پروفیسر صاحب کا سوال کافی دلچسپ تھا۔ ملک کی ترقی میں سب
سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟ میں ذہن پر زور ڈال کر اس کا جواب سوچنے لگا تو مسائل
کا ایک انبار میری سوچ کے گرد طواف کرنے لگا، ہر مسئلہ ایک سے بڑھ کر ایک،
جو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہونے کا حق دار تھا۔ دہشت گردی، توانائی
کا بحران، مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور جہالت سمیت بہت سے مسائل اپنی
پہلی پوزیشن کا حق جتلا رہے تھے۔ میں ابھی مسائل کی نمبرنگ کر ہی رہا تھا
کہ پروفیسر صاحب نے دوبارہ اسی سوال کو دہرایا ”آپ کے خیال میں کونسا مسئلہ
ملک کو ترقی نہیں کرنے دیتا؟ میں پھر سوچ و بچار کرنے لگا اور قبل اس کے کہ
پروفیسر صاحب سوال کو تیسری بار دہراتے، میں بول پڑا کہ ملک کی ترقی کی راہ
میں سب سے بڑی رکاوٹ ”دہشتگردی و بدامنی“ ہے۔ دہشتگردی کے باعث ملک کا ہر
شہری غیر محفوظ ہے، چار سو خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں، اسی لیے دوسرے ممالک
کے صنعتکار یہاں انویسٹمنٹ نہیں کرتے، غیر ملکی سرمایہ کار ہمیں ہمیشہ کے
لیے خیر باد کہہ رہے ہیں، جبدہشتگردی و بدامنی کے باعث ملکی معیشت کا بٹھا
بیٹھ جائے تو ملک ترقی کیسے کرسکتا ہے۔ پروفیسر صاحب میرا جواب سن کر
مسکرائے اور ناں میں سر ہلاتے ہوئے بولے آپ کا جواب درست نہیں ہے۔
پروفیسر صاحب کچھ دیرکے لیے خاموش ہوئے تو میں نے دوبارہ عقل کے گھوڑے
دوڑائے اور پراعتماد لہجے میں کہا کہ ”توانائی کا بحران“ ملک کو ترقی نہیں
کرنے دیتا۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے ملکی صنعتوں کا پہیہ جام ہے، ملک کی
بے شمار ملیں، فیکٹریاں اور کاروبار برباد ہوچکے ہیں، ملک کی آدھی انڈسٹری
ملک سے باہر منتقل ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف ملک میں بے روزگاری بڑھ
رہی ہے اور دوسری جانب ملکی ترقی کا پہیہ سست سے سست ہوتا جارہا ہے۔ میرا
جواب سن کر پروفیسر صاحب نے ایک بار پھر ناں میں سر ہلاتے ہوئے خوشگوار
لہجے میں کہا کہ چلیں آپ تیسری بار کوشش کریں۔ میرے پاس اب آخری تیر تھا،
جسے میں ہر حال میں نشانے پر لگانا چاہتا تھا، لہٰذا کافی دیر غور و فکر کے
بعد میں نے کہا کہ ”غربت“ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ غربت کی وجہ
سے لوگ چوریاں کرتے ہیں، ڈاکے مارتے ہیں، قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور
غربت کی وجہ سے ہی ملک میں جہالت بڑھتی ہے، لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں
دلوا سکتے،لاکھوں بچے اسکول نہیں جاسکتے اور ترقی کرنے کے لیے ملک کا
تعلیمی معیار انتہائی اعلیٰ ہونا انتہائی ضروری ہے، جبکہ ہمارے ملک کا
تعلیمی معیار انتہائی پست ہے، جس کی وجہ صرف غربت ہے، لہٰذا جب تک ملک سے
غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا، ملکی ترقی
میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ غربت ہی ہے۔
پروفیسر صاحب مسکراتے ہوئے بولے آپ تیسرے چانس میں بھی ناکام رہے ہیں۔
پروفیسر صاحب میرے چہرے پر بنے سوالیہ نشان کے ساتھ شرمندگی کے نمایاں آثار
دیکھ کر بلا تعامل کہنے لگے، بیٹا! دہشتگردی، تونائی کا بحران اور غربت
سمیت دیگر مسائل واقعی ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہیں، لیکن ملک کی ترقی میں
سب سے بڑی رکاوٹ ”میرٹ کا قتل عام“ ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے!
جو قوم بھی ترقی نہیں کر پائی یا ترقی سے تنزلی کی گھاٹیوں میں جا گری ہے،
اس کی بنیادی وجہ اس قوم میں میرٹ کا قتل عام ہی ہوگا۔ اگر کسی ملک میں
میرٹ پر کام نہیں ہوتے، میرٹ کی بجائے سفارشوں اور تعلقات کی بنیاد پر
تقرریاں ہونے لگیں تو پھر آہستہ آہستہ نااہل لوگ ہی زندگی کے ہر شعبے میں
حکمرانی کرتے ہیں اور اگر کسی جگہ اہل لوگوں کی جگہ ناہل لوگ براجمان
ہوجائیں، تو یہ یقینی بات ہے کہ یہ نااہل لوگ اس طرح بہتر کام نہیں کر
سکتے، جس طرح ایک اہل اور باصلاحیت شخص کرسکتا ہے۔ نااہل شخص کو با اختیار
بنانے کا مطلب بندر کے ہاتھ میں استرا تھمانا ہے، نااہل لوگ اچھے بھلے آباد
اور ترقی کرتے اداروں کو دنوں میں برباد کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں، یہ
ممکن نہیں کہ کسی جگہ نااہل لوگوں کے ہوتے ہوئے ترقی کی جاسکے اور تنزلی سے
بچا جاسکے، بلکہ نااہل شخص کے ہوتے ہوئے اسباب و وسائل بھی کام نہیں آتے۔
ہمارے ملک میں کس چیز کی کمی ہے، یہ ملک طویل و عریض سر سبز و شاداب میدانی
علاقوں پر مشتمل ہے، زراعت کے ذریعے پاکستان اپنی اور بیرونی دنیا کی
اجناسی ضروریات کو بخوبی پورا کرسکتا ہے، اس ملک میں سنہرے ریگستانوں کے
طویل قطعے موجود ہیں، جن کی بیش بہا معدنی پیداوار سے یہ ملک ایشیاءکا
”شہنشاہ“ بن سکتا ہے، اس ملک میں جہاں نیلا بحرعرب موجزن ہے، جس کے طویل
ساحلوں سے خوشحالی کے نئے باب کھل سکتے ہیں تو وہیں پر میٹھے پانیوں کے تا
حد نگاہ جال بھی رواں دواں ہیں، جس کے آب حیات جیسے پانی سے طویل المیاد
فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں، اس ملک میں اگر خشک کوہ اور پہاڑوں کے سلسلے پائے
جاتے ہیں تو سرسبز اور گھنے جنگلات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور ایک سال
میں چاروں موسم ہیں، اس ملک کی زمین اگر گیس، کوئلے، نمک، جپسم سے قیمتی
وسائل اگلتی ہے، تو وہیں پر یہ مہربان زمین سونے، چاندی، زمرد، یاقوت جیسے
ذخائر کا سینہ کھولے ہوئی ہے، وہ کونسی نعمت ہے جو قدرت نے اس ملک کو نہیں
دی ہے، لیکن ترقی پھر بھی ہمارا مقدر نہیں ہے۔
دنیا کے بہت سے ممالک میں پاکستان کے مقابلے میں وسائل انتہائی کم ہیں،
لیکن وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف میرٹ پر
عمل درآمد ہے۔ پاکستان میں اگر ہر شعبے میں فیصلے میرٹ پر ہونے لگیں تو یہ
ملک کچھ ہی عرصے میں ترقی کی منازل طے کرتا ہوا بہت بلندیوں پر پہنچ سکتا
ہے، لیکن قدرت کے عطا کردہ قیمتی اور بیش بہاوسائل سے لبریز ملک کی موجودہ
ابتر حالت نہایت ہی باعث شرم ہے، کیونکہ ہمارے اداروں میں میرٹ کا قتل عام
ہو رہا ہے، کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے میں بغیر سفارش اور بغیر تعلقات
کے کسی کام کا ہونا ناممکن کے قریب ہے۔ اگرچہ کوئی شخص وقت کا سقراط و
بقراط ہی کیوں نہ ہو، اپنے کام میں بلا کی مہارت رکھتا ہو، تمام شرائط پر
سو فیصد پورا اترتا ہو، بلکہ شرائط سے بھی زیادہ کوالیفائیڈ اور طویل تجربہ
رکھتا ہو، لیکن اگر اس کے پاس سفارش نہیں ہے تو وہ شخص ناکام ہے۔ کسی بھی
شعبے اور ادارے میں ترقی کرنے کے لیے پرفیکٹ شخص وہی ہے، جو بڑی سفارش اور
بڑے تعلقات رکھتا ہو، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہے، وہاں تعلقات
و سفارش کی بنا پر کام نہیں کیے جاتے، بلکہ کام میرٹ پر ہوتے ہیں، ہر شخص
کی صلاحیتوں کو جانچ کر اس کے مطابق ہر ایک کو مقام دیا جاتا ہے، افسوس! ہم
لوگ مجموعی طور پر کسی کی صلاحیتوں کو پرکھنے کی صلاحیت سے محروم واقع ہوئے
ہیں، حق دار کو اس کا حق نہیں دیتے اور تعلقات والوں کو ناحق نواز دیتے
ہیں، اسی لیے ہم ملکی سطح پر بھی ترقی کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ
تعلقات کا سہارا لے رہے ہیں اور دنیا بغیر کسی سہارے کے ترقی کی منازل طے
کر رہی ہے۔ پروفیسر صاحب بات کر کے خاموش ہوئے تو میرے پاس ان کی حقائق پر
مبنی گفتگو کی تائید کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ |