چوہدری آصف راولپنڈی کی یونین
کونسل نمبر87 کا جنرل مشرف کے غیر جمہوری دور میں ہونے والے بلدیاتی
الیکشنز میں پہلے کونسلر اور پھر اسی یونین کونسل کا ناظم رہا۔شماریات میں
اس نے ماسٹر کر رکھا ہے۔ اسی علاقے میں سٹی انگلش سکول کے نام سے ایک سکول
بھی چلاتا ہے۔پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت میں بھی اور اس کے بعد اس کی
اپنی پارٹی مسلم لیگ نون کی حکومت میں بھی وہ منتظر ہے کہ کب حکومت بلدیاتی
الیکشن کرواتی ہے۔خیر یہ تو وہی موئی سیاست کی ازلی فکر ہے جو ہمیں لاحق ہے
لیکن آج کا موضوع یہ نہیں۔ آج ایک درد بھری کہانی ہے جو دیکھ سن کے ہم تو
خوب روئے ۔ہم بس نام ہی کے مسلمان ہیں لیکن یہ کہانی سن کے اور دیکھ کے
ہمیں جو رونا آیا تو محسوس ہوا کہ زندگی میں پہلی بار ہم نے بھی کوئی عبادت
کی ہے۔ وہ عبادت جس میں معبود سامنے تھا اور بندہ اپنے محبوب کے قدموں
میں۔مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے اور خاندان۔مخلوق سے خالق کو بڑا پیار ہے اور جو
اس معاشرے میں اس نے تکلیف میں مبتلا کر رکھے ہیں۔ان کے صدقے میں وہ اس
دنیا میں انسانیت کو اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کا موقع دیتا ہے۔
میں تو اپنے بل سے کم ہی باہر نکلتا ہوں لیکن آصف سیلانی ہے۔ گلی گلی اور
محلے محلے گھوم کے ہیرے تلاشتا ہے ۔اکثر ان میں سے پتھر کیا کچرہ نکلتے ہیں
لیکن کبھی کبھار اس کی تلاش رنگ لاتی ہے اوراس کچرے کے ڈھیر سے وہ کوئی ایک
آدھ ہیرا بھی پا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔وہ آدمی جس کے دل میں مخلوق کا
درد ہو۔ان کی تکلیف وہ محسوس کر سکتا ہو۔ اس تکلیف کو ختم کرنے یا کم کرنے
کی سوچ رکھتا ہو۔ دوسروں کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہو میں تو اسے ہیراہی
کہوں گا۔اس کی نئی دریافت کا نام سردار پرویز ہے۔ سردار صاحب آزادکشمیر سے
تعلق رکھتے ہیں۔پاک کشمیر سوشل ویلفئیر سوسائٹی کے انتہائی فعال صدر
ہیں۔ساٹھ سال سے زیادہ عمر ہے لیکن بہت سارے نوجوانوں سے زیادہ جوان اور
متحرک۔بال ابھی بھی کالے کرتے ہیں لیکن دل ان کا شیشے کی طرح چمکدار ہے کہ
اس میں اﷲ کی مخلوق سے محبت کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ آصف کا دوست ہونے کے ناطے
میرا ان سے غائبانہ تعارف تو تھا لیکن ملاقات نہ تھی۔پھر ایک دن وہ غریب
خانے پہ تشریف لائے۔باتیں شروع ہوئیں تو وقت گذرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔عجز
اور کسر نفسی سردار صاحب پہ ختم ہے۔ان کے پاس کوئی ایسا سکہ ہے کہ بس اس کی
ایک جھلک دکھا کے مخاطب کو خرید لیتے ہیں۔
ہم بھی اب ان کے خریدے ہوئے ہیں۔ مدت بعد پنڈی جانا ہوا تو سردار صاحب سے
ملاقات کا اشتیاق ہمیں چک جلال دین لے گیا۔انہیں پتہ چلا تو آصف کے سکول
تشریف لائے۔آج لیکن طبیعت میں وہ تازگی مفقود تھی جو اس ستر سالہ نوجوان کا
خاصہ ہے۔سبب جاننے کی کوشش کی تو فرمانے لگے۔اسی سال کے ایک بزرگ سے روز
ملتا ہوں۔ کینسر کے مریض ہیں اور ان کی زوجہ ذیا بیطس کی۔آج ملنے گیا تو ان
کی حالت اچھی نہیں تھی۔اﷲ کریم کو آخری عمر میں چونکہ سخت آزمائش مقصود ہے
اس لئے اولاد کی نعمت بھی عطا نہیں ہوئی۔اﷲ کریم جنہیں ڈھیل دیتا ہے انہیں
ڈھیل دئیے رکھتا ہے۔جن کو لیکن اس نے مرتبے عطا کرنے ہوں انہیں ہی آزمائشں
کی کٹھالی میں ڈالتا ہے۔بزرگ کے قویٰ جب تک کام کرتے تھے یہ اپنا اور اپنے
ارگرد کے لوگوں کا خیال رکھتا رہا۔کینسر کا تو نام ہی ایسا ہے کہ کسی جوان
ہرے بھرے درخت کو باور کرا دیں کہ اسے کینسر ہے تو ہفتے میں زمین پہ آ رہتا
ہے۔بزرگ تو ویسے ہی اسی سال کے ہیں۔علاج کا خرچ پانچ لاکھ سے زائد ہے۔ان کے
پاس تو شام کے کھانے کے پیسے نہیں پانچ لاکھ کہاں سے لائیں۔زوجہ کام کاج کے
قابل نہیں۔ایک بھانجا ہے وہ خود صاحب عیال ہے اس نے مکان لے کے دے دیا
ہے۔اس کا خرچ وہی برداشت کرتا ہے۔اس سے زیادہ کی اس کی پسلی نہیں۔اﷲ کریم
اس بوڑھے مریض کی شکل میں خود چک جلال دین میں آ کے بیٹھ گیا ہے۔یہ چک کے
لوگوں کا متحان ہے۔کل محشر میں وہ سوال کرے گا اس علاقے کے ایم این اے
چوہدری نثار سے،دھمیال کے راجہ بشارت اور راجہ ناصر سے ،اسی علاقے سے ایم
پی اے چوہدری سرفراز افضل اور چک جلال دین میں بیٹھے ملکوں چوہدریوں اور
خانوں سے کہ میں تمہاری بستی میں نحیف ونزار بن کے بیٹھا تھا،میں بیمار تھا
میرے پاس کھانے کو کچھنہ تھا۔کیا تم میں سے کسی نے میرا حال پوچھا۔کیا میری
تکلیف کم کرنے کی کوشش کی۔کیا تم نے میری کسی بھی طرح مدد کی۔ جواب نفی میں
ہوا تو کیا اس کے بعد ان میں سے کسی کو مہربان اﷲ سے رحم کی امید کرنی
چاہئیے۔پرچہ ہم نے آؤٹ کر دیا ہے۔ابھی تو ہم کمرہِ امتحان میں ہیں۔کل کی
شرمندگی سے آج بچا جا سکتا ہے۔یہ پرچہ ہے تو چک جلال دین کے باسیوں کا لیکن
وہ فیل ہو گئے تو سوالوں کا سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔ پہلے پنڈی والے ،پھر
پنجاب والے اور اسلام آباد میں بیٹھے پاکستان والے۔یہ سب اس سوال کے عذاب
میں مبتلا ہوں گے۔
اگر کوئی بچے گا تو وہ چک جلال دین کا سابقہ ناظم آصف ہو گا یا سردار پرویز
جو جھولی پھیلا کے اس بابے کی مصیبت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اﷲ اپنے
حقوق معاف کر دیتا ہے لیکن بندے کے حقوق کبھی معاف نہیں کرتا۔خود سوچیں کیا
اس بیمار بابے اور اس کی زوجہ معاشرے کی ذمہ داری نہیں۔ وہ تو اب گھونسلے
میں پڑے بوٹ کی مانند ہیں۔اﷲ ان کے لئے اسباب ضرور پیدا کر دے گا لیکن کیا
اس کے بعد ہماری بخشش ہو پائے گی۔ ہم روزانہ کتنے ہی ایسے امتحانوں میں فیل
ہوتے ہیں جن کا ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ چک جلال دین ،راولپنڈی اسلام آباد
یا پاکستان میں ہے کوئی ایسا جو اس پرچے کو حل کر کے جنت خرید لے۔
ہاں میں آج جنت بیچنے نکلا ہوں۔ہے کوئی خریدارجو اعتبار کرے۔ہے کوئی جو ان
کا ہاتھ تھامے، ان کی مصیبت کو کم کرے ۔میں اسے جنت کی گارنٹی دیتا
ہوں۔خلوص نیت والوں کے لئے تو پکی لیکن آج ان کو بھی کچھ نہ کچھ ملے گا جو
فوٹو سیشن کے چکر میں مدد کرنا چاہیں۔یاد رہے کہ میری اس گارنٹی کو میرے
آقا و مولا رحمت العالمینﷺ کی منظوری حاصل ہے۔ ہے کوئی لوٹنے والا؟ہے کوئی
جنت کا خریدار؟ آؤ آج ایک فقیر نے جنت کی لوٹ سیل لگا دی ہے۔ سردار پرویز
صاحب توجہ دلانے کا شکریہ۔
اس سے زیادہ لکھنے کا یارا نہیں۔اگر کوئی صاحب جنت خریدنا چاہیں تو مجھ سے
چٹ لے لیں لیکن جنہیں اپنے اﷲ کو راضی کرنے کی لگن ہو وہ اس کینسر کے مریض
بزرگ کی مدد کریں۔ان کا پتہ سردار پرویز 03415233107یا چک جلال دین کے سابق
ناظم محمد آصف03335185936 سے مل سکتا ہے۔ |