چھو لو آسمان۔۔۔؟

’’چھو لو آسمان،تم ہی ہو پاکستان‘‘اور ’’تعلیم سب کیلئے‘‘کے نعرے ہم سب حکمرانوں کی زبانوں پر تو سنتے ہیں لیکن عملأ اس کا مظاہرہ کہیں دکھائی نہیں دیتا،پاکستان کے حالیہ اقتصادی جائزے 2013-14کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح تو 60 فیصد ہے لیکن پانچ سے نو سال کی عمر کے 67 لاکھ بچے سکول ہی نہیں جا پاتے۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول نہ جانے والوں میں 39 فیصد لڑکے اور 46 فیصد لڑکیاں ہیں۔چھ سے نو سال کے عمر کے سکول جانے والے بچوں کا تناسب 65 فیصد ہے۔ بچوں کے سکولوں میں اندارج کے حکومتی منصوبے کے تحت سنہ 2013 سے 2016 تک پچاس لاکھ بچوں کو سکولوں میں داخل کروایا جائیگا،پاکستان اپنی خام ملکی پیداوار کا دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ 2018 تک تعلیم کے لیے مختص فنڈ دوگنا کر دیا جائے گا،سروے میں فراہم کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آٹھویں جماعت تک 1000 طلبہ کے لیے 42 سکول ہیں جبکہ 1000 طلبہ کے لیے صرف ایک ڈگری کالج موجود ہے،پاکستان میں ڈگری جاری کرنے کا اختیار رکھنے والے اداروں اور جامعات کی تعداد 156 ہے۔ ان میں سرکاری اداروں کی تعداد 88 اور نجی کی 69 ہے۔ ڈگری جاری کرنے والے اداروں میں 12لاکھ 30 ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں،کیا اس صورتحال میں کون کیسے آسمان کو چھو سکتا ہے؟ کون کیسے ترقی کرسکتا ہے؟ اگر موجود سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی منظر کشی کی جائے تو ہمارے سامنے ہمارے مستقبل کی بھیانک تصویر نظر آئیگی،یہاں سندھ،خیبر پی کے یا بلوچستان کی بات نہیں کرتے بلکہ سب سے خوشحال صوبے پنجاب میں کئی ایسے سکول موجود ہیں جہاں جدید تو درکنار بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہیں،جنوبی پنجاب،جس کی محرومیوں کا رونا روتے وسیب کے لوگ نہیں تھکتے،وہ ٹھیک ہی تو ہیں،مشاہدے کے دوران ایسے ایسے ادارے دیکھنے کو ملے جہاں نہ تو عمارت ہے نہ پینے کا پانی،چادر نہ چار دیواری،بچے درختوں کے سائے میں علم کی پیاس بجھاتے نظر آئے،حکومت نے سکولوں کو انگلش میڈیم تو کردیا لیکن کوالیفائیڈ استاد تعینات نہیں کیے،جو استاد مشکل سے اردو پڑھاتے تھے انگلش پڑھانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں،اساتذہ کی تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں،کالجز اور یونیورسٹیوں کی حالت کچھ مختلف نہیں ہے،دوسری جانب وسطی اور اپر پنجاب میں نقشہ ہی کچھ اور ہے،ملک میں غربت اتنی بڑھ چکی ہے کہ والدین بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے مزدوری کروانے پر مجبور ہیں،ہمیں چائے کے ’’ڈھابوں‘‘ ورکشاپوں،کاغذ چنتے کئی ایسے بچے ملتے ہیں جو پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن گھریلو حالات کے باعث مزدوری کرنے پر مجبور ہیں،اگر حکومت تعلیم عام کرنے میں سنجیدہ ہے تو بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے گھر والوں کے حالات بھی بدلنا ہوں گے،گھر میں کھانے پینے کو کچھ ہوگا تو کوئی پڑھنے کا بھی سوچے گا،دوسرا سکولوں کی حالت بہتر کرنے کی ضرورت ہے،نئے نئے دانش سکول بنانے کی بجائے پرانے سکولوں کی حالت کو بدلنا ہوگا،ان میں بنیادی کے ساتھ ساتھ جدید لیبارٹریوں،اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کرنا ہوگا،طلبہ کو لیپ ٹاپ دینا،فیسوں کی معافی ایک اچھا عمل ہے لیکن اس سے آسمان کو نہیں چھوا جاسکتا اور نہ ہی چاند پر قدم رکھا جاسکتا ہے،اگر آسمان کو چھونا ہے،چاند پہ جانا ہے تو ناسا کی طرح کے ادارے قائم کرنا ہونگے،اپنی دنیا آپ بنانا ہوگی،خیرات سے کوئی ملک نہ ترقی کر سکا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی چانس ہے،بقول نیلسن منڈیلا’’ غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے‘‘ ملک سے غربت ختم کرنی ہے تو انصاف قائم کرنا ہوگا،جہالت خود بخود ختم ہو جائیگی۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68415 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.