پاکستان کی انارکلی فرزانہ پروین

سنا تھا کہ انار کلی اکبر بادشاہ کے دربار میں ایک کنیز تھی۔ جب اکبر بادشاہ کو شک ہوا کہ انارکلی کے افعال کی وجہ سے شہزادہ سلیم کے اخلاق بگڑنے کا خدشہ ہے تو اکبر نے انارکلی کو دیوار میں چنوایا۔ جبکہ کچھ مورخین کو اختلاف ہے کہ انار کلی کو دیواروں میں نہیں چنا گیا تھا بلکہ انہیں زندہ جلادیا تھا۔ کچھ لکھتے ہیں کہ اسے کال کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا تھا اور بعد میں وہ وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اگراکبر بادشاہ کے زمانے میں پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا ہوتا تو یقیناًانار کلی کے بچنے کے امکانات روشن ہوتے یا پھر انار کلی اکیلے حالات کی چکی میں نہ پستی۔ کیونکہ میڈیا ایک ایسی طاقت ہے جو کسی بھی معاشرے کی اچھائی اور ہر طرح کی برائی کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

ذرا سوچئے اگر اکبر بادشاہ کے زمانے میں میڈیا اتنا آزاد ہوتا جتنا کے آج ہے تو جب اکبر شہزادہ سلیم کو انارکلی سے بچائے کے لئے اسے دیوار میں چنوانے کا حکم دینا اور کوئی درباری چپکے سے یہ خبر میڈیا تک پہنچادیتا تو پوری دنیا میں اکبر بادشاہ کے ظلم و ستم کی داستان مشہور ہوجاتی ۔ پھر مجبورا بادشاہ کو اپنا حکم معطل کرنا پڑتا یا انار کلی کے ساتھ ساتھ پورے میڈیا کو بھی کو دیواروں میں چنوانا پڑتا ۔ ظاہر ہے جو کہ ناممکنات میں سے ہے۔ اس طرح انار کلی بچاری بچ جاتی یا پھر مسئلے کا کوئی اور حل نکل آتا۔ خیر چھوڑئیے جو انارکلی کے ساتھ ہونی تھی ہوگئی جو اکبر بادشاہ کو کرنا تھا اس نے کرلیا مگر یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں میڈیا کا کردار کیا ہے؟؟ کیا ہمارا میڈیا کسی مظلوم کو انصاف دلا رہا ہے؟ کسی کی فریاد سن رہا ہے؟ نہیں۔۔۔

اب بھی کچھ نہیں بدلا،آج بھی وہی حالات ہیں جو پہلے زمانے میں تھے۔ کیوں آپ کو یقین نہیں آرہا ۔ لگتا ہے آپ نے چند روز قبل پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں پر غور نہیں کیا ۔ چلیں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ چند دن پہلے خبر آئی تھی کہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی فرزانہ نے اقبال نامی شخص سے پسند کی شادی کی تھی اور وہ جب اپنے مقدمے کی سماعت کے لئے لاہور ہائی کورٹ پہنچی تو پہلے سے گھات لگائے اس کے بھائیوں نے اس پر اینٹوں سے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں فرزانہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی جب کہ ملزمان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ امدادی ٹیموں کے اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر لڑکی کو اسپتال منتقل کردیا تھا لیکن ڈاکٹرز کے مطابق سر میں شدید چوٹیں لگنے کے باعث لڑکی کی موت واقع ہوچکی ہے۔

یہ خبر سن کر مجھےبے حد افسوس ہوا ۔ ہم اکیسویں صدی سے بھی آگے نکل چکے ہیں لیکن آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ ہمارے ملک میں ظلم و ستم کی داستانیں معمول بن چکی ہیں ۔ لیکن اس بار تو حد ہی کردی ،کیونکہ فرزانہ عدالت میں انصاف کیلئے آئی تھی ،لیکن اس بیچاری کو انصاف تو نہ مل سکا لیکن انصاف کی دہلیز پر پہنچ کر موت مل گئی،حالانکہ عدالتوں کی حدود کے اندر سیکورٹی پر کروڑوں روپے خرچ کیئے جارہے ہیں لیکن پولیس کی وہی پرانی بے حسی کہ جب بندہ مرجاتا ہے یاکوئی واقعہ سرزد ہوجاتاہے توفوٹوسیشن کیلئے پولیس موقع واردات پر پہنچ جاتی ہے ۔اگر اس ملک میں ایک شخص جو غیر مسلح ہے اور عدالت کے احاطہ میں کسی کو مار کر آسانی سے فرار ہوجاتا ہے تو کلاشنکوف برادران سے پولیس عوام کو کیسے محفوظ رکھ سکتی ہے؟آئی جی پنجاب نے سیکورٹی پر معمور ان اہلکاروں کیخلاف کاروائی کیوں نہیں کی ؟،اور مزید حیرت تو یہ کہ پولیس ملزمان کو اب تک گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔

مجھے مزید دُکھ تب ہوا جو این جی اوز خواتین کے نام پر عیش کررہی ہیں انہوں نے بھی اس واقعہ کیخلاف کوئی احتجاج یا ریلی نہیں نکالی ،اگر کسی غریب خاندان کی بچی گینگ ریپ کا شکار ہوجاتی ہے تو این جی اوز اس کی عزت کو یا اسکی بدنامی کو اتنا اچھالتے ہیں کہ وہ بیچاری عورت معاشرہ میں رہنے کے قابل نہیں رہ سکتی اور خواتین کی آزادی کا راگ الاپنے والی این جی اوز بھی خاموش دکھائی دیتی ہیں ،رائیٹر کا مقصدکسی این جی اوکی دل آزاری نہیں کرنی بلکہ اسلام بھی عورت کو شادی کیلئے اپنی رضامندی کااظہار کرنے کا حق دیتاہے۔اب بھی وقت گزرانہیں ہے سوئی ہوئی این جی اوز فرزانہ کیلئے جاگ اٹھیں حال ہی میں کراچی کے شازیب کا واقعہ پیش آیاتو سول سوسائٹی ،این جی اوز،طلباء ،وکلا اوردیگر عوام نے جس طرح سے احتجاج کیا اور ایک پاور فل آدمی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ،اگر اب بھی فرزانہ کے کیس کو سول سوسائٹی ،این جی اوز،وکلاء ط،لباء تنظیمیں ،ہیومن رائٹس کے عہدیدران میدان میں نکل آئیں تو ہزاروں ایسی فرزانہ کو بچایاجاسکتا ہے ۔ ۔حالانکہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ ہر شخص کی آنکھ اشکبار ہوگئی ،لیکن کسی نے بھی آگے بڑھ کر کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا ۔ مجھے تمام لوگوں سے صرف ایک ہی جواب چاہئے کیوں؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں اتنی خاموشی آخر کیوں ہے؟
Rana Muhammad Zeeshan
About the Author: Rana Muhammad Zeeshan Read More Articles by Rana Muhammad Zeeshan: 8 Articles with 6862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.