میں ملالہ نہیں۔۔۔۔۔

خُدارا باقی ملالاؤں کو بچا لیجیئے

چاند چہرہ ستارہ آنکھیں ، کُشادہ اور جگمگاتی پیشانی،آنکھوں میں مستقبل کے سُنہری خواب ،آواز میں توپوں کی سی گھن گھرج اور کُچھ کر لینے کا عزم ، عزم و استقلال اور ہمت کی منہ بولتی تصویر ، جی ہاں ! ملالہ ، ملالہ یوسف زئی ،جس نے اپنے عزم و ہمت سے یہ بات ثابت کر دی کہ تعلیم اس دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار اور عورت بھی اس کی محافظ ہے ۔جس نے بتا دیا کہ عورت اتنی حقیر نہیں کہ اُس کے ساتھ جو چاہے سلوک کیا جائے اور وہ چپ کی تصویر بنی اس ظم و ستم کو سہتی رہے۔ اپنے ہر خطاب میں اُس کا عزم کہ عورت مضبوط ہے اور تعلیم سے قوموں کا مستقبل بدلاجا سکتا ہے ۔جس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو لوگوں کے ساتھ حکومت نے بھی اُس کا ہاتھ پکڑا ، اُس کو تحفظ دیا اُس کو علاج کے لئے بیرونِ ملک بھجوایا اور اب وہ اور اُس کے ساتھ زخمی ہونے والی اُس کی بقیہ ساتھی بھی اپنا مُستقبل روشن کر رہی ہیں۔
یہ بات تو تھی اُس ملالہ کی جس کو ساری دنیا جانتی ہے لیکن میں آئے دن ایسی بہت سی ملالاؤں کو دیکھتی ہوں جن کو دنیا نہیں جانتی مگر وہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی ہیں کبھی مذہب، کبھی غیرت اور کبھی قوم کے نام پر مگر اُن کا پُرسانِ حال نہیں کیونکہ وہ ملالہ نہیں۔

ہمارے ملک میں بچے اور بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی خبریں آئے دن ٹی۔ وی اور اخبارات کی زینت بنتی ہیں جس پر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں خاموش اور جو ہو رہا ہے ہونے دو کی مُجسم تصویر ہیں ۔ وہ زیادتی چاہے لاہور کی ۵ سالہ ننھی بچی کے ساتھ ہو یا کراچی میں اپنے ہی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کی جانے والے بچی کی ۔ مگر اُن کے گھر کی اس قیامت کو دیکھ اور سن کر دو بول ہمدردی کے کسی بڑے انسان کے منہ سے نہیں نکلے کیونکہ وہ ملالہ نہیں۔

ملک میں تیزی سے بڑھتے عفریت کی طرح زیادتی کی خبریں اب جیسے کوئی عام سی بات ہو کر رہ گئی ہیں۔ ٹی۔ وی پر دس میں سے چار خبریں اسی کے متعلق ہوتی ہیں جس میں اس ظلم کا شکار کبھی بچے، بچیاں اور کبھی عورتیں بنتی ہیں ۔ اپنے داغ دار دامن کو دنیا سے حتیُ الامکان چھپانے کی سعی کرتے یہ لوگ کس کے در پر جا کر نوحہ کناں ہوں ؟ کس کے آگے فریاد کریں ؟ کس کا گریبان پکڑیں ؟ اور کس سے انصاف چاہیں ؟ کیونکہ ان کی دکھ بھر داستان سن کر اور دیکھ کر لوگ تھوڑی دیر کے لئے تو ہمدردی کرتے ہیں مگر پھر اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو جاتے ہیں ۔ اور وہ ساری زندگی اپنی زندہ لاش کو گھسیٹے رہتے ہیں اور صرف فریاد ہی کرتے رہتے ہیں کہ حکومت ایسا کرنے والوں کو زندہ کیوں نہیں جلا دیتی؟ ان کو پھانسی کیوں نہیں چڑھا دیتی؟ ان کو لوگوں کے لئے ایسا نشانِ عبرت کیوں نہیں بنا دیتی کہ اس گھناونی حرکت کا سوچ کر ہی انسان کی روح کانپ جائے؟ کیوں تحفظ نہیں دیا جاتا؟ کیونکہ وہ ملالہ نہیں ۔

آپ بتائیے معاشرے میں ان لوگوں کاکیا قصور ہے؟ کیا لوگ انھیں عزت دے سکیں گے؟ کیا ان پر تعلیم اور آزادی کے دروازے کھل سکیں گے؟ کیا ان کوکبھی تحفظ کا احساس بھی باقی ہو گا؟ نہیں !کیونکہ وہ ملالہ نہیں۔

بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والے لوگوں کے لواحقین کا کوئی پرسانِ حال نہیں کوہاٹی بم دھماکے میں دو معصوم بچے جن کے ماں باپ اس دنیا سے چلے گئے وہ کس کے در پر اپنا سکون تلاش کریں گے؟اُن کی تعلیم اور باقی ضروریات کا کیا ہو گا؟ کیا حکومت یا کوئی ان کے لئے کچھ کرے گا ؟ کیا ان کی آواز بھی سیاسی جماعتوں کے کھوکھلے نعروں میں دب جائے گی ۔یہ ساری زندگی اپنے جانے والوں کا ماتم کرتے رہیں گے اور کوئی کچھ نہیں کرے گا ۔کیونکہ یہ ملالہ نہیں۔

میرے اس مضمون کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ملالہ کے تحفظ کے لئے جو کچھ کیا گیا وہ غلط تھا ؟ ہر گز ہر گز نہیں وہ فخرِ پاکستان ہے۔مگر خدارا اُن بچے اور بچیوں کا بھی سوچئیے جو اس طرح کے ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں ، پریشان ہیں ، دکھ اور تکلیف میں ہیں مگر یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ چونکہ ہم ملالہ نہیں اس لئے حکومت ہمارے لئے کچھ نہیں کر سکتی ۔ اُسے دہشت گردوں نے گزند پہنچائی تو وہ اور اس کے ساتھی ملک سے باہر بھیج دئیے گئے ہمارا کیا قصور؟؟؟؟

ہم پر کب، کس وقت اور کس طرح حکومت اور لوگوں کی نظر پڑے گی؟؟؟ ہم کو کب پوچھا جائے گا؟؟؟

کہ ہمارے تحفظ اور ایسے لوگوں کو سزا دینے کے لئے کچھ کام ہو ایسا نہ ہو کہ یہ قوم انصاف کا اختیار حکمرانوں کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لے ، اور ملک میں ہر شخص اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ خود ہی لینے لگے۔۔۔۔۔

خُدارا اِن ملالاؤں کو بچا لیجیئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچا لیجیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Rubina Ahsan
About the Author: Rubina Ahsan Read More Articles by Rubina Ahsan: 18 Articles with 25858 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.