اف یہ لوڈشیڈنگ

وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ہمارے گھروں میں زمین و آسمان ہمارے ساتھ رہتے تھے ۔وہ اس طرح کہ ایک آدھ کمروں میں سمنٹ کے فرش ہوتے تھے بقیہ کچی زمین جس میں گھر کی وسعت کے مطابق کچھ پھول پودوں کی کیاریاں ،کچھ سبزیوں کے درخت ،اور کئی گھروں میں نیم کے درخت لگائے جاتے تھے ۔گرمیوں کے دنوں میں نیم کے درخت کی چھاؤں کا مزہ ہی الگ ہوتا تھا پھر اس کچی زمین کی بارش کے دنوں قبل از بارش مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو،پھر بارش کے دوران پانی کا جمع ہونا اور اس پانی میں مسلسل بارش سے بلبلوں کابننا اور شدید گرمی کے بعد کی بارش میں اپنے ہی گھر میں نہانا یہ سب اب یادوں کا ایک حصہ بن کر رہ گئے اس لیے اب زمین پر ہم نے پہلے سمنٹ کے فرش پھر موزائیک اور اب نئے نئے ڈیزائن اور اسٹائل کے ماربلز لگا کر زمین کو اپنے گھروں سے نکال دیا ۔اسی طرح ہمارے گھروں کے عموماَ تین حصے ہوتے تھے ۔کمرہ ،دالان اور کھلا آنگن جہاں سے آسمان کا نظارہ ہم گھر بیٹھے کرلیتے تھے ۔گرمیوں کے دنوں میں کھلے آنگن میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے نیند کے مزے اور جب تک نیند نہ آئے تو آسمان کے ستاروں کا نظارہ ،ناکام عاشقوں کے بارے میں لوگ کہتے ہیں وہ راتوں کو تارے گنتے تھے اور نئی سحر کی امید پر سو جاتے تھے انھیں چھت پر کوئی ایسا کنڈہ نظر نہیں آتا تھا جس سے وہ اپنے خود کشی کے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچا پاتے ۔پھر جب گرمی کا زور کم ہوتا اور کھلے آنگن میں سونے اور شبنم کی وجہ سے نزلہ بخار کا اندیشہ ہوتا تو پھر دالان میں بستر لگ جایا کرتے اور جب باقاعدہ سردی آجاتی تو پھر کمروں میں آجاتے ۔موسم کی دوبارہ واپسی اسی ترتیب سے ہوتی ۔اب ہم نے دالان اور کھلے آنگن کو ختم کرکے ان پر بھی چھت بناکر آسمان کو بھی اپنے گھر سے نکال دیا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے گھروں میں بجلی نہیں آئی تھی تو کمرں میں چراغ اور دالان و آنگن کے لیے لالٹین کا استعمال عام تھا ۔جب بجلی آئی اس وقت اس کا استعمال بھی محدود تھا رات کی روشنی اور دن میں ہوا کے لیے پنکھوں کا استعمال ہوتا تھا روشنی کے لیے بلب زیادہ ہوتے تھے کسی ایک کمرے میں جہاں مہمانوں کو بٹھایا جاتا ٹیوب لائٹ لگائی جاتی تھیں ۔استری ،فریج،ریفریجریٹر ہر کمروں میں ٹیوب لائیٹ کا استعمال اتنا عام نہیں ہوا تھا جتنا اب ہے بلکہ یہ تمام اشیاء اس وقت آسائشات کے زمرے میں شمار ہوتی تھیں اور خاص خاص گھروں میں جن کے بارے میں عام تصور یہ تھا یہ دولتمند اور پیسے والے لوگ ہیں وہاں یہ چیزیں ہوتی تھیں ۔لیکن اب یہ تمام اشیاء آسائشات سے نکل ضروریات زندگی میں شامل ہو کر ہر گھر کی ضرورت بن گئیں بلکہ اب تو ائیر کنڈیشن کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے ۔جب ہمارے یہاں نئی نئی بجلی آئی تھی تو اس وقت ہماری نانی اکثر یہ کہتی تھیں کہ اس بجلی نے تو ہمیں اندھا بنا دیا اس وقت ہمارے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ بجلی کی وجہ سے تو چکاچوند ہوتا ہے ہر چیز بہت صاف نظر آتی ہے پھر یہ کیوں کہتی ہیں بجلی نے تو ہمیں اندھا بنا دیا ،اب جب پورا گھرروشن ہو کر جگمگا رہا ہو اور ایسے میں اچانک بجلی چلی جائے تو ہمیں پھر نانی یاد آجاتی ہیں ،اتنا گھپ اندھیرا کہ فوراَ بچوں کو آواز لگائی جاتی ہے کہ کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلنا پہلے موبائل تلاش کیا جاتا ہے کہ اس کی روشنی سے ایمرجنسی لائٹ ڈھونڈی جائے اور پھر بجلی کے آنے کا انتطار کیا جائے۔کراچی کی آبادی بہت تیزی سے چاروں طرف زمینی اعتبار سے بھی بڑھ رہی ہے اور آسمان کی طرف بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ایک طرف سمندر کو دھکیل کر ڈیفنس کے نئے فیز اور ایکسٹنشن بن رہے ہیں تو دوسری طرف حب چوکی اور بلوچستان کی طرف نئی بستیاں تعمیر ہورہی ہیں تیسری طرف سپرہائی وے اور چوتھی طرف نیشنل ہائی وے میں تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے ،اور آسمان کی طرف اس طرح کہ بیس بیس اور بائیس بائیس منزلہ رہائشی پروجیکٹس بنائے جارہے ہیں ۔ان ہوش ربا اضافوں کی وجہ سے پانی بجلی اور گیس کے مسائل روز بروز لا ینحل ہوتے جارہے ہیں ۔پرانی بستیوں میں اضافہ اس طرح ہو رہا ہے کہ سنگل مکانات کو تین اور چار منزلہ تک بنایا جارہا ہے ایک وقت تھا جب لیاقت آباد کے 90گز کے مکان میں ایک فیملی رہتی تھی اور اب اسی میں 11 خاندان رہتے ہیں ۔یہ گیارہ خاندان یوں سمجھ لیں گیارہ ڈربوں میں رہتے ہیں جب تک بجلی رہتی ہے تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن جب بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو پتا چل جاتا ہے ہوا بھی اب پہلے کی طرح نہیں آتی اس لیے کہ ہر طرف تو بڑے اور اونچے اونچے مکانات تعمیر ہو گئے جنھوں نے ہوا کا راستہ روک لیا ہے ایسے میں مرد حضرات تو پھر بھی باہرنکل جاتے ہیں لیکن اصل آزمائش خواتین کی ہوتی ہے ۔ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف بھاری بلوں نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں ۔KEنے بجلی کی چوری اور کنڈہ سسٹم کا حل یہ نکالا ہے کہ ہر صارف کے بلوں میں سنگدلانہ اضافہ کر کے غریب اور ایماندار صارفین کو بھی سزا دی جارہی ہے۔یعنی گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے ۔دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ ہمارے عوام میں بھی ایک تعداد ایسی ہے جو وقت پر بلوں کی ادائیگی نہیں کرتے یہ سرچارج کے ساتھ بڑھتے رہتے ہیں اور ایک وقت یہ آتا ہے کہ ان کی بجلی کٹ جاتی ہے پھر یہ کنڈے کا استعمال شروع کر دیتے ہیں ۔موجودہ حکومت جو ن لیگ کی ہے اس نے پوری انتخابی مہم اسی توانائی کے اشو پر چلائی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ ہم ا یک سال میں بجلی کا بحران ختم کردیں گے ۔لیکن تقریباَ ایک سال بعد یہ بحران ختم تو کیا کچھ کم بھی نہیں ہوا بلکہ اور بڑھتاہی جا رہا ہے جس کی وجہ سے فیکٹریں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔بعض اوقات کسی علاقے میں دو دو دن تک بجلی نہ آنے کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر جلاؤ اور گھیراؤ کرتے ہیں جس کی وجہ سے امن وامان کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔کراچی میں قانونی لوڈشیڈنگ کے علاوہ بھی کئی کئی گھنٹوں کے لیے بجلی چلی جاتی ہے جس کا کوئی پتا نہیں ہوتا کہ کب تک آئے گی ۔عوامی دکھوں کو دیکھتے ہوئے اب ایسے فتوی بھی مارکیٹ میں لائے جارہے ہیں جس میں یہ کہا جارہا ہے کہ بجلی کی چوری بحالت مجبوری جائز ہے ۔جب سانس رک رہی ہو اور دم گھٹ رہا ہو بچے گرمی سے بلبلا رہے ہوں مہنگائی کے عذاب نے جینا مشکل بنادیا ہو ایسے میں آدمی کہاں جائے ۔میری تجویز یہ ہے اگر KEکا ادارہ اپنے انٹرنل مسئل اور داخلی انتظامات کو بہتر بنالے تو بیشتر مسائل حل ہو سکتے ہیں اسی طرح جن صارفین پر بہت زیادہ بقایا جات ہوں انھیں کچھ ترغیبات دی جائیں کہ اگر وہ اپنے واجبات یکمشت ادا کریں تو انھیں تیس یا چالیس فی صد کی چھوٹ دی جاسکتی ہے اسی طرح ٹیپنگ میٹر کی پابندی کو بھی ختم کیا جائے کہ اگر کوئی صارف اپنی کئی منزلہ عمارت میں ہر فلور کا الگ میٹر لگوانا چاہے تو لگا سکتا ہے۔اسی طرح ایک Incentiveیہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ جو صارف پابندی سے اپنے بلوں کی ادائیگی کر رہے ہیں انھیں کچھ یونٹس کی رعایت دی جاسکتی ہے مثلاَاگر کسی صارف نے ایک سال تک مسلسل اپنے بل وقت پر ادا کیے ہوں تو انھیں اگلے سال 200یونٹس کی رعایت ملے گی اس طرح کی ترغیبات سے بروقت بلوں کی ادائیگی کے رجحانات میں حوصلہ افزا اضافہ ہوگا-

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 40078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.