مسلح تحاریک سے مذاکرات اور نظام تعلیم پر اظہار خیال

کوئی بھی تحریک خصوصاً مسلح کسی بھی ملک /ریاست کیلئے للکار ( چیلنج ) سے کم نہ ہے اس طرح کی تحریک بے شمار مسائل پیدا کرتی ہے ۔ جن سے نا صرف اقتدار متاثر ہوتا ہے بلکہ عوام اس سے بھی زیادہ متاثر ہوتے ہیں یہ تحاریک ملک میں قیام امن کو نا ممکن بنا دیتی ہیں ۔ یعنی امن کے قیام کیلئے کی جانے والی ہر کوشش کو ناکامی میں بدلنا ان مسلح تحریکوں کے دسا تیر میں شامل ہوتا ہے ایسے لوگ /عناصر جن کی اس نہج پر ذہن سازی کی گئی ہوتی ہے۔ ہزار ہا دلائل کے باوجود بھی منفی عزائم سے تائب نہیں ہوتے ۔ یہ تحاریک ( ان میں اور ان کیلئے کام کرنے والے ) عوام میں اس قدر مقبولیت حاصل نہیں کر پاتی کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکیں ۔ اپنی اسی ناکامی کے پیش نظر منفی سرگرمیوں کے ذریعے عوامی مباحث میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ جیسا کہ اس وقت پاکستان میں مسلح اور شورش پسند تحریکیں سرگرم عمل ہیں جو محض معاشرے میں بے چینی کی کیفیت پیدا کر رہی ہیں ۔ ویسے کوئی بھی متحرک گروہ یعنی تحریک اقتدار کیلئے ایک طرح کا چیلنج ثابت ہوتی ہے ۔ کیونکہ تحریک کا مقصد ہی مطالبات منوانا ہوتا ہے ۔ یہ مقاصد نیک بھی ہو سکتے ہیں اور بد بھی ۔ دوسرے لفظوں میں کچھ تحریکیں ملک میں نظام امن کیلئے کوشاں ہوتی ہیں جبکہ کچھ بگاڑ/انتشار کے نتائج کے حصول کیلئے کام کرتی ہیں ۔ ان سے نمٹنا انتہائی مشکل اور پیچیدہ ترین عمل ہے ۔ جن غیر مسلح گروہوں کا مقصد ملک میں امن و قانون کا نفاذ ہوتا ہے ۔ وہ تو ارباب اقتدار کو رائے دے کر مثبت انداز میں فرض بجالاتی ہیں ۔ اس کے بر عکس مسلح طاقتیں اس قدر بزدل ہوتی ہیں کہ وہ اپنی رائے پیش کرنے کیلئے بھی منظر عام پر نہیں آ سکتیں ۔ ان مسلح اور شورش پسند تحریکوں کو اپنے اس طرز عمل سے شدید ہز میت اٹھا نا پڑتی ہے ۔

پاکستان میں متحرک و سرگرم تحاریک خصوصاً مسلح انتہا و شدت پسند تحریکیں ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ ناصرف ان کی کار روائیوں سے عوام پر مہلک ترین حملے ہو رہے ہیں ۔ حساس ادارے بھی ان کے شر سے محفوظ نہ ہیں ۔ یہاں تک کہ حکومتی و سرکاری عہدیدار بھی ان کا شکار ہوئے ۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ ان شر پسندوں پر کن طاقتوں کا ہاتھ ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ مضر معاشرہ و ریاست عناصر کن قوتوں کی چھتری کے نیچے سر گرم عمل ہیں ۔۔۔۔؟ وہ لوگ ( خود کو مدبرو دانشور اور سیاستدان کہلانے والے) جو ان مسلح تحریکوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ڈھول بجاتے نظر آتے ہیں ۔ نہ جانے کیوں عقل سلیم اور دیدۂ بینا سے خالی ہیں ۔ جب ان کی منظور نظر دہشت گرد اور تنگ نظر تحریکوں کے پاس اس قدر قابل اور ذہین اذہان ہی موجود نہیں ہیں ۔ کہ جن کے مذاکرات کیلئے وہ سامنے لائیں ۔ کیا ان صورتوں میں مذاکرات جیسا قدم کامیابی سے ہمکنار ہوگا ۔۔۔۔؟ مذاکرات تو ان سے جائز تصور کیے جاتے ہیں ۔ جو مثبت اور منفی افعال کی پہچان رکھیں اور دلائل پر یقین رکھیں ۔

پاکستان میں ذرائع تعلیم کا طرز تدریس و تعلیم عوام ( طلباء و طالبات ) کو مالی ، سائنسی ، علمی اور شعوری ترقی دینا نہیں بلکہ اس سے بر عکس نو جوان نسل کی مخصوص مقاصد کیلئے ذہن سازی کرنا ان کے مقاصد ہیں ۔ تعلیم و تدریس کے انہی نظاموں کا ہی نتیجہ ہے کہ فی الوقت ہم پاکستانی فرقہ واریت کے عفریت کا خاص طور پر شکار ہیں ۔ دین اسلام نے اگرچہ فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے ۔ جس کی ہم رو گردانی کر رہے ہیں ۔ یہ نا فرمانی ایک طرح سے گناہ کا ارتکاب ہے ۔ کیونکہ فرقہ واریت اور فرقہ بندی ( باہمی تقسیم ) کا عمل موجود ہ خوں ریزی کا پیش خیمہ ہے۔ جس کی تلخی ہر شہری کو چکھنا پڑ رہی ہے ۔ تمام انسان جو کہ باہم بھائی ہیں انتشار اور تفریق کا شکار ہو کر آج زمانے میں ذلت و رسوائی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں ۔ جس سے نکلنا نا ممکن ہو چکا ہے ۔ انہی وجو ہات کی بنا پر عالمی سطح پر پاکستانیوں کا اخلاق خوبصورت انداز میں نہیں لیا جاتا ۔ ان ذرائع تعلیم و تدریس کا غیر معیاری ہونا ہماری ( پاکستانیوں کی )جڑیں کھوکھلی کرنا ہے ۔ جب تعلیم جیسا حساس اور مقدس فریضے کو طبقات اور فرقوں کے حوالے کر دیا جائے تو نو نہالان چمن جو روشن مستقبل کی ضمانت ہیں منفی راہوں پر چل نکلیں گے ۔ نظام تعلیم کو نگرانی کے عمل سے نہیں گزارا جا رہا ۔ طلباء و طالبات کو ایسی تاریخ رٹائی جارہی ہے ۔ جس کے مثبت اثرات ہیں ہی نہیں ۔ ہم نے اپنی تاریخ میں وسائل لوٹنے والوں کو ’’ ہیرو‘‘ بنا کر پیش کیا ہے ۔ اور وسائل کے دشمنوں کو بھی عظیم قائد کا خطاب دیا ہے ۔ یہی ذریعہ و طریقہ تعلیم ہی ہے جس کا نتیجہ فکری انتشار کی صورت میں ہمارے پیش ہے ۔ اگر ان نقائص اور خامیوں کو نظام تعلیم سے دور کر دیا جائے تو یقینا ایسی تحاریک جنم نہ لیں گی جو شورش اور فرقہ واریت کا باعث ہوں اور نہ ہی پھر بعد میں مذاکرات کی ضرورت پڑے گی ۔ جب مسلح اور شورش پسند تحریکیں پیدا ہی نہ ہوں گی تو دنیا کے سامنے ہزیمت کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا یعنی ’’ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ‘‘

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 47026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.