وقت اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ایک ایسی عجیب
نعمت ہے جو دنیا کے ہر شخص کو اْس کی موت تک برابر ملتی رہتی ہے۔ یعنی اﷲ
تعالیٰ کی دوسری نعمتیں کسی کو کم ملتی ہیں توکسی کو زیادہ جبکہ وقت ایک
ایسی نعمت جو دنیا کے ہر انسان کو چاہے مسلمان ہو یا کافر، برابر برابر
ملتا ہے۔ ہر کسی کو سال میں بارہ مہینے، مہینے میں چار ہفتے، ہفتے میں ۷ دن
اور دن میں ۲۴ گھنٹے ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ
کسی بھی قیمت پر خرید نہیں سکتے۔ یہ انسان کا ایسا محفوظ سرمایہ ہے جو اس
کو دنیا اور آخرت میں نفع دیتا ہے۔ دنیا میں انسان اگر کسی قیمتی چیز کو
کھو دے تو امید ہوتی ہے کہ وہ چیز شاید اسے دوبارہ مل جائے بلکہ بعض اوقات
مل بھی جاتی ہے لیکن وقت ایسی چیز ہے جو ایک بار گزر جائے تو پھر اس کے
واپس آنے کی ہرگز امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں
آتا۔یہی قیمتی اور کار آمد وقت آج کل نوجوان فیس بک اور وہاٹس اپ میں گھنٹو
ں صرف کرکے برباد کر رہے ہیں، جب کہ ایمان والے کا ہر لمحہ قیمتی ہے اگر یہ
وقت قیمتی جگہ صرف ہوگا مثلاً دین اور اسلامی شریعت کو سیکھنے سمجھنے میں
تو یہ وقت قیمتی بھی بنے گا اور ثواب کا ذریعہ بھی،اور غیر ضروری کاموں میں
صرف ہوگا وبال کا ذریعہ بنے گا۔ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے
فرمایا ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جنہیں اکثر لوگ ضائع کرتے ہیں، صحت اور فارغ
وقت‘‘ (بخاری)۔
انٹرنیٹ کی مفید معلوماتی دنیا میں کچھ تاریک گلیاں ایسی بھی ہیں جہاں
عریانیت اور فحاشی سے متاثر ہونے والوں کی اخلاقی اقدار کی تباہی کا سارا
سامان موجود ہے۔اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے،آج کل کے والدین کی اہم ذمہ
داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دن بھر کی مشغولیات کی روزانہ کار گزاری لیں
اور ساتھ ساتھ ان کویہ نصیحت بھی کریں کہکہ اپنے نفس کو قابو میں رکھنا اور
اسے گناہوں اور برائیوں سے بچانا ہر مسلمان کا فرض ہے اور تنہائی میں بھی
حرام کاموں سے بچنا بہت ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب شعوری طور پر ہر
مسلمان اور خاص کر نوجوانوں میں یہ احساس بدرجہ اتم موجود ہو کہ اﷲ اسے اس
کی تنہائی کے باوجود دیکھ رہا ہے اور اس کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ آخرت کی
جوابدہی کا احساس بھی اس کام میں بڑی مدد دیتا ہے۔آج کے ماں باپ کو اگر
مثالی والدین کا درجہ حاصل کرنا ہو تو اپنے بچوں کی ابتداء ہی سے ایسی
تربیت کرنی چاہیے کہ وہ ہر برائی سے دور رہیں اور ہر اچھائی کو اختیار کریں،
خواہ برائی اختیار کرنے کے لیے کتنے ہی مواقع کیوں نہ میسر ہوں۔موبائل اور
انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت بھی یہی اصول مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ہماری
نوجوانوں سے بھی استدعا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو مثبت مقاصد کیلئے استعمال
کریں اور اس بڑھتی ہوئی برائی کو ہر طریقہ سے روکنے کی کوشش کریں کی جو
ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں زہر کی طرح سرایت کر رہی ہے اور معاشرتی و
اخلاقی انحطاط کا باعث بن رہی ہے ،اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے
عطا کردہ اس قیمتی سرمائے کو کس طرح استعمال کرتے ہیں یعنی اس سے نفع
اْٹھاتے ہیں یا نقصان۔ |