میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

 (فادز ڈے پر ایک فکرانگیز تحریر)

باپ شفقت کا ایک سمندر اور خداوند تعالٰی کا ایک بہترین تحفہ ہے ۔ جس کی موجودگی سورج کی طرح ہوتی ہے یہ سورج گرم ضرور ہوتا ہے مگر نہ ہو تو اندھیرا بھی چھا جاتا ہے ۔جو گھر میں معاشی ضروریات پوری کرنے کی آخری دم تک کوشش کرتا ہے ۔جس کی کمائی سے گھر چلتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہـ:۔
ؔ مجھے تھکنے نہیں دیتے دضرورت کے یہ پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

ایک باپ کی محنت کو اس شعر میں شاعر نے کس خوبصورتی سے سمویا ہے۔ جو بچوں کے لئے دِن رات محنت کرکے اُن کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتا ہے اور جب اولاد کسی قابل ہوتی ہے تو فخر کے احساس سے شانہ چوڑا اور اپنے آپ کو دوبارہ جوان محسوس کرنے لگتا ہے۔

خداوند تعالیٰ نے اگر ما ں کے پیروں کے نیچے جنت رکھی ہے تو باپ بھی جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ، جس کی نافرمانی کرکے اس دروازے تک ہر گز نہیں پہنچا جا سکتا۔زندگی کتنی ہی کٹھن کیوں نہ ہو، حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اپنی اولاد کو معاشی پریشانیوں سے ہمیشہ الگ تھلگ رکھتا ہے ، اپنے ماتھے پر ایک شکن لائے بغیر اولاد کی فرمائشیں پوری کرنے کی حتی الامکان کوششوں میں جُٹا رہتا ہے۔پھر چاہے اس کے لئے اُسے قرض کی دلدل میں جا کرساری عمر اس بوجھ کو اپنے کاند ھوں پر اُٹھائے اُٹھائے پھرکر محنت کرنی پڑے یا دو دو نوکریوں کی صورت میں رات گئے گھر واپس آنا پڑے جو صبح مُنہ اندھیرے بچوں کو سوتا چھوڑ کر جاتا ہے تو رات گئے آکر سوتے ہوئے بچوں کا ماتھا چومتا ہے کہ اگر سارا دن بچوں کو نہ دیکھا تو کیا ہوا؟؟؟؟آج منّے کی نئی سائیکل ، جوتے ،بیگ یا کسی بھی خواہش کے لئے پیسے تو جمع ہو گئے؟

مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ایدھی اور اسی جیسے دوسرے ادارے ایسے ہی بد قسمت والدین سے بھرے پڑے ہیں ، اُس ملک اور مذہب کے ماننے والوں میں جہاں خاندانی نظام اور والدین کی اہمیت پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے اُسی ملک میں اولاد اپنے بوڑھے والد کو ایک بوجھ سمجھ کر اتار پھینکتی ہے،جن کے بڑے بڑے گھروں میں ایک باپ کے لئے جگہ نہیں ہوتی،وہ باپ جس نے ان کو اس قابل کیا ہوتا ہے کہ وہ بڑی بڑی کمپنیوں میں ملازمت کرکے اپنی کمائی میں اضافہ کرتے ہیں ، جہاں انھیں یہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ اُن کا باپ اتنا بوڑھا ہو گیا ہے کہ وہ بچوں کی طرح ضدیں کرتا ہے ،غصّے میں چیختا ہے کیا ایسی اولادیں اپنا بچپن بھول گئیں ؟؟؟جب وہ ضدیں کرتے چیختے چلاتے تو کیا اُن کے باپ نے اُن کو گھر سے نکال کر پھینک دیا؟؟؟؟؟؟نہیں بلکہ اُن کی تمام ضدوں کو پورا کیا ۔

ہر سال جون کے دوسرے ہفتے فادرز ڈے منایا جاتا ہے ،یہ دِن بھی عجیب ہوتے ہیں۔صرف ایک دِن باپ کو ہیپی فادرز ڈے کہہ کر اپنا فرض پورا کر لیا جاتا ہے ؟باپ کے لئے ایک دن؟؟؟ ہر دن نہیں؟؟؟؟؟اگر آ پ اپنے والد سے پیارکرتے ہیں تو اس کا اظہار روز کیجیئے۔خُدارا جن کے والد اولڈ ایج ہوم میں ہیں اُن کو وہاں سے لے کر آئیے کہ اس عمر میں والدین کو روٹی کپڑے سے زیادہ دِل جوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ آپ سے آپ کی دولت نہیں آپکا کچھ وقت مانگتے ہیں کیونکہ اولاد زندگی میں کتنی ہی کامیاب کیوں نہ ہو جائے اُسے والدین کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے جن لوگوں کے والد زندہ ہیں اُن کی قدر کیجیئے۔ کیونکہ یہ وہ نعمت ہے جس کا ثانی خدائے بزرگ و بر تر نے نہیں اتارا ، اِن کی قدر جب پتہ لگتی ہے جب وہ منوں مٹی تلے جا سوتے ہیں جب باپ اپنی اولادکو اتنا پیار دیتا ہے اور زندگی کے کسی حصے میں وہ نہ ہو تو اُس کی یاد میں آنکھیں چھلک جاتی ہیں کیونکہ باپ جیسا خالص پیاردنیا میں کوئی نہیں دے سکتا۔ ایک اچھی اولاد بنئیے تاکہ آپ ایک اچھے باپ بن سکیں ۔
مجھے اتنا پیار نہ دو با با
کل جتنا نصیب نہ ہوا
یہ جو ماتھا چوما کرتے ہو
کل اس پر شکن عجیب نہ ہو
میں جب بھی روتی ہوں بابا
تم آنسو پونچھا کرتے ہو
مجھے اتنی دور نہ چھوڑ آنا
میں روؤں تو تم قریب نہ ہو
میرے ناز اُٹھاتے ہو بابا
میرے لاڈ اُٹھاتے ہو بابا
میری چھوٹی چھوٹی خواہش پر
تم جان لُٹاتے ہو بابا
کل ایسا نہ ہو ایک گھڑی
جب تنہا تم کو یاد کروں
اور رو رو کر فریاد کروں
اے اﷲ! میرے بابا سا
کوئی پیار جتانے والا ہو
کوئی ناز اٹھانے والا ہو
Rubina Ahsan
About the Author: Rubina Ahsan Read More Articles by Rubina Ahsan: 18 Articles with 25853 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.