ہم ملتِ ابراہیمی ؑکے علاوہ کیا کیا ہیں؟

ہمارا وطن ِ عزیز مختلف النوع مکاتب فکر ، سوچوں ، مسالک اور نظریات کا حامل ملک ہے۔ ہمارے ہاں بلاشبہ اکثریت دین اسلام کی پیروکار ہے، لیکن دینی تعبیرات میں خاصے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات عموماً معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی تعداد بھی محدود سی ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ مشترکات بہت زیادہ ہیں۔

تاہم دین اسلام کا ایک امتیاز ہے اور وہ یہ کہ ، یہ اﷲ کا عطا کردہ دین ہے۔ یہ تمام انبیاء کرام کا دین رہا ہے۔ مختلف انبیاء کے زمانوں کے حالات ان کی عطا کردہ شریعتوں میں منعکس ہوتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر روزہ۔ یہ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے قبل تشریف لانے والے انبیاء کے ہاں بھی موجود تھا وعلی ھذالقیاس۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سلسلۂ انبیاء کی آخری کڑی تھے۔ ان کے آنے کی خبر سابقہ انبیاء علیم السلام نے دی تھی۔ جن میں سرِفہرست حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔قرآن ِ حکیم میں متعدد مقامت پر امت مسلمہ کے لیے ملت ابراہیمی کے الفاظ آئے ہیں۔ نمونہ کے طور سورہ ٔ آلِ عمران کی آیت نمبر 95ملاحظہ ہو۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
’’قل صدق اﷲ واتبعوا ملۃ ابراہیم حنیفا وماکان من المشرکین‘‘
(اے محمدصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجیے کہ سچ فرمایا اﷲ تعالیٰ نے کہ راست رو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے راستے کی پیروی کروجو کہ مشرکین میں سے نہ تھے۔

خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا فرزند ہونے پر اظہار فخر کیا تھا۔ انہوں نے خود کو دعائے خلیل کا مصداق قرار دیا تھا۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کی آلِ پاک ؑ پر درود کے ساتھ حضرت ابرہیم علیہ السلام اور ان کی آلِ پاک پر درود کو ایک ساتھ کیا گیا جسے ہر مسلمان نماز میں پڑھتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی بناء پر مسلمان ملت ابراہیمی کہلاتے ہیں۔حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے گرامی قدر والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے پیروکار اور ملت ِ ابراہیمی کا مظہراوّل تھے۔ اقبالؒ نے ملتِ ابراہیمی ؑ کے تسلسل کو یوں بیان فرمایا ہے:
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ، ابتداء ہے اسماعیل ؑ

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے، جس کا ہرمسلمان پابند ہے لیکن انحطاط فکری کے باعث بعض انحرافات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک انحراف حال ہی میں زیرِ مطالعہ آیا جب دو مجلات پڑھنے کا موقع ملا۔ایک میں مذکور تھا کہ وہ ملتِ ش کا ترجمان ہے جب کہ دوسرے کا دعویٰ تھا کہ اس کے رہنما قائد ملت س ہیں۔۔ ایک اور مجلہ نظر سے گذرا ، اس پرایک مسلک کی چھاپ تھی جب کہ دوسرے کا امتیازایک اور مکتب فکر کے اکابر کی مدح سراہی تھا۔

اس صورت حال پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ اصل اسلام جو حضرت آدم علیہ السلام سے چلا اور تمام انبیاء کرام سے ہوتا ہوا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر اپنی حتمی صورت کو پہنچ گیا، وہ ان ملّتوں اور مسلکوں میں کہیں گم ہو گیا ہے۔ ان مسلکوں اور ملتوں میں سے ہر ایک کا ایک امام ہے لیکن بحیثیت مجموعی سب بلا امام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حیثیت پرکاہ کی بھی نہیں رہی۔ وہ اغیار کے لیے نرم چارہ بن کر رہ گئے ہیں۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے اکیلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک امت قرار دیا لیکن ہم اربوں کی تعداد میں ہو کر بھی ایک امت نہیں بن سکے۔ آج ملت سلفیہ کا پیروکار احناف کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ ملت جعفریہ کے پیروکار کو یہ دونوں نہیں بھاتے اور نہ وہ ان کی نظر میں احترام کا مستحق ہے۔ دیوبندی اور بریلوی ہر دو ایک دوسرے کے در پہ اعذار رہتے ہیں۔

ملّتِ ابراہیمی کہاں ہے؟
جب سے ہم نے ملت ابراہیمی ؑ کو ترک کیا ہے اسلام ہم سے روٹھ گیا ہے۔ ہم قانونی اعتبار سے مسلمان ضرور ہیں۔ ہم قبلہ کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں لیکن ملت ابراہیمی ؑ جس کا بنیادی امتیاز عقیدہ توحید تھا، اس سے کوسوں دور ہیں۔ ظاہراً ہم شرک کا انکار کرتے ہیں اور یہ اچھی بات ہے لیکن عملاً اس کے برعکس صورت حال سے دو چار ہیں۔

کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ ہم تباہی کے کنویں کے دہانے پر آن بیٹھے ہیں؟ بالکل وہی صورت حال جیسا کہ حضرت نبی ٔ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے قبل پوری دنیا کی تھی، خصوصاً حجازِ مقدس کی۔ مکہ کی اور یثرب کی۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے سب کو یکجا کر کے ایک امت بنا دیا تھا جس کی سب سے نمایاں خصوصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تعلق تھا۔

صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اﷲ کے مصداق ہمیں صورت حال کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے۔ ہمیں ایک بار پھر قرآن کے ابدی و سرمدی پیغام کی طرف لوٹنا چاہیے۔ اگر اس کا نام سلفیت ہے تو اس پر فخر کرنا چاہیے۔ اگر اس راہ کا نام کچھ اور ہے تو وہ بھی سرآنکھوں پر۔ ہمارا اصل رشتہ قرآن حکیم سے ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے اور پوری دنیا پر اپنا سایہ کیے ہوئے ہے۔ آیئے قرآن کے سایۂ رحمت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ ہمیں ادھر جانا چاہیے جدھر ہمیں قرآن لے جاتا ہے۔قرآن کی حیثیت ہماری امت کے سفینے کے لیے ایک لنگر کی سی ہونی چاہیے۔ حضور علیہ السلام کی نظر میں قرآن کا کیا مقام تھا وہ ہم سے پوشیدہ نہیں یہ الگ بات ہے کہ ہم اس ضمن میں تجاہل عارفانہ سے کام لیں۔ لیکن یہ ہلاکت کی راہ ہے۔ ایسا کر کے ہم کہیں کے بھی نہ رہیں گے۔

اے ملّت جعفریہ، اے ملت سلفیہ، اے احناف۔ اے بریلوی دوستو اور اے اکابر کے پیروکار دیوبندی حضرات ۔۔ آئیں قرآن کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرتے ہیں۔ قرآن ایک کتاب ہے جو درس انقلاب ہے۔
Syed Muzammil Hussain
About the Author: Syed Muzammil Hussain Read More Articles by Syed Muzammil Hussain: 41 Articles with 68569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.