مفتی محمد توقیر بدر
القاسمی
استاذ افتا وقضا المعھدالعالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آج بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ صحافت کے اساتذہ اور تلامذہ اس حقیقت سے
اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ ’فن صحافت ‘میں واقعہ نگاری ، اعلامیہ ، حقائق
کی چھان بین اورتجزیہ کی بنیا د پانچ سوالات پہ رکھی جاتی ہے ،جسے ہم’
مولویانہ اصطلاح ‘ میں’شان وقوع ‘بھی کہہ سکتے ہیں۔وہ سوالات اس طرح کے ہیں
کہ ان کو ذہن میں محفوظ رکھنے کے لئے اسے پانچ ’کافوں ‘ کا مجموعہ بھی کہا
جاتا ہے ،یعنی’ کون ،کہاں ،کیسے ،کب اور کیوں ‘ جیسے سوالات کی روشنی میں
ہی کسی واقعہ کو پرکھا جاسکتا ہے، اس کے اسباب کو آنکا جاسکتا ہے ،اس کا حل
ڈھوندا جاسکتا ہے،پھر جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی حقیقت عوام کے سامنے نکھر
کر آجاتی ہے ۔
مثلا ً ملکی حالات کا جائزہ ملک میں پیش آمدہ واقعات کا ’کب‘کی روشنی میں
جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں دیر نہ ہوگی کہ ابھی جو کچھ قتل عصمت دری
وغیرہ کے واقعات پیش آرہے ہیں،وہ ۲۰۱۴ میں پیش آرہے ہیں،جس کی ذمہ داری
فلان فلان ریاستی ومرکزی سرکار پہ ہے ۔کیوں ہے ؟ تو سیدھا سا جواب ہے کہ ان
ہوں نے عوام سے اس طرح کا وعدہ کر کے ہی آج اس منصب پہ خود کوہونچا یا
ہے۔کون ان حرکتوں کا ذمہ دار ہے ؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ وہ جو بھی ہے ،ملک
دشمن اور انسانیت کا سب سے بڑا مجرم ہے ،کیونکہ انسانی حقو ق خواہ اس کی
جان کے حوالے سے ہو یا مال کے حوالے سے ،عصمت کے حوالے سے ہو یا مذہب کے
حوالے سے،خواہ وہ اقلیتی فرقے کا ہو یا اکثریتی کا،بہر حال اس کے تحفظ کا
مسئلہ آج کی تاریخ میں کوئی علاقائی نہیں ؛بلکہ بین الاقوامی قانون بن کر
عالم کے چپے چپے پہ خود کو متعارف کرواچکا ہے،جس کا پالن کرنا اس دستور پہ
دستخط کنندگان کے ممالک کا اول فریضہ بنتا ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ انسانیت
کے دشمن اور حیوانی کردار کو بھی شرمانے دینے والے افراد کی گھناونی حرکتوں
پہ اظہار افسوس نہ صرف ملک عزیز میں کیا گیا ؛بلکہ بین الاقوامی سطح پہ
اقوام متحدہ جیسی تنظیم نے بھی کی ۔
اسی طرح سے مہاراشٹرا کے علاقہ پونے میں حالیہ فیس بک پہ متنازع تصویر کی
اشاعت کے بعد ایک اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کا قتل کیا جانا
بھی اسی قدر مذمت اور اظہار افسوس کے لائق ہے ،کیونکہ ان واقعات میں بشکل
قتل ایک مشترک حرکت ان سماج دشمنوں کی ضرور نظر آتی ہے،البتہ عصمت دری کے
بعد قتل کا کیا جانا تو ایسا بھیانک جرم ہے کہ اس جیسی حرکتوں پہ آمادہ
افراد کو وہ سزا دی جائے کہ واقعی وہ عبرت بن سکے ،مگر افسوس کہ بجائے مجرم
کو قرارواقعی سزا دی جائے اس پہ سیاست کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا !
بے چارے وزیر اعلیٰ نے اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار جہاں میڈیا والوں پہ کیا
وہیں ایک ذمہ دار آفیسر اعدا وشمار کی کھتیونی لے کر یہ ایک نادر انکشاف کر
نے بیٹھ گئے کہ ’’ریاست میں اور اسٹیٹوں کی آبادی کے پیش نظر یہاں تو
۲۲واقعات یومیہ ہونے چاہئے ہم نے صرف دس ہونے دئیے ہیں ‘‘ اور تو اور مس
مایاوتی تو یہ بات بھی اچھال گئیں کہ جب اقتدار پہ سوار پارٹی کے سربراہ ہی
یہ کہہ سکتے ہیں ’’زنا کوئی اتنا سنگین جرم نہیں کہ سزائے موت دی جائے
،نوجوان ہیں غلطی ہو جاتی ہے ‘‘ تو پھر ایسی ریاست کے باشندگان رام بھروسے
ہی رہ سکتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں یہ واردات ملک بھر میں ہورہے ہیں مگر کیا اس پہ یہ
کہکر لیپا پوتی کرنا مناسب ہے کہ فلاں ملک میں یا ریاست اتنے واردات ہوتے
ہیں اور ہمارے یہاں اتنے ! ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے فلسفے کو وہی شخص
حلق سے نیچے اتار سکتا ہے جسے انسانیت کے دردسے عاری مان لیا جائے اور یہ
طے کر لیا جائے کہ اگر ۹۰ جرائم کہیں اورواقع ہوتے ہیں تو ۸۰ کی چھوٹ تو ان
کو ملنی ہی چاہئے ،چہ جائیکہ سبھی آہستہ آہستہ اس جرم کی بھٹی میں جل بھن
کر راکھ ہی کیوں نہ ہوجائیں ! اب ایسے ایسے نادر خیالات صادر فرمانے والے
سے بجائے بھونڈے انداز میں کچھ کہا جائے بس کلیم عاجز کی زبان میں یہی کہہ
سکتا ہوں : تجھے سنگدل یہ پتہ ہے کیا ،کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا ٭کبھی
چوٹ تونے بھی کھائی ہے، کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا۔
مذکورہ واقعہ کے ساتھ ساتھ جہاں تک بات ملکی وعالمی پیمانے پر اکثریتی
واقلیتی افراد کے بیچ ہونے والے وقتا فوقتا فسادات اور تنازع کا ہے تو اس
سلسلہ میں سبھی ماہرین آج تک مختلف وجوہات بتلاتے آئے ہیں ،تاہم سبھی
مشترکہ طور پہ اس کلیہ کی طرف ضرور اشارہ کرتے ہیں کہ صدیوں سے آپس میں مل
جل کر رہنے والے افراد کے بیچ بڑی چالا کی سے چند سیاسی طالع آزما نفرت کی
دیوار کھڑی کر تے رہے ہیں،اور اس میں بطور میٹیریل کبھی مسلم بادشاہوں کے
تو غیر مسلم اعتدال پسند حکمرانوں کی وقتی وسیاسی امور کومذہبی بناکر
استعمال کرنا رہا ہے ،جس کے نتیجے میں تشددکا پنپنا کوئی بعید نہیں؛اور
ایسا کرنا ان کی شاید جبری مجبوری ہوکیونکہ عوامی مفادات کا وعدہ کرنا اور
انتخاب اس بل پہ جیتنا اور ہے ،مگر اسے پورا کرنا اور ان کے توقعات پہ کھرا
اترنا اور ہے ،اس لئے ان کو الجھا دینا ہی سب سے کارگر طریقہ بہتر مانا
جاتا رہا ۔ہاں البتہ قومی وسائل سے ان کے تعیشات کا سامان ضرورمہیا ہوتا
رہا۔جیسا کہ مشہور زمانہ کتاب {Good & Bad Power} اچھی یا بری حکومت کے
مصنف چیف ملگن نے اپنی اسی کتاب کے اندرایک عام تصور حکمرانی کے بیانیہ میں
تفصیل سے اسے قلمبند کیا ہے ۔اور ’ لڑاو اور حکومت کرو ‘ جیسے پر فریب
فلسفہ اور مکروہ نعروں کو تو آج مکتب کا بچہ بھی جانتا ہے۔
بہرحال کون کیا کررہا ہے ؟ کیوں کررہا ہے ؟ کس انداز میں کررہا ہے ؟ کہاں
کر رہا ہے ؟اسے جاننا اب کوئی مشکل امر نہیں ! البتہ ہم ایک زندہ قوم ہونے
کے ناطے کیا کچھ کرسکتے ہیں اس پہ غور کرنے کی شدیدضرورت ہے،سب سے پہلے تو
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمارے سروں کے خریدارکس انداز میں ہم پہ حملہ آور
ہوتے ہیں اور ان کی تیاریاں کیا کیا ہوتی ہیں؟ ۔
سردست مجھے یوروپ اور امریکی تھنک ٹینکوں ( حلقہ دانشوراں) اور ان کے دم
چھلے ممالک میں ان کے گماشتوں کے ان عزائم کو یہاں بیان کرنا ہے جسے وہ سر
فہرست رکھتے ہیں ۔عالمی حالات اور واقعات کے ظہور وترتیب پہ نگاہ رکھنے
والے سبھی اسکالرس اس بات سے واقف ہیں کہ انہوں نے اولا ًہم ( اسلام کے
پرستاروں ) میں غیر محسوس طریقے سے رسائی حاصل کرکے ہمیں ایک خوشنما ٹکروں
میں بانٹا ،چناچہ ان کا ماننا ہے کہ’’ ان میں جو بھی اثر ورسوخ والے ہوں ان
پہ ڈورے ڈالے جایئں ! خواہ ان کا تعلق اپٹ ٹو ڈیٹ دانشوروں سے ہو جن کا دین
اور دینی کتابوں سے لگاو بس نام کا ہی ہوتا ہے یا مدرسی زندگی گذارنے والے
شیوخ سے جو اپنے علوم میں تو ماہر مگر عالمی مکر سے غافل ہوں ،یاایسے ہی وہ
مخلوط سیاسی حضرات ہوں یا علیحدہ پسند گروپ!بہر صورت ان سبھوں کی زمرہ بندی
کی جائے اور پھر اسی لحاظ سے ان کا دائرہ عمل بھی متعین کیا جائے‘‘ ۔
چناچہ انہوں نے سب سے پہلے’ سیکولر ‘کا راگ الاپاجس کی خوب تحسین کی گئی
اور اس پہ عمل پیرا نام نہاد مسلمانوں کو ہر اہم عہدوں پہ بٹھایا گیا
بالخصوص عالمی میڈیا گھرانے میں انکی رسائیکافی جانچ پڑتال کر کے کی گئی یا
کرائی گئی اور کرائی جاتی ہے۔اور پھرایک لمبا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور فلاں
خان اور فلاں سیدنامی رپورٹرسے، اور پھران سے وہی کہلوایاجاتا ہے جو ان کا
ایجنڈہ ہوتا ہے ۔اسے یہ حضرات ’’سیکولرسٹ ‘‘کہتے ہیں اسی طرح سے ان لوگوں
ان سے بھی زیادہ تحسین ان لوگوں کی کرائی جاتی ہے جو کسی بھی دستور واخلاق
کی قیوادت کو نہیں اپنا سکتے ،چناچہ آج سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی ناز
برداری کو اسی زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔جسے یہ لوگ ’’ماڈرنسٹ ‘‘کا نام دیتے
ہیں اور ان کی تحریروں سے وہ کام لے لیا جاتا ہے ان کے ہمنا موں کے خلاف
،جو وہ بم اور گولوں سے بھی نہیں لے سکتے ! اس کے بعد نمبر آتا ہے ان کی
اصطلاح میں ’’علامت پسندوں ‘‘کا ،اس پہ یہ حضرات اس طرح کام کراتے ہیں کہ
کسی کے فرشتوں کو بھی اس کی بھنک نہیں لگتی اس خانہ میں یہ لوگ عموما مسلکی
ومذہبی اختلافات پر مبنی بیانات داغنے والے کو رکھتے ہیں اور وقتا فوقتا ان
سب کے جزوی اختلافات کو کلی بناکر اس طرح منظر عام پہ لاتے ہیں کہ ان کے
عوام ان سے تو بدظن ہوتے ہی ہیں خود ان میں اس قدر کھائی در آتی ہے کہ آپس
میں مل بیٹھنے کا سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں ! اس طبقہ کو یہ کسی نہ کسی
ادارہ اور تنظیم سے وابستگی کی بنیاد پہ مثلاً شیعہ ،سنی ،دیوبندی ،بریلوی
کہلانے کے ناطے’’ سمبالسٹ‘‘{Symbolist}کے نام سے جانتے ہیں اور بطور استہزا
اسی نام سے متعارف بھی کرواتے ہیں ۔اس کے بعد یہ ہوشیار لوگ سیاسی لوگ کو
لاتے ہیں اور ان کو جمہوریت پسندکے نام سے متعارف کرواتے ہیں اور ان کو ہی
منظر عام پہ لاکر باری باری سے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں ،خواہ السیسی
ہوں یا بشار اسے آج سمجھنا کوئی مشکل فلسفہ نہیں !المیہ یہ ہے کہ کام ختم
ہونے پہ ان کوبھی ٹھکانے لگوانے سے نہیں چوکتے ! صدام اور قزافی تو تاریخ
کا حصہ بن چکے ہیں ۔اس کے بعد ان کے ہٹ لسٹ میں ہوتے ہیں وہ لوگ جو واقعی
انسانیت کے حقیقی خیر خواہ ہیں مگر ان کی نگاہ میں معتوب ہوتے ہیں؛ کیونکہ
ان کی وجہ سے ان کے مفادات کی تکمیل نہیں ہوسکتی ۔ان کی وجہ سے ان کے کلچر
شراب نوشی، عیاشی وفحاشی، نیزلوٹ مارا ورغارت گری جیسے اوصاف کو عام لوگ
باگ اپنا کر اس سامراجی وابلیسی نظام کو سلام نہیں کر سکتے ؛تو ان کو یہ
لوگ بنیاد پرست {Fundamentalist}ورجعت پسداور دقیانوس گردانتے ہیں ۔اس کی
زندہ مثالیں صحابہ کرام کے دور سے لیکر مرسی تک بے شمار کردار کی شکل میں
ملتی ہیں!
لہذا ہمیں ان کے ان عزائم کو خاک گر ملانا ہے تو پھر ان کی ہی طرح بلکہ ان
سے زیادہ محنت کے ساتھ مقابلہ میں اترنا ہوگا!اپنے صفوں میں اتحادد کے لئے
قرآنی بنیاد تلاش کرنا ہوگی! دشمنوں کے پھیلائے ہوئے گماشتوں اور ان کی
ہرزہ سرائی سے خود کو بچانا ہوگا!بے بنیاد جو گروہ بندی ہے اس کو مٹانا
ہوگا!اور سچائی کیا ہے اس کو نہ صرف بتانا ہوگا بلکہ اس کے ثمرات لوگوں تک
پہونچ سکیں اسے کر دکھانا بھی ہوگا ۔اور یہ سب صرف اتحاد وایمان کی مضبوط
رسی پہ عمل صالح جس سے معاشرہ میں آج ہم غالب آسکیں ،کا بَل دینے سے ہی
ہوسکتا ہے۔ |