میرا نام کرپشن ہے ۔ میرے
خلاف ایک طوفان برپا ہے ۔ سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں ،سیمیناروں،
اجلاسوں، وکلاء کے بارروموں ، نجی محفلوں، عوامی گفت وشنید وغیرہ وغیرہ میں
میرے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے،مجھ پر مختلف الزامات عائد کئے جاتے ہیں ،
فرداتِ جرائم نافذ کی جاتی ہیں اور مجھے کم یا ختم کرنے کے لیے طرح طرح کی
تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ ظاہری مخالفت کے اس طوفان میں وُہ افراد بھی شامل
ہو جاتے ہیں جو دل کی گہرائیوں سے مجھ پر فدا ہیں، سینکڑوں بار میرا
استقبال کر چکے ہیں اور اپنی مزید خواہشیں پوری کرنے کے لیے ہر وقت میر ی
تلاش میں مصروف ہوتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ میرے خلاف باتیں اور
اقدامات کرنے والوں نے کبھی مجھے طلب نہیں کیا تاکہ میں بھی اپنا مدعا بیان
کر سکوں یا اپنے دفا ع میں کچھ کہہ سکوں۔
آپ کی انصاف پسند دنیا میں تسلیم کردہ اصول ہے کہ الزام علیہ یعنی ملزم کو
اپنے خلاف الزامات کا جواب دینے کا حق حاصل ہے اور کسی ملزم کو دفاع کا حق
دیے بغیر اُس کے خلاف سزا دینا انصاف کا خون سمجھا جاتا ہے۔ لہذا مجھے دفاع
موقعہ نہ دے کر آپ نا انصافی کر رہے ہیں اور کرپشن کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
اے انصاف کے علمبرداروں مجھے بولنے کاموقعہ دو تا کہ میں بتا سکوں میں کون
ہوں! کیا کرتی ہوں! میری عادت، صفات اور خوبیاں کیا ہیں اور میری کمزوریاں
و خامیاں کیا ہیں! تاکہ اگر آپ میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو کوئی موثر
اقدام کر سکیں۔ ایسانہ ہو کہ آپ کی سب باتیں اور اقدامات بے کار جائے ۔میں
آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میر ی باتیں سُن کر آپ کو فائدہ ہو گا ۔
میر ا مختصر ترین تعارف یوں ہیـ:
(1) جیساکہ آپ کو معلوم ہے میرا نام کرپشن ہے ، اُردو زبان میں مجھے
بدعنوانی کہتے ہیں ، میں ایماندار ی کی ضد ہوں اور اُس کے ساتھ ایک دن نہیں
گزار سکتی۔
(2) میرا تعلق صرف انسانوں سے ہے ۔ حیوانات سے میرا واسطہ نہیں ہے کیونکہ
وُہ نہ تو مجھے سمجھتے ہیں اور نہ ہی میرے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں۔
(3) میں انسان کی ہم عمر ہوں ۔ میں اُس وقت پیدا ہو ئی تھی جب انسان کو
شعور ملاتھا۔
4) میری بے شمار اشکال ہیں ۔ میں رشوت ہوں، کرپشن ہوں، میں منی لانڈرنگ ہوں،
میں غبن ہوں ، میں فراڈ ہوں ، میں ملاوٹ ہوں، میں جھوٹ ہوں، میں وعدہ خلافی
ہوں اور میں۔۔۔۔۔۔
(5) میں ہر گاؤں، شہر اور ملک میں رہتی ہوں ۔کہیں میں کم شدت اور مقدار میں
موجود ہوں اور کہیں زیادہ۔ اکثر ممالک میں تو میرے ہیڈ آفسز ہیں ۔ پاکستان
میرا پسندیدہ ملک ہے کیونکہ یہا ں کے 90فی صدسے زیادہ لوگ مجھے میرا
والہانہ استقبال کرتے، مجھے دل و جان سے پسند کرتے ہیں اور ہر معاشرتی اصول،
اخلاقی قدر ، مہذبی تعلیم اور قانونی ضابطوں کو روند کر مجھے گلے لگاتے ہیں۔
مجھ میں بہت سی خوبیاں ہیں مگر وقت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے میں اپنی صرف
تین خوبیاں بیان کررہی ہوں ۔ ان تین خوبیوں کی وجہ سے کئی نام نہاد دانشور،
صحافی،ٹی وی اینکر، جج، کرنل ، جرنل، مذہبی علماء ،بہت سے سیاستدان اور
بیشمار عام لوگ میری زلف کے اسیر ہیں اور مجھے ملنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔
(1) پہلی خوبی یہ ہے کہ میں کینسر کی طرح بہت تیزی سے انسان کے دماغ اور
جسم میں پھیلتی ہوں۔جو ایک بار مجھ سے ہاتھ ملاتا ہے باربار ہیڈ شیک کرنے
کی کو شش کرتا ہے۔ پہلی ملاقات میں اگر ایک ہزار روپے پیش کروں تو دوسری
ملاقات میں ایک لاکھ اور تیسری میں ایک کروڑ کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔مگر
تاثیر کے لحاظ سے میں کینسرسے بالکل مختلف ہوں۔ کینسر جب جسم میں پھیلتی ہے
تو وُہ انسان کو ہلاک کر دیتی ہے مگر میں جب پھیلتی ہوں تو فقیر کو امیر،
دکان دار کو مِل مالک، بیوروکریٹ کو شاہانہ شان و شوکت کا مالک او ر غرور
اور تکبر کا پیکر بنا دیتی ہوں سیاست دان کو وزیر، وزیرِ اعلیٰ، وزیرِ اعظم
یا صدر کے عہدے پر براجمان کروا دیتی ہوں۔ دینی علماء کو مساجد سے نکال کر
بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھا دیتی ہوں۔
(2) دوسری خوبی یہ ہے کہ میں اچھوتی بیماری ہو ں جب ایک شخص میری محبت میں
مبتلا ہوتا ہے تو میری عنائیات کو دیکھ کر اُس شخص کے اردگرد دوسرے لوگ
اچھوت کے جال میں پھستے چلے جاتے ہیں حتا کہ پولیس، انٹی کرپشن،ایف ،آئی،اے
اور نیب جسے ادارے جن کا کام مجھے تلاش کرنا ، میرے خلاف ثبوت اکٹھے کرنا
اور مجھے سزا دلوانا ہے میر ی اچھوت میں مبتلا ہیں۔ کئی چیئر مین میری
خوبصورتی دیکھ کر ریاست کی بڑی بڑی کرپشن کی فائلیں رکھ کر بھول جاتے ہیں،
اکثر تفتیشی افسران میری ملاقات سے تفتیش کا رنگ بدل دیتے ہیں ، ملزمان کو
گرفتار کرنے کی بجائے اُن کو کیس سے بچنے کے گُر بتانے شروع کردیتے ہیں۔اگر
کیس عدالت میں چلا جائے تو میرے ایک ا شارے پر 22 بائیس گواہان منحرف
ہوجاتے ہیں اور حلفاََ کہتے ہیں ، ’’ـہم نے کچھ نہیں دیکھاہے ‘‘۔ میں چہرے
سے پردہ اٹھاتی ہوں تو جج صاحب کے ہاتھ سے انصاف کا ترازو ز گر جاتا ہے اور
کیس کا فیصلہ میرے حق میں کئی سالوں کی بجائے چند دنوں میں میرے حق میں ہو
جاتا ہے۔
(3) اب میں اپنی سب سے موثر اور پُر اثر خوبی بیان کرتی ہوں جو یہ ہے کہ
میں اپنے عاشقان اور پیروکاروں کو اپنا صلہ یامعاوضہ نقد ادا کرتی ہوں ،
مثلاََ رشوت کا عمل اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب رشوت کی رقم رشوت لینے والے کی
جیب میں پہنچ جائے ۔ چوں کے انسان نقد کا پتلا ہے اور اُدھار پر گزار ہ
نہیں کرسکتا اس لیے اُن کے بہت بڑی اکثریت میری ز لف کی اسیر ہو چکی ہے۔ جب
کہ ایمانداری منہ دیکھتی رہتی ہے کیوں کہ اُس کے پاس نقد دینے کے لیے تسلی
اور وعدہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
کیونکہ آپ نے مجھے بات کرنے کا موقعہ دیا ہے اس لیے میں آپ کو اپنی تین اہم
کمزوریاں بھی بتادیتی ہوں۔ (1) میری پہلی کمزوری اخلاقی اقدار ، مذہبی
تعلیمات اور قانونی ضوابط ہیں ۔ میں ان سے شدید نفرت کرتی ہوں کیوں کہ جو
لوگ ان کو اپناتے ہیں میری جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ مگرشکر ہے کہ عوام،
اشرافیہ اور ریاست کی طاقت کے اداروں (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) میں اُن
کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ علاوہ ازیں یہ لوگ میرے خلاف سینیٹ،
اسمبلیوں ، سیمیناروں، جلسوں اور دیگر پبلک مقامات پر صرف باتیں کرسکتے ہیں
مگر عملی اقدامات کرنے کے لیے اُن کے پاس وسائل اور طاقت موجود نہیں ہے۔
(2) میری دوسری کمزوری تعلیم ہے کیونکہ تعلیم انسان میں عقل و شعور بلند
کرنے کا سب سے آسان اور تیز ذریعہ ہے ۔ اور عقل و شعو ر کی بدولت انسان
میری حقیقت کو سمجھ جاتا ہے اور میر ے پُر کشش سحر میں گرفتار نہیں ہوتا۔
مگر اطمینان بخش امر یہ ہے کہ میر ے پیروکاروں نے پاکستان میں تعلیم کو
تجارت بنادیا ہے اور ایک وقت میں کئی نظامِ تعلیم رائج کردیے ہیں ۔ اشرافیہ
اور غرباء کے لیے علیحدہ علیحدہ نظامِ تعلیم ، اسکولز، کالجز اور
یونیورسٹیز قائم ہیں ۔ یوں تعلیم کا ستیاناس ہو چکا ہے ۔
(3) میری تیسری کمزوری میڈیا (اخبارات، رسائل، ریڈیو اور ٹیلی ویژن) ہے۔
اہلِ علم و دانش روزانہ اخبارات میں میرے خلاف کالم اور تبصرے لکھتے ہیں؛
سیاسی اور سماجی تجزیہ کار ریڈیو پر مذ اکرات اور تبصروں کے ذریعے مجھے زہر
دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس پر طرّہ یہ کہ ٹیلی ویژن کے تمام چینلوں پر
ہر وقت میرے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے اور ہر تبصرہ نگار، سیاسی لیڈر اور
اینکر مجھے قتل کرنے پر تلا ہوا نظر آتا ہے ۔ مگر راز افشاں نہ کرنے کی شرط
پر میں آ پ کو ایک خوش کن حقیقت بتا دیتی ہوں کہ ظاہری مخالفین میں سے 90
فی صد سے زیادہ میرے سچے پرستاراور عاشق ہیں اور جب میں سامنے آتی ہوں تو
اُن کے قلم ٹوٹ جاتے اور زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں اور وُہ میرے خلاف کی
گئی سب باتوں کو گہرے گڑے میں پھینک کر مجھے ہزاروں سالوں سے بچھڑی ہوئی
محبوبہ کی طرح گلے لگا کر پور ی طاقت سے لپٹ جاتے ہیں ۔
جاتے جاتے میں یہ بتا دوں کہ مخالفین میری کمزوریاں جان کرزیادہ خوش نہ ہوں
کیونکہ میں بہت سخت جان ہوں اور اپنے مشن پر تن دہی سے کار بند ہوں جس کی
وجہ سے انسانوں کی بڑی اکثریت آج بھی میر ی محبت میں گرفتار ہے اور مجھے
پانے کے لیے انسان دشمنی، وطن فروشی، دہشت گردی، اخلاق سوزی اور دیگر جرائم
کرنے کو تیار ہے۔
میں قاری کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے پڑھنے کے لیے اپنا قیمتی وقت صرف
کیا ۔ |