ہماری غیرت کہاں مر گئ
(mohsin shaikh, hyd sindh)
پاکستانی میڈیا نے بہت شور مچایا۔
انٹر نیشنل میڈیا نے بھی نیٹ پر خوب واویلا کردیا۔ ہائی کورٹ کے احاطے میں
ایک خاتون فرزانہ کو اس کے باپ بھائیوں اور عزیزوں نے اینٹیں مار مار کر
قتل کردیا، میں اس واقعہ پر اپنے اندر کئی بار مر گیا ہوں، یہ نہیں ہونا
چاہیے تھا۔ بھارت کے شہر دہلی میں ایک منٹ میں چھ سے سات ریپ ہوتے ہیں اور
دنیا والوں کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں ہمارا میڈیا ایسے واقعات کو
خوب اچھالتا ہے اور اس محنت اور خدمت کے لیے معاوضہ طلب کرتا ہے، ہم کس طرف
جارہے ہیں، قارئین
ہمارے لوگ چند سکوں کے لیے اپنے پاسپورٹ بیچ دیتے ہیں دوسرے ملک کی شہرت دے
دیتے ہیں۔ ہماری غیرت کو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، یہ جملہ پاکستان میں بہت
مشہور ہوچکا ہے کہ پاکستانی اتنے بے غیرت ہیں کہ ایک ڈالر کے لیے اپنی ماں
تک کو بیچ دیتے ہیں، ماں دھرتی کا بھی سودا کرلتیے ہیں، معذرت کے ساتھ عرض
کرتا ہوں کہ ہم ایسے لوگ بن گئے ہیں جن کا ضمیر ایمان غیرت حب الوطنی احساس
ذمہ داری احساس زیاں سب کچھ ختم ہوگیا ہے،۔ فرزانہ کا شوہر جو شور کررہا ہے
سنا ہے اس نے اپنی پہلی بیوی کو قتل کردیا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے
اینٹیں مار کر نہیں ایک اینٹ سے ماردیا ہوگا، اس کی کہیں سے کوئی خبر وبر
نہیں آئی، فرزانہ نے اپنے باپ بھائیوں کے مشورے کے بغیر اپنے شوہر سے
روابطہ بنائے اور پھر شادی کرلی۔ ہماری روایت طرز معاشرت اسلوب زیست میں یہ
بات کس حد تک جائز ہے، فرزانہ کا قتل ایک ناجائز قدم ہے۔ ایسے جائز سمجھنے
والے اپنی بیٹیوں کو ایسی حرکات و سکنات کی اجازت کبھی نہیں دیں گے، بھلا
کون چاہے گا کہ ان کی بیٹیاں گلیوں اور بازاروں میں جو دل چاہے کرتی پھرے-
امریکی صدر ابامہ نے اپنی بیٹی کو انٹر نیٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی
اور کہا کہ جب تم 18 سال کی ہوجائو تو پھر یہ فیصلہ کرو کہ کس چیز کا
استعمال کس طرح کرنا ہے، صدر ابامہ کو کسی نے غیرت کا طعنہ دیا؟ امریکی
اہلکار خاتون فرزانہ کے لیے پاکستان کو للکار رہی ہے، مگر اپنے صدر سے
احتجاج نہیں کرتی کہ اس نے کیوں امریکہ کی ایک بیٹی پر ناجائز پابندی لگائی،
وہاں عورتوں پر اتنی زیادتیاں ہوتی ہیں مگر میڈیا پر کوئی واویلا نہیں ہوتا،
ہماری این جی اوز فرزانہ کے نام پر فنڈز وصول کریں گی اور ہم داد وصول کرنے
کے لیے کالم لکھے گے، ڈاکٹر عامر لیاقت نے بھی اس پر پورا کالم لکھ دیا ہے،
مگر وہ چاہیں گے کہ ان کی بیٹی بھی وہی کریں جو فرزانہ بی بی نے کیا ہے، ہم
بار بار اسکی مذمت کرتے ہیں۔ یہ کارو کاری اور غیرت کے نام پر ظلم بند ہونا
چاہیے، مگر اس طرح پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش اور سازش بھی بند ہونا
چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف شہباز شریف چیف جسٹس نے نوٹس لیا پر نتیجہ صفر رہتا
ہے، اخر کیوں اور کب تک مجرموں کو عبرت ناک سزا کیوں نہیں ملتی، اس کے لیے
میرا درد مندانہ اور عاجزانہ خیال ہے کہ عدالتیں اور سول سوسائٹی بھی تعاون
کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائے، اپنی روایت اقدار اخلاقیات اور
ایمانیات کو دلوں میں راسخ کیا جائے، سچی پاکستانیات کا احساس بھی پختہ
ہونا چاہیے، ہم مغربی نقالوں میں اتنا آگے نہ بڑھ جائیں کہ پھر اپنے آپ کو
سمیٹنا ممکن ہی رہے، شادی بیاہ زندگی کا معاملہ ہوتا ہے، یہ سب گھر والوں
کی مشاورت سے طے ہونا چاہیے، اگر کوئی لڑکا یہ لڑکی اپنے طور پر فیصلہ
کرلیں تو انہیں اپنے گھر والوں کو بھی شامل کرلینا چاہیے تو اس سے رحمت اور
برکت پیدا ہوجاتی ہیں، خاص طور پر خواتین اس حوالے سے محتاط اور ثابت قدم
رہیں، مغرب میں اپنے طور پر شادی کا نتیجہ صرف طلاق پر ختم ہوجاتا ہے، اور
اگر دوسرے فیصلے میں شامل ہوجانیں تو کچھ بچت ہوجاتی ہیں، اور گھر اجڑنے سے
محفوظ رہتے ہیں، رشتوں کی صداقت اور طاقت کا جو معیار ہمارے ہاں ہے وہ کہیں
اور نہیں ہے، کوئی مرد کہیں بھی مرجائے تو اسے اس کے بہن بھائیوں کے پاس ہی
لے جایا جاتا ہے، اپنے ہی ایک دوسرے کے لیے قربانی دیتے ہیں اور اپنی جان
تک قربان کردیتے ہیں-
میں نے ایک باپ کو دیکھا وہ روزانہ اپنی بیٹی کو یونیورسٹی لے جاتا اس کی
کتابیں بھی خود اٹھاتا اور واپسی پر اسے گھر لے آتا، اور اسکی شادی کے لیے
بھی اچھا سوجتا رہتا اور اگر بیٹیاں بھی اپنے باپ کے جذبات کا ذرا بھی خیال
نہ کریں تو یہ کسی بھی طور اچھی بات نہیں ہے، شادی کارڈوں پر یہ جملہ پڑھیں
اور سوچیں۔ آيئں ہمارے ساتھ مل کر بیٹی کو دعائوں کے ساتھ رخصت کریں ۔ بیٹی
کی رائے کا احترام کرنا بھی بہت ضروری ہے، اور بیٹیوں کو بھی اپنے بڑوں کے
جذبات کا خیال رکھنا چاہیے، چیف جسٹس نے فرزانہ کے قتل کا نوٹس لیا ہے انکا
شکریہ مگر بیٹی کے باپ کے لیے کوئی انصاف ہے؟ اسے قتل کی سزا دیں نواز شریف
نے بھر پور کارروائی کا آغاز کیا یہ اچھی بات ہے لیکن معاشرے میں روایات
اخلاقیات ایمانیات کو لاوارث نہیں چھوڑا جائے۔ اقدار کو مرنے نہیں دیا
جائے، کیا ہر بیٹی کو اجازت ہے کہ وہ جو چاہے کرتی پھریں کوئی ایسے روکنے
ٹوکنے والا نہ ہوں،اور پھر اس کا من پسندیدہ شوہر کچھ مدت کے بعد اسے دھکے
دے کر نکال دیں اور پھر ماں باپ کا گھر ہی اس کی پناہ گاہ بنے، کسی شخص کی
بیٹی کو اغوا کرلیا جائے تو یہ ظلم ہے، اور اگر بیٹی خود گھر سے بھاگ جائے
تو اسے کیا کہا جائے گا، یہ سوشل معاملات ہیں۔ ان کو اسلام کے کھاتے میں
ڈال کر بدنام کرنے کی مہم کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے، کسی بھی واقعے کی
تحقیق نہیں ہوتی بس شور مچایا جاتا ہے، اور جب اصل حقائق سامنے آتے ہیں تو
خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ مختاراں مائی کے معاملے کو خوب اچھالا گیا، آج
وہ ایک بین الاقوامی شخصیت بن گئی امیر کبیر ہوگی، اس کے لیے جو کہانیاں
بنائی گئیں وہ ساری کی ساری غلط ثابت ہوئی، اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا
واقعہ جھوٹا تھا سب ملزم بری ہوگے، بس اتنا ہوا کہ مختاراں مائی اسلام دشمن
پاکستان مخالف فارن فنڈزاین جی اوز کی چہتی عالمی اشرافیہ کی لاڈلی ہوگئ یہ
ڈرامہ ملالہ یوسفزئی نے کیا اور آج وہ گوروں کی اشرافیہ کی لاڈلی اور چہتی
بن چکی ہیں اور ٹھنڈے ٹھار ملک امریکہ میں شہانہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی بسر
کررہی ہیں، انہوں نے اس حوالے سے اسلام اور پاکستان کے خلاف پرو پیگنڈہ
کیا-
ماں باپ بھائیوں کو صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے انتہائی اقدام سے گریز
کرنا چاہیے، مگر بیٹی کو بھی اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ بیٹی ہے، عورت
کی دو خواہشیں ہوتی ہیں دلہن بننا اور ماں بننا۔ یہ دونوں رشتے رشتوں کے
درمیان ہی اچھے لگتے ہیں، اپنی سہیلیوں اور بہن بھائیوں کے ساتھ دلہن کے
روپ میں بیٹیاں بہت اچھی لگتی ہیں، میں اپنی دنیا اور دل کی ریاست کی ملکہ
بنوں گی جب میری شادی ہوگی تو میں پھولوں کی خوشبو کی طرح بکھر جائوں گی،
شادی گھر والوں کی محبت کے سائے میں ہوتی ہے گھر سے بھاگ کر نہیں، ہمیں
بھاگنے والیوں کی زندگی اور موت پر افسوس ہے، ملزم کیوں بچ جاتے ہیں یہ
وارداتیں ختم کیوں نہیں ہوتیں انکوائری کیوں نہیں ہوتی یہ سفاکی کیا ہے اور
چالاکی کیا ہے،؟ اب غیرت اور عزت بھی کاروبار بن گیا ہے- |
|