجی
افسران سے حاصل کی تھی ۔محض 17سال اقتدار میں رہنے والے ٹیپو سلطان کو شکست
سے دو چار کرنے والے غیر نہیں بلکہ اپنے تھے جنہوں نے سر ننگا پٹنہ کے قلعے
کے دروازے کھول کر اپنے ہی بادشاہ سے غداری کی۔
انگریز ایک مکار قوم ہے ہندوستان میں انکا فلسفہ Divide And Ruleتھا ۔انہوں
نے اپنے روایئتی مکاری سے ایک کھال کے برابر زمین کا معاہدہ کر کے اسکو
دھاگے کی شکل دے کر ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا ۔اور تجارت کی آڑ میں
اسلحہ لا کر مقامی سرداروں اور گاوٗں کے بڑوں کو جائیدادیں الاٹ کرنے کا
لالچ دے کراپنے ساتھ ملا لیا اور پھر غریبوں کا استحصال شروع کر دیا
انگریزوں نے اپنی روائتی سازشیں جاری رکھی اور جو ٹکرا گیا اس سے معاہدہ کر
لیااور بعد ازاں اسکو توڑنے کی سازشیں شروع کر دیں۔اور آخر اسکو بھی توڑ
دیا۔انگریزی فوج اور پولیس کا رعب اور دبدبا اتناہوتا تھاکہ کسی گاوٗں میں
اگر سرکاری چپڑاسی بھی آجاتا تو گاوٗں والے اسے وی آئی پی پروٹوکول دیتے
اور اسکی دعوتیں ، خاطر مدارت اور چپڑاسی صاحب کے لیئے پورا گاوٗں چندا بھی
اکٹھا کرتا۔
تاریخ اسلام گواہ ہے ۔کہ مسلمانوں کو ہمیشہ مار اپنوں کے ہاتھوں ہی پڑی ہے
۔ٹیپو کو سر ننگاپٹنہ کے قلعے میں محسور ہونے کے بعد مشورہ دیا گیا۔کہ وہ
قلعے کی سرنگوں سے بھاگ جائیں اور پھر مناسب وقت دیکھ کر انگریزوں اور
مراٹھوں سے انتظام لیں۔مگر اس دلیر ،بہادر اور نڈر سپہ سالار نے کہا کہ شیر
کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ۔یہاں یہ بات صد
افسوس ہے ۔کہ آج اس عظیم بادشاہ کی اولاد میسور میں سائیکل رکشہ چلا رہی
ہے۔اور بھارت جیسے سیکولر ملک میں تاریخ کے ان مسلمان سپوتوں کے لیئے کوئی
جگہ نہیں۔
بھارت کو تو چھوڑیئے پاکستان میں کونسا ہم ہیروز کو انکی جائز عزت و احترام
دیتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ہم نے اسلام کے عظیم ہیروز کے
کارناموں کو اپنی نصابی کتابوں سے اغیا ر کے کہنے پر باہر نکال دیا ہے۔تاکہ
ہماری آنے والی نسلیں مسلم نشاتہ ثانیہ اور عظیم ہیروز کے کارنامے نہ پڑھ
سکیں۔حالانکہ جتنا علم و ہنر مسلمانوں کے پاس تھا۔مغرب خصوصا یورپ آج بھی
ان سے استفادہ کر رہا ہے ۔تاریخ میں جتنے نامو رمفکر ، شاعر ، دانشور ، اہل
علم اور سائنسدان سب مسلمان تھے۔آج اغیار کے کہنے پر ہم نے محض اس وجہ سے
23 مارچ کو یوم پاکستان منانا چھوڑ دیا ہے ۔کہ اسلحے کی نمود و نمائش سے
جہادی عناصر کو تقویت ملتی ہے۔آخرہم کہا جا رہے ہیں اور ہما را مقام انتہا
کیا ہے ؟۔بحثیت قوم ہم معاشرتی طور پر اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔کہ جہاں سے
ہماری واپسی نا ممکن دیکھائی دے رہی ہے ۔ہمارے ہاں تعلیم پر تو بہت زور دیا
جاتا ہے کہ بچوں کواعلی تعلیم دلوائی جائے مگر کیا ہم نے تربیت پر بھی زور
دیا ہے ۔کہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہونی چاہیے ۔ہماری نوجوان نسل جینز تو
پہن رہی ہے مگر گھر میں کوئی مہمان آ جا ئے تو اے سلام کرنا نہیں سکھایا
گیا ۔تربیت کے فقدان کی وجہ سے ہی آج چھوٹے بڑے کا لحاظ ختم ہو گیا
ہے۔اخلاقی پستی میں ہم اتنے گر چکے ہیں کہ اغیار کے رہن سہن کو تو اپنانے
کی کوشش کرتے ہیں۔مگر اپنے ورثے کو پس پشت ڈالے ہو ئے ہیں۔
ــــ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
آج ہم ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی اتنی اخلاقی جرات نہیں رکھتے کہ بحثیت قوم
برابری کی سطح پر اپنی پالیسیاں ترتیب دے سکیں۔ قومی لیڈروں کو چاہیے کہ وہ
قوم کو عزت اور باوقار مقام دلانے کے لیئے اسکی صحیح خطوط پر تربیت اور
رہنمائی کریں تاکہ ایک غیور قومعرض وجود میں آسکے ۔
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
جنگیں ہتھیاورں سے نہیں بلکہ متحد قوم بننے سے لڑی جا سکتی ہیں۔ایران
امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کھڑا ہے ۔کیوں؟ صرف اس لیئے کہ وہ ایک
متحد قوم ہے اور زندہ قومیں کھبی اپنی خود مختاری کا سودا نہیں کرتیں ہم
بحثیت قوم پاکستانی نہیں ہیں بلکہ ہم سندھی،پنجابی، پٹھان اور بلوچ
ہیں۔ہماری لیڈر شپ نفرت کا بیج بوتے ہوئے Divide And Rule کے فلسفے پر عمل
کرکے ہمیں لسانی دھڑوں میں تقسیم کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے انفرادی فوائد
حاصل کر سکیں ۔بحثیت قوم ہمیں جاگنا ہو گا ۔کیونکہ شیر کی ایک دن کی زندگی
گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے ۔ |
|