زمانہ بچپن سے لے کر صحافتی زندگی کے آغازتک نہ کبھی شعرو
شاعری سے واستہ پڑا تھا اور نہ ہی میوزک سے کیونکہ پرورش کا زیادہ تر حصہ
بڑے بھائی کے سائے میں گزرا تھا اور وہ یہ کہہ کر کہ شعرو شاعری سے تعلیمی
نقصان ہوتا ہے منع کر دیتے تھے اس کے بعد جب صحافتی زندگی کی ابتدا ہوئی تو
تھوڑی آزادی مِلی تب ایک دوست کے پاس سے پاکستان کی ایک مایہ ناز شاعرہ
پروین شاکر کی بُک کے چند اشعار پڑھنے کا اتفاق ہوا جسے پڑھتے ہی مائنڈ
تھوڑا تبدیل سا لگنے لگا اور ساری بُک پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا جسے پورا
کرنے کیلئے جب بُکس کی ایک مارکیٹ میں گیا تو وہاں اپنے استادِ محترم کو
پاکر اُن کے قریب چلا گیا ،جنہوں نے دیکھتے ہی بڑے سخت لہجے میں پوچھا کہ
یہاں کیسے آئے ہو جواب دیا پروین شاکر کہ فلاں بُک لینے آیا ہوں،جواب
ملاپروین شاکر کی بُکس پڑھنے والے ہوگئے ہو، یہ سنتے ہی ندامت کا مارامنہ
لٹکائے واپس آگیا اور توبہ کر لی کہ آج کے بعد ایسا کچھ نہیں کرنا اور اپنی
صحافتی دُنیا میں کھو گیا کچھ ہی عرصہ بعد پہلے کی نسبت کافی آزادی مِل گئی
تب ایک جگہ پروین شاکر کی ایک مکمل بُک پڑھنے کا اتفاق تو ہوگیا مگر یاد
کچھ نہ رکھ سکا یہ لاہور کی بات ہے اس کے بعد سال اکتوبر 2012میں جب گھر
آیاتو کافی تیزسردی کے دِن تھے سب عزیز و اقارب گھر میں اکٹھے تھے دن ان سے
مِلنے ملانے میں گزر گیا جب شام ہوئی توکالم لکھنے کیلئے بیٹھ گیانیا لکھنے
سے پہلے سابقہ کالموں پر آئی ہوئی اپنے قارئین کی آراء پڑھنے کیلئے پہلے
میل ان بوکس کھولا پھر فیس بُک کھول لی تو ایک فرینڈ کو ٹیگ ہوئی ہوئی ایک
ایسی غزل میرے سامنے آئی کہ میں اُس پر اپنی رائے دینے پر مجبور ہوگیا خیر
اس پرجورائے دی وہ اب بھی اچھی طرح یاد ہے اور یہ رائے میں نے شرارتاً دی
تھی کہ محترمہ یہ غزل ہے یا اندر کا اُبال؟جس پراُس وقت توکوئی جواب نہ آیا
مگر کچھ ہی دِنوں بعد ہماری فیس بُک فرینڈ شِپ ضرورہوگئی یہ ایک شاعرہ کی
آئی ڈی تھی مگر مجھے اس کا فرینڈ شِپ کی ابتدا میں کچھ علم نہ تھا اور علم
تب ہوا جب اِن کی اس آئی ڈی سے میری وال پر کچھ مذید غزلیں ٹیگ ہونا شروع
ہو گئیں جنہیں پڑھتے ہی میں پروین شاکر کو بھول گیا ان کی کسی غزل میں تو
انسانیت سے محبت کا چمن کھلا ہوا تھا اور ایسا چمن جسے پڑھتے ہی انسان مہک
اُٹھے اور کسی غزل میں عورت کے جذبات کی قتلِ عام پر اُس کی سسکیاں وآہ و
پکار کی بڑی خوبصورتی سے اکاسی کی ہوئی تھی اور ایسی عکاسی کہ جو انسان کو
یکسر بدل دے ،اُنکی شاعری سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاعری میں بیان کردہ
عورت کے جذبات و حالات اور احساسات جیسے اُن کے اپنے ہوں یعنی کہ وہ جو کچھ
اپنی شاعری میں بیان کر رہی ہیں وہ سب اُن کے اپنے ساتھ بیت رہی ہے جسے
محسوس کرکے اُن کے دُکھو ں کا مداوا اور سُکھوں میں شرکت کرنے والا اُن کا
اپناکوئی نہیں ہے ،اس لئے میں نے موبائل فون پر اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش
کی اور جب رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ شاعرہ کے ساتھ ساتھ وہ ایک وکیل بھی
ہیں اور جونام فیس بُک پر دیا گیا ہے وہ اُن کا نِک نیم جبکہ اصل نام
شمائلہ امبرین خٹک ہے ،جوکہ آج کل فیصل آباد میں پریکٹس کر رہی ہیں اور
فیصل آباد بار ایسوسی ایشن کی تاریخ میں 1137ووٹ لے کر منتخب ہونے والی بار
کی وہ پہلی فنانس سیکرٹری بھی ہیں ،شمائلہ بہت اچھے اخلاق کی مالکہ تھیں اس
لئے یہ سب جاننے کے بعدجب میں نے جو مجھے محسوس ہو رہا تھا اُس کے بارے میں
ایک بلا جھجک سوال کیا تو اُنہو ں نے بتایا کہ یہ میرے اپنے جذبات نہیں ہیں
میراتو ایک بہت بڑی فیملی سے تعلق ہے اور میرے ہر دُکھ سُکھ میں شریک ہونے
والے میرے اپنے بے شمار ہیں ، پیشے کے اعتبار سے میں ایک وکیل ہوں جبکہ
شاعری میرا شوق ہے ،جسے پورا کرنے کیلئے مَیں اپنے جذبات پر نہیں بلکہ اپنے
پاس آنے والی بے سہارا اور دُکھی عورتوں کے جذبات پر لکھتی ہوں ،شمائلہ کے
یہ سب بتانے کے باوجود میں پوری طرح مطمعئن نہیں ہو رہا تھا میرے دِل میں
یہی شک جا رہا تھا کہ اتنی اعلیٰ قسم کی شاعری کوئی وکیل نہیں کر سکتا
کیونکہ ہماری طرح وکلا کے پاس بھی وقت کی بہت قلت ہوتی ہے لہذا یہ عورت اگر
وکیل ہے تو شاعرہ نہیں اگر شاعرہ ہے تو وکیل نہیں ، اس شک کو دور کرنے
کیلئے میں اُن کے پاس چلا گیا،مگر وہاں پہنچنے پر حقیقت کچھ اور ہی نکلی ،وہ
حقیقت یہ تھی کہ شمائلہ واقع ہی ایک بہت اچھی وکیل بھی تھیں اور انتہائی
حساس طبیعت کی شاعرہ بھی ، ہر وقت مردوں میں رہنے کے باجود اُن کے چہرے پر
حیا کا نور برس رہا تھا اور اُن کی خوش اخلاقی و برداشت کا یہ عالم تھا کہ
طرح طرح کی خواتین سے بھرے ہوئے آفس میں اُن کی تلخیوں کے با وجود بھی وہ
ہر ایک کی بات بڑی تحمل مزاجی سے سُننے کے ساتھ ساتھ نوٹ بھی کر رہی تھیں
جبکہ اُن کی بڑی بہن شمیم اختر بے سہارااور بے بس خواتین کو فری لیگل ایڈدے
رہی تھیں جوکہ ایک بہت اچھی بہن بہت اچھی ماں ، اور با حیاخاتون دکھائی دے
رہی تھیں وہاں ہر ایک کلائینٹ کی بڑے اچھے طریقہ سے خاطر تواضع ہو رہی تھی
یہ سب دیکھتے ہی دیکھتے جب سب لوگ چلے گئے تو شمائلہ ایک عورت کی بتائی
ہوئی ایک سٹوری پر اپنی شاعری کرنے لگیں،جس پر میں نے ایک سوال کیا ہے کہ
اُس عورت کی بتائی ہوئی سٹوری پر عزل لکھنے کا کیا فائدہ ؟کیا اس سے اُس کی
تکلیف کم ہو جائے گی ؟تو جواب مِلا کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقت رکھتی ہے
میری اس غزل سے اُن کی تکلیف تو کم نہیں ہوگی مگر اسے پڑھنے سے دیگر لوگوں
کے دِل موم ہو جائیں گے جس سے بِنتِ حوا پر ہر پل ٹوٹتا رہنے والا ظلم
کاپہاڑ اپنی جگہ تھم جائے گا،خیر ان باتوں ہی باتوں میں جب شام ہونے لگی تو
میں نے اجازت چاہی اور واپس چل دیا اور سارے کے سارے راستے ذہن سے یہی بات
نہ گئی کہ عورت ہو تو ایسی ہی ہوجو مردوں کے جھُرمٹ میں رہ کر بھی اپنے
تقدس کو پامال نہ ہونے دے،۔ |