ہر ملک اور قوم کی بنیاد ی ضرورت اور اہمیت اس کا دفاع ہے۔
جتنا مضبوط اور قابل عمل دفاعی نظام ہوگا اسی قدر دوسرے ممالک اسے اہمیت
بھی دیں گے ، عزت بھی کریں گے اور ناحق تنگ کرنے یا ڈرانے سے باز بھی رہئیں
گے۔ اعلیٰ معیار کا دفاعی حصار زیادہ فوج یا اسلحہ بارود سے نہیں ہوتا بلکہ
اس کے معیار سے ہوتا ہے۔
پاکستا ن جن اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا کر رہا ہے اس کے لئے بہت
اچھا، معیاری اور دوسروں کے ہم پلہ دفاعی نظام کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے
پاکستان کے عسکری اداروں کو تعلیم ، تربیت اور اسلحہ ایسا چاہئے کہ ادھر
خطرہ محسوس ہو اور ہم ہر طرح مقابلے کے لئے تیار ہوں اور سُر عت سے دشمن کی
سازش اور عمل کو ناکام کردیں ۔ اس کے لئے منصوبہ بندی اور تیاری کی ضرورت
ہوتی ہے۔
ہم جب اپنا گھر بناتے ہیں تو اس کی دیواروں اور چھت کی مضبوطی کو جانچتے
ہیں کہ وہ دھوپ ، آندھی اور بارش میں کمزور ثابت نہ ہوں ۔ اس کے علاوہ
دروازے ، کھڑکیاں اور بیرونی دیواریں بھی مضبوط بنائی جاتی ہیں تاکہ کوئی
غیر متعلقہ شخص گھر میں داخل نہ ہوسکے ۔ حفاظت ہی کے پیش نظر گیٹ اور
دیواروں پر شیشے کے ٹکڑے یا نوکیلے سریے لگائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ
روشنی کے لئے انتظام کیا جاتا ہے۔ اب تو سیکورٹی گارڈ یا سی سی ٹی وی کیمرے
بھی لگائے جاتے ہیں ۔ ایک گھر اور خاندان کے لئے اگر یہ سب کچھ کیا جاتا ہے
تو پاکستان تو ہم سب کا گھر ہے ۔ اس کی حفاظت کے لئے تو ہم ہر قربانی دے
سکتے ہیں ۔
ذرا سوچئیے وہ لوگ جو بغیر سوچے سمجھے دفاعی بجٹ پر تنقید شروع کر دیتے ہیں
انہیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ دفاع کے لئے بہت سی ضروریات ہوتی ہیں
جن کو پورا کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے ۔ وہ نہ جانے کیا سوچ کر خود اختراء شدہ
تصورات ، افواہوں کے زیر اثر یا اندرونی و بیرونی سازشی عناصر کے پراپیگنڈے
کو نہ سمجھتے ہوئے کسی تجزیے کے بغیر بیانات دے دیتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کو
بھی ایسے لوگ استعمال کرتے ہیں اور اس طرح غلط فہمیاں پھیلانے کا موجب بنتے
ہیں ۔
نیا دور اب وہ دور ہوگا جس میں تصوراتی فلمیں جن میں کمپیوٹر سپاہی اور
اسلحہ جنگ کرتا ہے، وہ سب حقیقی دنیا میں ہوگا ۔ اب جنگیں نہ تو آمنے سامنے
لڑی جائیں گی اور نہ ہی اعلان جنگ کرکے اسلحہ و بارود کے زور پر جیتی جائیں
گی۔ اب تو ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ہر قسم کی جنگ اسی کمپیوٹر سسٹم سے ہوگی
۔ اسلحہ بھی اسی سے اپریٹ ہوگا ۔ یہ کتنا مہنگا ہے اس کا تو ہم اندازہ نہیں
لگا سکتے لیکن آنے والے وقتوں میں یہ ہماری ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں اب سے
ذہنی طور پر تیار ہونا پڑے گا۔ آج ہمیں جس دفاعی نظام کی ضرورت ہے اس کے
اخراجات پر سوال اُٹھانے کے بجائے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرح سے ان
امور میں خود کفیل اور خود انحصاری اپنا سکتے ہیں ۔ کس طرح ہم اپنے
نوجوانوں کو نئی چیزیں سکھانے اور اپنانے کے لئے تیار کر سکتے ہیں ۔ جب
معاملہ دفاع کا ہو تو دورائے نہیں ہوتیں۔ اس وقت وہ قومی معاملہ ہوتا ہے جس
کو قومی امور کے طور پر دیکھنا چاہئیے۔ |