حقوق نہیں،ذمہ داریوں کو یاد رکھیں
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر کسی
کو اپنے اپنے حقوق یاد ہیں،حقوق کسی بھی وجہ سے نہیں ملتے ،تو زبردستی
چھیننے کی باتیں ہوتی ہیں، انسانی حقوق، حکمرانوں کے حقوق، ملک کے حقوق،
قوم قبیلے کے حقوق، والدین واساتذہ کے حقوق،اولاد وشاگردوں کے حقوق، بوس و
ادارے کے حقوق، علم وفضل اور اہلِ دانش کے حقوق،اڑوس پڑوس کے حقوق ، اور ان
سب سے بڑھ کر اﷲ و اہل اﷲ کے حقوق،یہ کسی کو یاد نہیں،فرد کے اوپر اپنی
اپنی حیثیت کے مطابق کیا حقوق وذمہ داریاں ہیں ، کسی کو کوئی پرواہ
نہیں،اپنی زندگی میں کیا رول اد کرنا ہے، معاشرے کی اصلاح وفلاح میں کونسے
کردارسے بہتری آئیگی،نیک نامی کیسے ملیگی ،اس کے متعلق سوچنے سے ہم قاصر
رہتے ہیں،یا سستی،بدنیتی،ذاتی مفاد پرستی کی وجہ سے اجتماعی بھلائی تو
ہمارا ہدف ہی نہ تھا انفرادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،بڑے لوگ ہمیشہ
بڑے بڑے کاموں اور کارناموں کا سوچتے ہیں،دور اندیشی ان کا شیوہ ہوتی
ہے،چھوٹے ہر معاملے چھوٹے ہی ہو تے ہیں۔
مولاناوحیدالدین خان اس حوالے یوں رقمطراز ہیں:’’دنیا میں ہمیشہ دو ہی قسم
کے انسان ہوتے ہیں ،ایک وہ انسان جس کا حال یہ ہو کہ وہ جو کچھ کرے، اس کی
قیمت مع اضافہ کے وصول کرنا چاہے ،دوسرا انسان وہ ہے کہ وہ جو کچھ کرے ،اسے
بھول جائے، اسے اپنے کئے کا کوئی معاوضہ نہ ملے ،تب بھی وہ کوئی شکایت اپنے
دل میں نہ لائے، اس کی تسکین کا سامان یہ ہو ،کہ وہ اپنے آپ کو مقصد میں
لگائے ہوئے ہے، نہ یہ کہ اس کو اس کے عمل کا فوری معاوضہ مل رہاہے۔
پہلی قسم کے لوگ بھی انسان ہیں، اور دوسری قسم کے لوگ بھی انسان، مگر دونوں
میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ظاہری صورت کے سوا دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں،
پہلی قسم کے لوگ صرف بازار چلاتے ہیں، جب کہ دوسرے قسم کے لوگ تاریخ بناتے
ہیں۔
یہی دوسری قسم کے لوگ انسانیت کا اصل سرمایہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی
بڑا کام کرنے کے لئے ہمیشہ اس کی ضرورت ہوتی ہے ،کہ بہت سے لوگ ملکر کام
کریں ،جب اس طرح لوگ ملتے ہیں ،تو کسی کو کم ملتاہے اور کسی کو زیادہ، کوئی
کریڈیٹ پاتاہے اور کوئی بے کریڈیٹ رہ جاتاہے، کسی کا استقبال ہوتاہے اور
کوئی دیکھتاہے ،کہ وہ نظر انداز کیا جارہاہے ۔
یہ صورت بالکل فطری ہے ،یہ فرق ہمیشہ پیش آتاہے ،خواہ وہ کوئی عام تحریک ہو،
یا کسی پیغمبر کی تحریک ہو ،ایسی حالت میں متحدہ کوشش کو باقی رکھنے کی
واحد قابل عمل صورت صرف یہ ہے ،کہ لوگ اپنے حقوق کو بھول جائیں اور صرف
اپنی ذمہ داری کو یاد رکھیں، اس مزاج کی ضرورت صرف اس لئے نہیں کہ اجتماعی
جدو جہد میں کچھ لوگ بے معاوضہ رہ جاتے ہیں ،بلکہ اس لئے بھی ہے، کہ ملنے
والا معاوضہ اکثر آدمی کے اپنے اندازہ سے کم ہوتاہے ،چنانچہ معاوضہ ملنے پر
بھی وہی تمام شکایتیں پیدا ہوجاتی ہے، جو اس وقت پیدا ہوتی ہیں، جب کہ سرے
سے کوئی معاوضہ نہ ملاہو، بڑا کام کرنے والے وہ لوگ ہیں ،جن کا حال یہ ہو
کہ ان کا عمل ہی ان کا معاوضہ بن جائے، اپنی ذمہ داری کو بھرپور طور پر ادا
کر کے ان کو وہ خوشی حاصل ہو، جو کسی شخص کو اس وقت ہوتی ہے ،جب کہ اس کے
کام کے نتیجہ میں اس کو کوئی بہت بڑ اانعام حاصل ہوجائے‘‘ ۔
آئیے ہم من حیث القوم اجتماعی مفاد کا سوچیں، قوم کیا اقوام کی ترقی کو
اپنا ہدف ومقصد بنائے،حقوق کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں ، پھر ان
کے انجام دہی کا بندوبست کریں۔ |
|