میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

مدت بعد اسلام آباد کے دوستوں کے ساتھ ملاقات ہو رہی تھی۔دوپہر کو ایک دوست کے گھر ہم اکٹھے ہوئے۔شام تک گپ شب لگتی رہی۔ہم سارے عمر کے اس حصے میں ہیں جب آپ اپنا کیرئیر تمام کر کے یا تو کسی نئی نوکری کی تلاش کر رہے ہوتے ہیں یا کوئی کسی سیٹھ کی نوکری کر کے اس کی ڈانٹ کھا رہا ہوتا ہے۔کچھ میری طرح کے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے نوکری کے دوران اربابِ حل وعقد سے بنا کے نہیں رکھی ہوتی۔بزعمِ خود انہیں زہر ہلاہل کو قند کہنے کی عادت نہیں ہوتی لیکن اس وقت وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ عادت ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی زندگی میں کس قدر زہر گھولے گی۔اسی قبیل کے لوگوں کو جب کوئی گھاس نہیں ڈالتا جب انہیں کہیں کوئی نوکری نہیں ملتی تو وہ سروس کے دوران جوڑے اثاثے بیچتے ہیں۔کمیوٹیشن کی مد میں ملی رقم کھاتے ہیں اور پوچھنے والوں کو بتاتے ہیں کہ بس یار بہت کر لی نوکری اب گھر پہ آرام کرتے ہیں کتابیں پڑھتے اور واک کرتے ہیں۔ساری زندگی بچوں سے کٹ کے گذاری ہے اب ان کی محبتوں کا مزہ لیتے ہیں۔حقیقت کیا ہوتی ہے یہ وہی جانتے ہیں جو اس دور سے گذر رہے ہوتے ہیں۔

اس دوران اکثریت کے بچے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ لاکھوں کی فیسیں اور دوسرے خرچے انہیں آہستہ آہستہ کھانواں کر دیتے ہیں۔بچت مٹھی سے ریت کی طرح آہستہ آہستہ کھسکتی رہتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب بت کھوکھلا ہو کے گر جاتا ہے اور بچے سڑک پہ آ جاتے ہیں۔خوش قسمت ہوتے ہیں وہ جانے سے پہلے کم از کم بچوں کی تعلیم کی فکر سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ایسے ہی بہت سارے اکٹھے تھے۔نئی نوکری کی باتیں بچوں کی تعلیم ان کے رشتے ان کی شادیاں۔کچھ سچے کچھ جھوٹے قصے۔سب چلتا رہا۔باتیں باتیں اورمزید باتیں۔شام تک ہر شخص نہال تھا۔ ماضی کے قصے ۔دوران سروس کی جانے والی حماقتیں اور پھر ان کے نتائج۔آپس کی چبقلشیں سب کچھ شئیر کیا گیا۔پرانے قصوں کو بھلا کے ایک دوسرے کی خیر خبر رکھنے کے عہدو پیمان باندھے گئے۔اس کمال گیٹ ٹوگیدر کا آخری مرحلہ ایک ریستوران میں ڈنر تھا۔سب اپنی اپنی گاڑیوں میں ریستوران کی طرف روانہ ہو گئے۔

ریستوران اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک گھر میں قائم ہے۔وہاں پہنچے تو ایک بہت ڈیشنگ پرسنالٹی نے استقبال کیا۔بندہ شکل و صورت اور لباس سے تو پڑھا لکھا لگتا تھا لیکن گفتگو ہوئی تو برطانوی لہجے میں اس کی انگریزی نے ہم اردو میڈیم کو تو مبہوت کر کے رکھ دیا۔ ہم میں جو ذرا زیادہ انگریز ٹائپ تھے۔انہوں نے اس بابے سے گپ شپ شروع کر دی۔ہم جو دور بیٹھے تھے ہمارا خیال تھا کہ بابا ضرور اس ریستوران کا مالک ہے۔اس کی خود اعتمادی اور گفتگو اسی بات کی غماز تھی۔کھانا زبردست تھا اور حسن ِ انٹظام کا شہہ کار۔سب نے خوب انجوائے کیا۔ کھانے کے دوران ہم نے بابا جی کو بھی جوائن کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے سلیقے سے معذرت کی۔کھانے کے دوران وہ مسلسل انتظامات کی نگرانی کرتے رہے۔ کھسر پھسر تو کھانے دوران بھی چلتی رہتی ہے۔ ہم نے اپنے اس دوست کی صلاحیتوں اور اس کی پہنچ کے قائل ہو گئے جس نے اس بڑے ریستوران کے مالک کو لائن حاضر کر رکھا تھا۔مجال ہے جو وہ ایک لمحے کوبھی وہاں سے ہٹا ہو۔کچھ دوستوں نے اسی محنت کو اس کے کاروبار کی کامیابی کا راز قرار دیا۔ہم جیسے نہلوں کو طعنہ دیا گیا کہ اور کچھ نہیں تو اس طرح کا ایک ہوٹل ہی کھول لو۔ہم تو یونہی ہر شخص سے متائثر ہونے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔سوچا ڈنر کے بعد وقت ملا تو بابا جی سے اس کامیاب کاروبار کے بارے ٹپ لیں گے۔کھانے کے بعد قہوے کا دور چلنے لگا تو ہم بابا جی کے قریب ہو گئے۔ ہم نے انہیں اس کامیاب کاروبار کو کھڑا کرنے اور چلانے پہ ذرا دیسی لہجے میں مبارک باد دیتو بابا جی آکسفورڈ کی انگریزی سے اتر کے سیدھے پنجابی پہ آ گئے بلکہ ہندکو پہ جو ہماری مادری زبان ہے اور جس سے ہمیں ماں جتنا تو نہیں لیکناس جیسا ہی پیار ہے۔ بابا جی نے جو کہانی سنائی اس نے دن کے سارے ہلے گلے کا مزہ کرکرا کر دیا۔ ہمارا دل تو ویسے ہی" کچ کا کھڈونا "یعنی کانچ کا کھلونا ہے جوہلکی سی ٹھیس لگنے پہ کرچی کرچی ہوتا رہتا ہے۔

ان کی کہانی مختصر بھی تھی اور عبرت آموز بھی۔انہوں نے بتایا کہ وہ اس ریستوران کے مالک نہیں بلکہ پارٹ ٹائم ملازم ہیں۔ یہ ریستوران ان کے ایک دوست کا ہے جس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ انہیں یہاں کام دے رکھا ہے۔اس آمدن سے وہ اپنا اور اپنی ایک معذور بچی کا پیٹ پالتے ہیں۔نوکری میں جو کچھ کمایا تھا وہ دو بیٹوں کی پڑھائی پہ لگ گیا۔ پہلے انہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہ باہر چلے گئے۔ابھی ایک آسٹریلیا میں ہے اور دوسرا امریکہ میں۔نامی انجینئر ہیں ۔وہاں سے آنے والے دوست ان کی کامیابیوں کے قصے سناتے ہیں۔ دونوں نے وہیں شادیاں کیں اور اپنے بچوں کے ساتھ وہاں کے شہری ہیں۔بیگم نے کچھ عرصہ تو ان کی جدائی برداشت کی لیکن ایک دن چپکے سے فریاد کرنے اﷲ میاں کے پاس پہنچ گئیں۔اب ایک معذور بچی ہے جو میری ذمہ داری ہے۔دوران سروس میں بھی زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتا تھا اس لئے نوکری کہیں ملی نہیں۔ نوکری کے دوران کی گئی بچت اور پنشن کہاں تک ساتھ دیتی۔اس ریستوران کا مالک میرا دوست ہے۔اسے میرے حالات کا پتہ چلا تو اس نے مہربانی کی اور مجھے اس ریستوران کی نگرانی سونپ دی۔

میرے دو بچے بھی انجنیئرنگ پڑھ رہے ہیں۔میں بھی دوران سروس زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتا تھا۔میں بھی اپنی کمیوٹیشن کھا چکا اور اب اثاثے بیچ کے بچوں کو پڑھا رہا ہوں۔میرا بھی ایک معذور بچہ ہے اور مزے کی بات یہ کہ میرے دوستوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کا اسلام آباد کے پوش علاقے میں ریستوران ہو۔ سوچتا ہوں اس سے پہلے کہ بچے پڑھ کے باہر چلے جائیں کہیں کوئی نوکری ہی کر لوں۔دل کہتا ہے بوڑھے ہو اب آرام کرو گھومو پھرو موج میلا کرو۔میرے بچے لیکن مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291838 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More