یہ جنگ و جدل یہ خود کش حملے،یہ جہالت،یہ قتل وغارت گری
ہم پاکستانی مسلمانوں کو کہاں سے کہاں لے جارہی ہے۔ہم کتنے دور ہوتے جارہے
ہیں اپنے اصل مقام سے۔کیا ہمارے دل میں اﷲ کا خوف مٹتا جا رہا ہے؟یہ گیارہ
ماہ کی آلائش ہم کو اندر سے کھوکھلا کر چکی ہے۔ہم دور بہت دور ،بہت دور
ہوتے جارہے ہیں اس مقام سے جو ہمیں سارے جہانوں کے رب نے عطا کیا تھا۔ہم کو
تمام امتوں پر فضیلت عطا کی گئی تھی۔ہم کو امت وسط کہا گیا معتدل لوگ،افراط
و تفریط سے پاک ۔ہمیں انتہا پسند نہیں بنایا گیا،ہمیں بد اخلاق نہیں بنایا
گیا۔ہمیں ظلم سے بچنے کا کہا گیا۔لیکن ہم کیا کر رہے ہیں ؟ملکی حالات کو
دیکھیں تو ہر طرف بے چینی ،بے سکونی ،خوف مار کٹائی اس کے علاوہ کچھ نظر
نہیں آتا۔چند دنوں بعد وہ ماہ مبارک جلوہ افروز ہوا چاہتا ہے جس میں شیطان
کو بند کردیا جائے گا۔جہنم کے دروازے بند کر دئے جائیں گے اور جنت کے
دروازے کھول دئے جائیں گے۔اور کمزور سے کمزور ایمان والا مسلمان بھی اپنے
اندر تقویٰ کی صفت پائے گا۔اپنے اﷲ کے حکم پر اس وقت تک کھانا پینا روکے
رکھے گا جب تک اسے اجازت نہ ہوگی۔یہ ہے وہ حقیقت جو شیطان کے قید ہو جانے
کے بعد ایک کلمہ گو مسلمان اپنے ایمان کی کیفیت خود اپنے اندر محسوس کرتا
ہے۔انسان فطری طور پر مسلمان پیدا کیا گیا ہے کیونکہ جو کچھ فطرت نے اسے
عطا کیا ہے وہ اس کے خلاف نہیں جاتا ۔وہ ناک سے سانس لیتا ہے کان سے
نہیں۔وہ کان سے سنتا ہے آنکھ سے نہیں۔وہ زبان سے بولتا ہے دل سے
نہیں۔کیونکہ اﷲ نے اسے اختیار ہی نہیں دیا ہے کہ وہ ان باتوں کے خلاف کر
سکے۔جہاں اﷲ نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو اچھائی اختیار کرے
چاہے تو برائی کی طرف راغب ہو جائے وہا ں وہ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے
اﷲ کے بتائے ہوئے طریقوں کی پیروی نہیں کرتا ۔نہ اﷲ کے پیغمبروں کی مانتا
ہے۔اور وہ ان باتوں کے نا ماننے کے نتائج سے بھی بے خبر رہتا ہے۔جان بوجھ
کر بھی وہی بات کرتا ہے جس کے بارے میں اسے علم ہوتا ہے کہ یہ بات اﷲ اور
اس کے پیارے حبیب ﷺ کو پسند نہیں اور اس بات کے نتائیج اس دنیا میں چاہے نہ
نکلیں لیکن حساب کتاب کے دن اس بات کا بدلہ اسے مل کر رہے گا۔یہ ساری باتیں
اسے شیطان سجھاتا ہے ۔تبھی تو جب اس شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے تو مسلمانوں
کی اکثریت بھلائی کی طرف چل پڑتی ہے۔لیکن جو لوگ ایمان اور احتساب کے ساتھ
اس ماہ مبارک کو گزارتے ہیں وہ اپنے اندر پختہ تبدیلی محسوس کرتے ہیں ۔ایسے
لوگوں کے اندر جو ایمانی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ عید کا چاند نظر آنے کے بعد
بھی موجود رہتی ہے۔اس ماہ میں مسلمان جتنی نیکیاں سمیٹتا ہے اسکا اجر اﷲ
خود عطا فرماتا ہے جو دس سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ
ہوسکتا ہے ۔کیونکہ اﷲ کا فرمان ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر بھی
میں اپنے بندوں کو دونگا۔رمضان کے روزے صرف امت محمدیہ ﷺ پر ہی فرض نہیں
ہوئے بلکہ اس سے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے۔یہ ایسی عبادت ہے جس کا تعلق اﷲ
اور بندے کے درمیان ہے۔باقی عبادات تو دوسرے شخص سے مخفی نہیں ہوتیں جیسے
ایک شخص نماز پڑھنے جا رہا ہے تو دوسرا اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ مسجد
کی طرف جا رہا ہے تو نماز پڑھنے جا رہا ہے۔ایک شخص عید قربان پر جانور ذبح
کرتا ہے دوسرے سے نہیں چھپاتا ۔حج پر جاتا ہے سب کو معلوم ہو جاتا ہے جو اس
کے عزیز و اقارب ہوتے ہیں اس کو الوداع کہنے ایئر پورٹ تک جاتے ہیں۔یہ وہ
عبادات ہیں جو بندہ دوسروں سے مخفی نہیں رکھ سکتا لیکن روزہ وہ عبادت ہے جو
بندہ اپنے رب کے لئے کرتا ہے اور براہ راست اس عبادت کا تعلق بندہ اور رب
کے درمیا ن ہوتا ہے ۔وہ تنہائی میں بھی اپنے اﷲ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں
کرتا دنیا کا کوئی فرد اسے نہ دیکھ رہا ہو لیکن اس کے دل میں یہ خیال آجاتا
ہے کہ اﷲ تو دیکھ رہا ہے۔ایک مسلمان کی یہی کیفیت اس کو حقیقی تقویٰ کی طرف
لے جاتی ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے ۔عام دنوں میں تو یہ صورت پیدا نہیں ہوتی؟اس
کی وجہ پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ واقعی شیطان یہ سب کام انسان سے
کرواتا ہے۔جب اس کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور وہ با لکل بے بس ہو
جاتا ہے تو ہمارے جیسا کمزور ایمان والا بھی اپنی عبادتوں میں نکھار پیدا
کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے۔موجودہ دور کے دہشت گرد اگر وہ مسلمان اپنے
کو سمجھتے ہیں تو بتائیں یہ پبلک places پر بموں کے حملے اور خد کش حملے
جائز ہیں ۔حکومتی ذمہ دار اپنی حکمت عملی پر غور کریں وہ اپنے ملک کے
شہریوں کے خلاف فضائی اور زمینی حملے کرکے ملک میں امن و امان قائم کر
پائیں گے۔آپ دونوں متحارب گروپ جو جنگ کا میدان سجائے ہوئے ہیں وہ اچھا کام
ہے یا ملک کو تباہی کی طرف لے جانے والا کام ہے آپ اس ماہ مبارک میں جب
شیطان قید کر دیا جائے گا ،اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے رب کو حاضر ناضر
جان کر یہ فیصلہ کیجئے گا کہ آپ لوگوں کی حرکتیں سارے جہانوں کے مالک کو
راضی کرنے والی ہیں یا اس کے غضب کو دعوت دینے والی ہیں۔اس ماہ مبارک میں
حتمی فیصلہ کر لیں کہ اپنے ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا ہے یا اس کو
آگ اور خون میں نہلائے رکھنا ہے۔آنے والا مہینہ ہمیں دوٹوک فیصلہ کرلینے کی
طرف توجہ دلا رہا ہے۔اﷲ حکومت اور طالبان دونوں کو صحیح فیصلہ کرنے کی
توفیق عطا فر مائے۔(آمین ثمہ آمین) |