بِلا شک و شبہ یہ دنیا فانی ہے،ہر ذی روح نے یہاں
سے ایک دن کو چ کر جانا ہے گویا اس فانی دنیا سے رخصت ہو نا کو ئی غیر
معمولی بات نہیں ، بلکہ معمول کی بات ہے مگر بعض ہستیاں ایسی ہو تی ہیں جس
کے بچھڑ جانے سے یہ معمول کی نہیں بلکہ غیر معمولی واقعہ لگتا ہے اوران کے
بچھڑ جانے سے ہی اس غم کا اندازہ ہو جاتا ہے جو اس سے قبل اس کیفیّت سے
گزرے بغیر غم کی کیفیت کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ہمیں اس بات کی توقع تو ہو
تی ہے کہ کو ئی بھی کسی بھی وقت ہم سے جدا ہو سکتا ہے لیکن ہمیں اس بات کا
قطعی اندازہ نہیں ہو تا کہ کسی کے بچھڑ جانے سے ہمارے جسم و روح کس حد تک
متاثر ہو نگے۔دراصل بعض ہستیاں ایسی ہو تی ہیں جن کی رحلت سے ایک ایسا خلاء
پیدا ہو تا ہے جس کو پر کرنا کسی کی بس کی بات نہیں ہو تی۔ایسی نا قابلِ
فراموش ہستیوں میں ایک معتبر نام مرحوم لفٹیننٹ کرنل(ر) ولی احمد خان کا ہے
جو گزشتہ روز بروزِ اتوارہم سب کو روتا چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داغِ
مفارقت دے گئے۔
کرنل ولی احمد خان نے 1937میں ضلع کرک کے ایک دورافتادہ گا وں متوڑ میں
معروف شخصیت جمعدار لشکری خان کے گھر آنکھ کھو لی،ملٹری کالج جہلم جیسے
نامور ادارے سے تعلیم حاصل کی اور 1959میں پاک آرمی میں کمیشن حاصل کر کے
23ویں پی ایم لانگ کو رس میں شامل ہو ئے اورٹرینینگ مکمل کرنے کے بعد پاک
فوج کے مایہ ناز گروپ فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں شمو لیت اختیار کی۔
پاک بھارت جنگ 1965اور 1971کی جنگوں میں حصہ لیا ۔ایک نڈر، بہادر اور سر تا
پا فو جی ہو نے کے ساتھ جس وصف نے آپ کو امتیازی حیثیت بخشی وہ آپ کی
ملنساری اور انسان دوستی تھی، جو کوئی آپ سے ایک دفعہ ملتا،اس کا گر ویدہ
بن جاتا۔دورانِ ملازمت یا بعد از ملازمت بے شمار لو گوں کی مدد کی اور فا
ئدہ پہنچا تے رہے ۔حدیث شریف ہے ’’ خیر من الناس من ینفع الناس ‘‘ یعنی
سرکارِ دو عالم، سرورِ کائنات حضرت محمدٌ کا قول ہے کہ ’’ لوگوں میں بہترین
شخص وہ ہے جو لو گوں کو فا ئدہ پہنچا ئے ‘‘ اور یقینا اس حدیث مبارکہ کی
روشنی میں کرنل ولی احمد خان (مر حوم ) ایک بہترین شخص تھے۔مجھے ان کی
انتقال کی خبر ان کے بھائی صوبیدار (ر) احمد خان نے بذریعہ فون دی، ان کی
انتقال کی خبر صرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ ان کے تمام رشتہ داروں، عزیزوں او
ر دوستوں کے لئے غم کا پہاڑ ٹوٹنے کے مترادف تھی۔میں بمعہ اپنی اہلیہ
بھتیجے ، ڈاکٹر نوید اور محمود کے ان کے گھر چک لالہ راولپنڈی پہنچا تو
وہاں ایک کہرام مچا ہوا تھا، ان کے چاہنے والوں کا ایک تا نتا بندھا ہوا
تھا۔واضح رہے کہ آپ کافی عرصہ سے ذیا بیطس اور گردوں کے مرض میں مبتلا تھے
اور آپ نے راولپنڈی ہی میں تدفین کی خواہش ظاہر کی تھی بوجہ ازیں ان کے
گاوں سے بلکہ پورے ضلع کرک سے راولپنڈی لوگوں کی آ مد کا سلسلہ جاری
تھا۔میں ان کے دیدار کے لئے ان کے چارپائی کے پاس پہنچا تو ہزار کو شش کے
باوجود ضبط کا یارا نہ رہا اور آنسو ٹپک ٹپک میرے آنکھوں سے گرنے لگے۔ان کے
فر زندان کرنل(ر) فرید اقبال، میجر(ر) جا وید اقبال اور اختر اقبال اپنے
پیارے والد کی داغِ مفارقت پر سکتے کے عالم میں تھے۔ان کے بھائی احمد خان،
محمد خان،شریف خان،عبدالوحید خان اور گل وحید خان بھی غم سے نڈھال تھے۔
بریگڈئیر(ر) عطا گل، کرنل شاہد اور کیپٹن طاہر عثمان دور سے آ ئے ہوئے
مہمانوں کی خاطر مدارت میں مصروفِ عمل تھے۔جنازے کا وقت دن ڈھائی بجے مقرّر
تھا ۔ہم دو بجے ان کا جسدِ خاکی آرمی کے ایمبولنس میں لے کر ریس کورس
قبرستان کی جانب روانہ ہو گئے تو ان کی شریک حیات، بیٹیاں ،بہنیں،بہو اور
دیگر پرستار حسرت و یاس، رنج و عالم اور محرومی کی سرابوں میں گریہ کناں
تھے۔قبرستان پہنچے تو وہاں تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔شدید گرمی کے باوجود بے
شمار لوگ آپ کی ّ آخری دیدار کے منتظر تھے۔جنازہ پڑھنے کے لئے صف بندی ہو
ئی ، میں نے اپنے دائیں بائیں اور آ گے پیچھے نظر دوڑائی تو سابق آرمی چیف
جنرل عبد الوحید کا کڑ، جنرل (ر) حامد رب نواز، جنرل(ر) اشرف جنجو عہ، جنرل
(ر) عمران خان، جنرل(ر) امجد فہیم اور جنرل(ر) آر ڈی بھٹی کے علاوہ کئی
اعلیٰ فوجی افسران کھڑے نظر آئے۔حسب ِ روایت نمازِ جنازہ پڑھنے سے پہلے
مرحوم کے بھائی احمد خان مختصر مگر جامع الفاظ میں جنازہ میں شامل لو گوں
سے مخاطب ہو ئے ،اگر چہ ان کی ساری باتیں قابلِ سماعت تھیں مگر میرے دل کو
جو با ت لگی وہ یہ تھی کہ ہم پانچ مرحوم کے بھائی اور تین انکے بیٹے یکجا
بھی کر لیں تو ان سے ایک کرنل ولی احمد خان نہیں بن سکتا۔میں سوچتا رہا ،
واقعی ایسا ہی ہے،کرنل ولی احمد خان جیسے لوگ دنیا میں کم ہی پیدا ہو تے
ہیں ۔اﷲ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے۔
ؔبچھڑ ا کچھ اس انداز سے کہ ر’ت ہی بدل گئی ۔۔۔ایک شخص سارے شہر کو ویران
کر گیا ۔ |